سارے جج ایک جیسے ہیں ۔۔ لیاقت علی

جسٹس اے آر کارنیلس کو ہماری عدالتی فوک لور میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔ان کا غیر مسلم ہونا ہی ہمارے لبرل کے لئے ان کی تعریف و توصیف کے لئے کافی ہے۔ جسٹس کارنیلس کو 1960 میں جنرل ایوب خان نے چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان مقرر کیا تھا اور وہ آٹھ سال ( 1968) تک جنرل ایوب خان کے چیف جسٹس رہے تھے۔جنرل ایوب خان پہلے مارشل ایڈمنسٹریٹراور فوجی صدر تھے۔ پاکستان میں فوجی اقتداراورپاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست بنانے میں ان کا کردار بنیادی ہے۔

جنرل ایوب نے اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی بنیادوں پر ججز کی تقرری کے عمل کو پوری یکسوئی سے جاری کیا, اورہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں ایسے ججز بھرتی کیے، جو ان کےاوران کے فوجی اقتدار کے حامی اورمدد گار ہوں۔جنرل ایوب خان نے قومی اسمبلی کے ایک رُکن( محمد افضل چیمہ) کو بطور رشوت ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا تھا۔ رکن موصوف نے قومی اسمبلی میں ایک اہم مسئلہ جو حکومت کی بقاء  کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل تھا، پرجنرل ایوب خان کو ووٹ دیا تھا۔ انھوں نے ایک معروف سیاست دان جس نے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابل صدارتی الیکشن میں انھیں ووٹ دیا تھا، کے بھائی(عبدالغنی خان خٹک) کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا جج مقررکیا تھا۔عدالتی حلقوں میں یہ کہانی مشہور تھی کہ سیاست داں تو اپنے بھائی کی تقرری بطور سول جج یا زیادہ سے زیادہ سیشن جج چاہتے تھے کیونکہ ان کا وکیل بھائی کبھی ہائی کورٹ میں کسی مقدمے میں پیش نہیں ہوا تھا، لیکن جنرل ایوب خان نے اسے ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا تھا اور یہ بھی لطیفہ بار روم میں سنایا جاتا تھا کہ جنرل ایوب کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہائی کورٹ کے ماتحت بھی کوئی عدالت ہوتی ہے، اس لئے انھوں نے   اس کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا تھا۔ جنرل ایوب خان نے ہائی کورٹ میں ایک جج(شمیم حسین قادری) کو اپنے پیر دیول شریف کی سفارش پر مقرر کیا تھا۔

جنرل ایوب خان اعلیٰ  عدلیہ میں ججز مقرر کرنے سے پہلے امیدواروں کے انٹرویوز لیتے تھے۔ انٹرویو میں کامیابی کا معیار امیدوار کی قابلیت سے زیادہ صدر کی صوابدید کو دخل تھا۔ ایک امیدوار کو اس بنِا  پر مسترد کردیا گیا کہ اس کے جوتے پالش نہیں تھے اور نہ ہی وہ اس کے سوٹ سے میچ کررہے تھے۔ ایک امیدوار کے سوٹ پر ناشتے میں اُبلا انڈا کھاتے زردی گر گئی تھی ،لہذا صدر نے اسے انٹرویو میں فیل کردیا تھا۔ایک امیدوار سے پوچھا کہ تم روایتی لاہوری ہو۔؟اس نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بھی مسترد قرار پایا تھا۔یہ انٹرویوز تو محض بہانہ اور شغل تھے۔صدر ایوب اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں اپنی صوابدید اور سیاست دانوں کے دباؤ  اور سفارش پر کرتے تھے۔ یہ سب کچھ کارنیلس کے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ سامنے ہورہا  تھا اور انھوں نے ان تقرریوں پر کبھی کسی قسم کااحتجاج نوٹ نہیں  کرایا تھا، اور اگر کرایا تھا تو اس کا کوئی پبلک ریکارڈ موجود نہ ہے۔

اے کارنیلس نے اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے سے تین ماہ قبل استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد بننے والے چیف جسٹس ایس اے رحمان تین ماہ تک چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہ سکیں۔اگر کارنیلس اپنی مدت ملازمت کے مکمل ہونے پر ریٹائر ہوتے تو جسٹس ایس اے رحمٰن  محض چند روز تک چیف جسٹس سپریم کورٹ رہتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جسٹس اے آر کارنیلس کے لئے جمہوریت اور جمہوری ادارے کوئی معنی اور اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ جمہوریت یا نو جمہوریت یہ ان کے لئے غیر ضروری بات تھی۔ وہ سیدھے سادے نوکری پیشہ شخص تھے ایسے شخص جسے ہر قیمت پر اپنا کیرئیر عزیز ہوتا ہے اور کیرئیر کا تسلسل اورتحفظ ہی اس کا اصول ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب مارچ 1969 میں جنرل یحییٰ  خان نے جنرل ایوب خان کو اقتدار سے محروم کرکے ملک میں مارشل لاء  لگایا تو کارنیلس نے ان کے وزیر قانون کا حلف اٹھالیااوربطور وزیر قانون انھوں نے اسلامی آئین کی تشکیل کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply