• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کتاب تبصرہ
  • /
  • کیا مولوی نذیر احمد کا ناول ” ایامیٰ” شعوری رو سے پہلا اُردو ناول ہے؟ ( پس منظر اور ایک تفہیمی تاثر)۔۔احمد سہیل

کیا مولوی نذیر احمد کا ناول ” ایامیٰ” شعوری رو سے پہلا اُردو ناول ہے؟ ( پس منظر اور ایک تفہیمی تاثر)۔۔احمد سہیل

ایامیٰ نذیر احمد کا چھٹا ناول ہے  ۔یہ ناول 1891ء میں منظر عام پر آیا ، اس ناول میں انھوں نے  ایک شرعی مسئلےسے متعلق عدم تعمیل کی بنِا پر پیدا شُدہ سماجی تشدد کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے ، مسلمانوں میں ان کے خود ساختہ مذہب اور رسم و رواج کی پابندیوں کے باعث اکثرو بیشتر بیوہ عورتیں  عقدِ ثانی سے محروم رہتی ہیں ، اور اس بِنا پر ان کی زندگیاں اجیرن  ہو جاتی ہیں ، ایسی زندگی کا المناک نقشہ نذیر احمد نے اپنے اس ناول میں پیش کیا ہے۔

ناول ” ایامیٰ  یوں “شروع   ہوتا  ہے ۔ ” شہر محلے اور خاندان کا کیا مذکور ہے ،گھر بھی کوئی ایسا ہو  ہوگا جس میں بوڈھی یا ادھیڑ( افسوس) یو یا( ہائے) لڑکی بیوہ نہ ہو”۔
یہ ناول ایک اوسط درجے کا ناول ہے اس میں  کوئی فنکارانہ جاذبیت اور کشش نہیں اور نہ  کوئی جاندارپلاٹ نظر آتا ہے۔ اور نہ کوئی واقعات میں ربط ہے اور نہ قاری ایامی کو پڑھ کر اس کی غیر ضراری مباحث کو غیر ضروری تصور کرتا ہے۔”

اردو کی محققہ اور ناقدہ سفینہ نے اپنے ایک مضمون میں ” ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ایامٰی کا جائزہ میں لکھا ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ایامیٰ ایک غیر معروف اور کسی حد  تک نایاب تصنیف ہے۔ اگرچہ اس ناول میں ڈپٹی نذیر احمد نے ایک مسلمان بیوہ کی دردناک کہانی بیان کی ہے۔ مقصد حسبِ معمول اصلاح ہے، نہ صرف ڈپٹی نذیر احمد بلکہ ان سے سو سال قبل شاہ ولی اﷲ اور ان کے صاحب زادے شاہ عبدالعزیز نے بھی بیوگی کے مسائل پر تھوڑی بہت روشنی ڈالی تھی۔مشہور تاریخ داں پروفیسر محمد عمر نے اپنے شہرۂ آفاق تحقیقی مقالے ’’ہندوستانی مسلمانوں پر ہندو ازم کے اثرات‘‘میں جہاں مثبت اثرات کی نشاندہی کی ہے وہیں کچھ منفی اثرات کا بھی ذکر کیا ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے مسلمانوں میں بیوہ کے استحصال، ان کی محروم زندگی اور ان کو سماجی تقریبات کے موقعوں پر نظر انداز کرنے کے عمل کو برادرانِ وطن کی تہذیب اور ستی کی رسم کا شاخسانہ بتایا ہے۔

’ایامیٰ‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی مردِ بے زن یا زنِ بے مرد کے ہیں۔ یہاں صریحاً بیوہ مراد لیے گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوہر کے انتقال کے بعد عورت، عورت نہیں رہتی بلکہ زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہے۔ اچھا پہن نہیں سکتی، سج سنور نہیں سکتی، شادی بیاہ کی رسم میں شامل نہیں ہوسکتی، اس کو تمام عورتوں سے مختلف زندگی گذارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات اس کو اپنے شوہر کی موت کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جاتا ہے اوریہ طعنہ بھی دیا جاتا ہے کہ کھاگئی اپنے شوہر کو۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ شوہر نہ ہونے کے سبب بیشتر لوگ بیوہ کا مختلف طرح سے استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوربے چاری عورت یہ سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہے کیونکہ بیوگی اس کا سب سے بڑا قصور ہے۔ اس صورتِ حال کو ڈپٹی نذیر احمد نے آزادی بیگم کی زبانی بیان کیا ہے۔”

*ڈپٹی نذیر احمد کو احساس ہے کہ شوہر کے انتقال کے ساتھ بیوی کی ضروریات کا اختتام نہیں ہوتا:
’’ ان بے چاریوں کے شوہر فوت ہوئے ہیں نہ کہ وہ ضرورت جس کی وجہ سے دنیا جہاں میں نکاح ہوتے ہیں اور جن کی وجہ سے خود ان کے پہلے نکاح ہوئے تھے۔‘‘(ص:264)

اس عہد میں جب سے ڈپٹی نذیر احمد خود بھی اکبری اور اصغری کی کہانیاں لکھ رہے تھے۔ نسائی خواہشات اور اس کے انسلاکات کا ذکر بھی گناہ تھا۔ نذیر احمد نے اس سلسلے میں بھی پہل کی۔ جب آزادی بیگم کو ایک غیر مرد کی آواز سن کر کشش محسوس ہوتی ہے تو ڈپٹی صاحب بڑے جذباتی انداز میں اس کا ذکر کرتے ہیں:

’’جسم پر میرا بس چلتا تھا اور اس کی میں نے حفاظت کی۔۔ لیکن دل تو میرے اختیار میں نہ تھا۔ وسوسوں کو کیونکر روکتی، خیالات کو کس طرح ٹالتی ۔ پس میرا بدن بالکل بے گناہ ہے لیکن دل میں نہ اس کو بے گناہ سمجھتی ہوں اور نہ بے گناہ کہتی ہوں۔ مجھ پر ایک وقت گزرا ہے دن نہیں، ہفتے نہیں مہینے نہیں بلکہ برس کہ مرد کی آواز میرے کانوں کوبھی بھلی معلوم ہوتی ہے۔ رات کو چوکیدار پکارتا یا دن کو سودے والے صدا لگاتے تو میں کان لگا کر سنتی بلکہ ایک دفعہ تو بے اختیار ہوکر ڈیوڑھی میں جاکر کھڑی ہوئی اور پھر مہینوں اپنے تئیں ملامت کرتی رہی۔۔ بیوہ ہوکر بیوگی کی قدر جانی کہ دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔‘‘ (ص:265-66)

ایامیٰ میں ڈپٹی صاحب نے عور ت کی ضروریات اور اس کی جنسی خواہشات پر بھی روشنی ڈالی اور اس کی زندگی کی تلخ حقیقت کا پردہ فاش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اور ہر مسئلہ کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں مدلل بیان کیا۔ اس لیے ان کے ناولوں میں قرآنی آیتوں کے اکثر حوالے ملتے ہیں۔ اس ناول میں ایک جگہ یہ آیت بیان کی گئی ہے۔ ’’وانکحو الایامی منکم۔‘‘ (اپنی رانڈوں کے نکاح کردو)

 ” ناول ایامٰی اور شعور کی رو ۔۔۔ اور اس کا  پس منظر ”  
شعور کی رو انسانی شعورکا ایک سیال تصور ہے۔ جو مستقلاً تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ رواں دریا کے دھارے کی موجوں کی مانند   خیالات اور تاثرات، مسلسل ابھرتے ہیں اور معدوم بھی ہو جاتے ہیں۔
شعور کا شعور بیانیہ کا ایک ایسا طریقہ ہے جو ان گنت خیالات اور احساسات کو پیش کرتا ہے جو دماغ سے گزرتے ہیں۔ افسانے میں   یہ طریقہ حروف کے اندرونی خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ شعور کی  اصطلاح امریکی فلسفی اور ماہر نفسیات ، ولیم جیمس نے 1879 میں اپنے اصول نفسیات میں پیش کی تھی ۔ تاہم ، شعور کے دھارے کی تکنیک بیسویں صدی کے پہلے حصے میں جدید ناول نگاروں کے ساتھ وابستہ ہے۔

مصنف شعور کی اس تکنیک کو سوچنے کے عمل کے مساوی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ کرداروں کے فطری خیالات کی تقلید کرنے کی کوشش کرتا ہے ، لہذا یہ اکثر خرابی کی کیفیت یا افراتفری کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ   شعور کے دھارے میں اکثر اسکیپٹیو چھلانگ کی کمی ، اوقاف کی کمی ، گرائمیٹیکل اور مصنوعی انحرافات اور بول چال زبان کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ خصوصیات فکروں کے فطری انتشار کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ بیانیہ طویل ، باہم مربوط بھی استعمال کرتا ہے۔ میک ملن انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ’’شعور کی رو‘‘ ناول میں استعمال ہونے والی ایک تکنیک ہے، جس میں کسی کردار کے ذہن میں جنم لینے والے تاثرات خیالات اور جذبات کی روانی کو ماپا جاتا ہے جی۔آر ملک اسے ایسا طریقہ کار قرار دیتے ہیں، جس کے ذریعے کسی کردار کو زمان و مکان سے ماورا پیش کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی کا موقف کہ ہم جب آپس میں تبادلۂ خیال کرتے ہیں تو زبان کے قواعد یا عام بول چال کے اصولوں کا خیال رکھتے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کو اسی طرح بیان کرے، جس طرح وہ ذہن میں آتے ہیں تو اسے شعور کی رو کہا جائے گا۔ بہ الفاظِ دیگر شعور کی رو ایک ایسی تکنیک ہے، جس کے ذریعے کسی قصے یا واقعےکو بیان کرنے کےلیے منصوبہ بندی یا پلاٹ کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ اسے اسی طرح بیان کیا جاتا ہے،جیسے کسی فرد کےدماغ میں تاثرات کی بے ہنگم دھار بہہ رہی ہو۔

ادبی، نفسیاتی اصطلاح سے شعور کی رو اصلاً نفسیات کا ایک علم جدید ہے۔ اس کی دریافت امریکی سکالرولیم جیمس نے کی تھی۔ اس کے نظریے کے مطابق انسانی شعور ایک سیال مادے کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی انسان کے ذہن میں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر خیالات و تصورات فلم کے پردے کی طرح چلنے لگتے ہیں۔ ایک خیال کسی دوسرے خیال یا واقعے سے ذرا سی مناسبت کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور یہ عمل کسی نقطے پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اگرچہ شعور کا دھارہ ہمیشہ داخلی ایکولوجی کے ساتھ قریب سے وابستہ ہوتا ہے ، لیکن یہ بھی اہم ہے کہ یہ دونوں اصطلاحات مترادف نہیں ہیں۔ شعور کا دھارا اس موضوع سے مراد ہوتا ہے۔ مادہ جبکہ داخلی خلوت سے مراد موضوع کو پیش کرنے کی تکنیک ہے۔ اس کے علاوہ ، ایک داخلی خلوت ہمیشہ ایک کردار کے خیالات کو براہ راست پیش کرتی ہے ، یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کو تاثرات اور تاثرات سے ملائے ، اور یہ شعور کے دھارے سے کہیں زیادہ منظم   ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کبھی کبھی انسان کے ذہن میں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر خیالات و تصورات فلم کے پردے کی طرح چلنے لگتے ہیں۔ ایک خیال کسی دوسرے خیال یا واقعے سے ذرا سی مناسبت کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور یہ عمل کسی نقطے پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ سجاد ظہیر کا ناول ”لندن کی ایک رات “ بھی آزاد تلازمۂ خیال کی تکنیک میں لکھاگیا ہے۔ سید سبط حسن سجاد ظہیر کی شعور کی رو کی تکنیک کے بارے میں لکھتے ہیں: وہ (سجاد ظہیر) اردوکے غالباً پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اپنے ناول ”لندن کی ایک رات“ میں شعور کے موج در موج بہاؤ کو قلمبند کرنے کا تجربہ کیا، لیکن محققین اور ناقدوں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد حسن عسکری کے افسانے ” حرامجادی” اور ” چائے کی پیالی” میں شعور کی رو کا احساس دلوایا۔حسن عسکری نے ’’ستاں دال‘‘ کے ناول کا ترجمہ ’’سرخ و سیاہ‘‘ کے عنوان سےکیا ،جس میں شعور کی رو کا استعمال کیا گیا تھا مگر یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ سب سے پہلے مولوی نذیر احمد دہلوی نے1875 میں اپنے  ناول ” ایامٰی” میں شعور کی رو کی تکنیک دردونی خود کلامی کی شکل میں معتدبہ استعمال کیا ہے اس ناول کی مرکزی کردار آزادی بیگم کے متعلق خود مصنف یا کوئی دوسرا کردار کچھ نہیں کہتا۔ قاری کے سامنے آزاد ی بیگم کا کردار صرف اس کے ذہنی بیانات اور اس کے ذہن میں موجود خیالات اور تصورات کے حوالے سے نمایاں ہوتے ہیں۔ میں یہاں یہ توجہ دلوانا چاہتا ہوں کہ ناول ” ایامی” اردو میں شعور کی رو کے استعمال کے نقوش ملتے ہیں۔ اس میں وسیع پیمانے دردنی خود کلامی کا استعمال ہوا ہے ۔ بلکہ ناول کی بنیاد اور بیانیہ اس کے مرکذی کردر ناول کے مرکذی کردار کی معاشرتی اور نفسی کاریت کے گرد گھومتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ  جس میں  بیوہ عورت کے جنسی اورشہوانی جذبات کا اظہار نذ یر احمد نے بڑی ہمت اور دلیری اور حقیقت پسندانہ خود کلامی سے اپنے بیانیہ متن کا حصہ بنایا ہے۔ شعور کی  ر و  کا ایک خلیقہ یا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں ماضی، حال مستقبل میں  کوئی فرق نہیں رہتا۔ ناول ” ایامٰی” میں ماضی کی یادوں ، حال کے واقعات اور مستقبل کے خطرات کا ایک تسلسل میں بیان ہے۔ شعور کی رو  کی دوسری خصوصیت یہ ہے کی اس میں کردار کی” صورت گری” کسی خارجی ذریعہ سے نہیں ہوتی بلکہ خود کردار کی نفسیات کیفیات، جذباتی تاثرات و احساسات کے بیان سے ہو، ایامی میں  آزادی بیگم کے کردار کے کا تعلق خود مصنف یا کوئی دوسرا کردار کچھ نہیں کہتا۔۔ قاری کے مدنظر آزادی بیگم کا  کردار صرف اس کے ذہن میں گزرے  ہوئے خیالات و تصورات کے توسط سے سامنے آتا ہے۔ قراۃ  العین حیدر کے ناول ” آگ کا دریا” میں ضمنی طور پر  اور اس ناول کے چھپنے سے کوئی گیارہ بارہ سال پہلے اختر انصاری نے اپنے مختصر افسانے ” بھول” میں دردونی خعف کلامی یا شعور کی رو کو  بڑے خوبصورت انداز سے اپنے متن  میں شامل کیا ہے۔ اس سے قبل1954 میں خلیل احمد نے اپنے ناول ” جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے ” میں شعور کی روح کا  موثر   اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ایامی نذیر احمد کا ناول ” ایامٰی” انکےتصور حیات، اور نظریات میں ایک بدلاؤ  پیدا ہوا تھا۔ زمانی اعتبار سے ایامی نذیر احمد کی آخری ناول ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رویائے صادقہ ان کا آخری ناول ہے۔ ۔ ایامی 1891 میں   مطبع فیضی   دہلی سے شائع ہوا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply