محبوبہ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

میں سنی سنائی پہ یقین نہیں کرتی لہذا شادی کے بعد جب میری نندوں نے کہا
” وکی کا دھیان رکھنا بہت فلرٹی  ہے۔ ”
تو میں نے سوچا، بہنیں ہوتی ہی پاگل ہیں اپنا بھائی اینو یں سابھی ہو انہیں پیارا ہی لگتا ہے ۔ اتنی معمولی شکل وصورت والے کا کیا خیال رکھنا، میری ماں کو تو چکر دے لیا کہ بیوہ پہ بیٹی کا بوجھ تھا، اب ساری دنیا میری امی کی طرح معصوم تو نہیں ۔
لیکن نندیں سچ کہتی تھیں ۔
کچھ عرصے بعد موصوف کے گن کھلنے شروع ہوگئے ، طریقہ واردات بھی سمجھ آگیا ۔
وہ بے ضرر طریقے سے خود کو مسکین، کم رو اور اَن پڑھ پینڈو کہہ کر احمقانہ تعارف کرواتا،  پھر کچھ عملی اور زبانی لطیفے تخلیق کرتا ، خاتون بےضرر کارٹون سمجھ کر ایزی ہوتی جاتی   اور یہ لطائف اور ظرائف کی آڑ میں قریب سے قریب تر ہو جاتا ۔
کیونکہ کچھ عرصہ بات چیت اور ملاقاتوں کے بعد شکل و صورت کی ثانوی حیثیت بھی نہیں رہتی ۔
ایک سائیکا ٹرسٹ جو ناروے ریٹرن تھی جناب اسے گلیاں نالیاں بنانیوالا ٹھیکیدار بن کر ملے ۔
بیچاری سال بھر پاکستان رہی اور چھیما ٹھیکیدار اسے سڑکوں پہ سنگھاڑے ،بیر اور کھٹے آلوچے کھلاتا رہا ۔

مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا کہ میں نے اسے اپنی کھری اور سچی محبت دی ہے اور وہ دوسروں سے بچی کھچی چاہتیں مجھے دیتا ہے۔
لیکن پہلی بار تب چونکی جب میرا بھائی چلا گیا ۔ان دنوں ہر رات خواب میں امی ابو ملتے تھے ۔کبھی بھائی ساتھ ہوتا ۔کبھی وہ اکیلے ۔میں انہی کے ساتھ جانا چاہتی تھی ۔ہمیشہ کہ لئے سوجانا چاہتی تھی
۔لیکن سلیم کی آواز سے ہربار آنکھ کھل جاتی ہے  ۔

وہ جان گیا تھا کہ رابی جینا نہیں چاہتی، جادوگر کو کام مل گیا، موکل کو آسانی سے کہاں جانے دیتا ؟۔حصار کھینچ کے چِلّے پہ بیٹھ گیا ۔دومہینے بھی نہ گذرے مجھے ذمہ داریوں کے جنتر منتر سناکر پھر سے زندہ کرلیا ۔”اپنے بچے بھول جاؤ۔بڑے ہوگئے ہیں۔
بھانجیوں بھتیجیوں کو تمہاری ضرورت ہے “میں نمازوں سے بھاگ رہی تھی اس نے روزے بھی فرض کرادیے  ۔تب سےجینا چاہتی ہوں ۔تینوں جانے والے خواب میں آکر ملتے ہیں ۔ اب میں ان سے آنکھ چرانے لگی ہوں ،بے ایمان ہوگئی ہوں ۔میں اب مرنا نہیں چاہتی تھی ۔

پھر راہ چلتے یہ “ہرنیا ” مل گیا ۔پہلی بار مرنے سے بہت ڈر لگا ۔اس کو پہلے خود سے چھپایا ۔پھر سلیم سے ۔
وہ انھی دائی کا جما ۔
اڑتی چڑیا کو آنکھ بھر کے دیکھ لے تو وہ اگلے دن برقعے میں اُڑے ۔
جان گیا کہ چکر دے رہی ہے ۔ایک نیا سلسلہ شروع کردیا ۔روز سیر پہ لے جاتا ۔سمجھاتا ،اکساتا کہ اگر اس سے جان چھوٹ جائے گی تو زندگی آسان ہوجائے گی ۔
میرے ماننے نہ ماننے سے پہلے درد اتر آیا ۔میں نے برداشت کیا ۔
آپریشن نہ ہو ۔باقی ہر جوڑ توڑ کیا ۔
لیکن اب کچھ بھی معدے میں رکتا نہیں تھا ۔
چلو چلو ہسپتال چلو ۔۔۔
تین دن تو بھاگ دوڑ رہی ۔چوتھے دن آپریشن ہوگیا ۔۔۔
چار دن بعد گھر آئی ہوں ۔
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساری کہانی سنانے کا مقصد کچھ بھی نہیں ۔بس بتانا تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ میں نے اسے اپنی کھری اور سچی محبت دی ہے اور وہ دوسروں سے بچی کھچی چاہتیں مجھے دیتا ہے  ۔ایسا نہیں ہے ۔رنگباز ہربار محبت کو نیا رنگ دے دیتا ہے ۔پرانے رشتوں سے نیا تعلق کشید کرتا ہے ۔
بیوی کا آپریشن کروا کے محبوبہ لے آیا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply