ثاقب نثار صاحب کی جو آڈیو لیک ہوئی ہے اسے سچایا جھوٹا ثابت کرنے کے لئے موبائل فون میں نصب کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر جو من میں آئے بیان کردو۔ بعدازاں اسے یوٹیوب پر چڑھادو۔ وہاں لگی وڈیو کو کم از کم پانچ سے سات ہزار لوگ دیکھ لیں گے۔ آپ کا صحافت سے مگر کبھی دور پرے کا واسطہ بھی رہا ہو تو ایسی ہی ویڈیو کے ناظرین کی تعداد 30ہزار سے بھی تجاوز کرسکتی ہے۔
1975سے میں نے صحافت کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن سے تعلق سکول کے زمانے ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ پی ٹی وی کے لئے بہت ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ ان کی تیاری میں پروڈیوسر اور اداکاروں سے بڑھ کر حصہ ڈالتا تھا۔ 2007میں ایک ٹی وی شو مشتاق منہاس کے ساتھ شروع کردیا تھا جو ان دنوں کافی مقبول بھی ہوا۔ اس شو کے بعد سے کئی ٹی وی چینلوں سے وابستہ رہا۔ عمران حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے چند ہی ہفتوں بعد مگر ٹی وی چینلوں کو دریافت ہوا کہ میں ان کے لئے منافع کمانے کے بجائے مالی بوجھ بن جاتا ہوں۔ زندگی میں پہلی بار نوکری سے نکالے جانے کی ذلت برداشت کرنا پڑی۔ اس سے قبل ہمیشہ استعفیٰ ہی دیتا رہا تھا۔
بے روزگاری کے عذاب سے گھبرا کر مجھے بھی فی الفور یوٹیوب پر اپنا چینل بنالینا چاہیے تھا۔ فطرتاََ مگر کاہل ہوں۔ گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت محسوس ہوتا ہے۔ چاہنے والوں کا اصرار شروع ہوا تو صرف یہ کالم اخبار میں چھپنے کے بعد ہی یوٹیوب کے لئے پڑھ دیتا ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر کالم پڑھنا شروع کر ہی دیا تھا تو کبھی کبھار کیمرے کے روبرو اپنی شکل سمیت چند گراں قدرخیالات کے اظہار کا آغاز بھی کردیتا۔ طبیعت مگر اس جانب مائل ہی نہیں ہورہی۔
میڈیا کا سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئی سوشل میڈیا پر مقبول ہوئی وڈیوز کے تجزیے کی عادت ہے۔ اس عادت کی بدولت مجھے گماں ہے کہ اگر باقاعدگی سے یوٹیوب پر یاوہ گوئی شروع کردوں تو کافی رش لے سکتا ہوں۔ یہ رش لینے کے لئے تاہم مجھے صحافتی ذمہ داری کے احساس سے نجات پانا ہوگی۔ ایمان داری سے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ثاقب نثار کی آڈیو کا سچایا یا جھوٹا ہونا اپنے تئیں اہم ترین مسئلہ نہیں۔ وسیع تر تناظر میں یہ آڈیو واقعتا درست ہے تو اس کے مضمرات کا جائزہ ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کو لینا چاہیے۔ بنیادی معاملہ اس کی اجتماعی ساکھ کا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ ساکھ اگرچہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت والے فیصلے ہی سے کمزور ہونا شروع ہوگئی تھی۔ 1950کی دہائی میں ہوئے اس فیصلے نے پاکستان میں پہلے مارشل لاء کی راہ بنائی۔ بعدازاں جنرل یحییٰ، ضیاء اور مشرف بھی نظریہ ضرورت ہی سے فیض یاب ہوتے رہے۔ ثاقب نثار سے منسوب ہوئی آڈیو اس تناظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ اور آپ کی روزمرہّ زندگی سے جڑے مسائل مگر ہمیں فلسفیانہ غور کی فرصت ہی فراہم نہیں ہوتیں۔
بدھ کی صبح سے افواہ پھیلنا شروع ہوئی کہ جمعرات کے دن سے پیٹرول پمپ بند ہوجائیں گے۔ ملک بھر میں اس خوف کی وجہ سے پیٹرول پمپوں کے باہر موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ لوگ پریشان تھے کہ انہیں روزمرہّ فرائض کی ادائیگی کے لئے نقل وحرکت کی سہولت دستیاب رہے گی یا نہیں۔ پریشانی کے اس عالم میں انہیں ثاقب نثار کی آڈیو کو جھوٹا یا سچا ثابت کرنے کی کاوشیں فروعی معاملات پر چسکہ فروشی کے علاوہ کچھ اور محسوس نہیں ہوتے۔
میری دانست میں اس وقت وطن عزیز کا سنگین ترین مسئلہ مہنگائی کا طوفان ہے۔ اس طوفان نے کم آمدنی والے تن خواہ داروں اور دیہاڑی داروں کے چہروں کی مسکراہٹ چھین لی ہے۔ وہ بے نور آنکھوں کے ساتھ خلائوں میں گھورتے نظر آتے ہیں۔ میں خلق خدا کے چہروں کی رونق چھیننے والے افراد واسباب کا سراغ لگانا چاہتا ہوں۔ عمران حکومت اور اس کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج کا دعویٰ ہے کہ یہ رونق درحقیقت 2008سے 2018تک اقتدارمیں باریاں لینے والوں نے چھینی ہے۔ پاکستانیوں کی ایک مؤثر تعداد نے ان کے دعویٰ پر اعتبار کیا۔ مبینہ طورپر سیاست دانوں کا روپ دھارے چوروں اور لٹیروں کی احتساب بیورو کے ہاتھوں تذلیل آمیز گرفتاریوں سے خوش ہوتی رہی۔ شریف خاندان کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے سنائی داستانیں بھی ہمارے عوام کے مؤثر حلقے کو تسکین پہنچاتی ہیں۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر اس حکومت نے بھی تو کچھ فیصلے لئے ہیں۔ یہ سوال اٹھانا لازمی ہے کہ اس نے ماضی کی حکومتوں کو ہماری ہر مشکل کا ذمہ دار ٹھہرانے کے علاوہ بھی کچھ کیا ہے یا نہیں۔ اس سوال پر ریگولر اور سوشل میڈیا میں جاندار بحث نہیں ہورہی۔ میں اس ضمن میں فرہاد جیسے مجنوں کی طرح جوئے شیر لانے کی مشقت میں جتا رہتا ہوں۔ ثاقب نثار سے منسوب آڈیو کو نظرانداز کرتے ہوئے آپ کی توجہ اس جانب دلاتارہاکہ چند دن کی بڑھکیں لگانے کے بعد شوکت ترین صاحب بھی بالآخر آئی ایم ایف کے روبرو ڈھیر ہوگئے ہیں۔ ان کا ڈھیر ہوجانا مگر ان کی ذات کے لئے پریشانی کا باعث ہرگز نہیں۔ وہ ایک کامیاب بینکار رہے ہیں۔ ربّ کریم نے ہر نوع کی راحتوں سے نواز رکھا ہے۔
آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر لینے کی قیمت بالآخر میرے اور آپ جیسے عام شہری نے ادا کرنا ہے۔ جس رقم کے حصول کا معاہدہ ہوا ہے وہ فقط اسی صورت ہماری حکومت کو دستیاب ہوگی اگر رواں برس کے اختتام سے قبل وہ بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربااضافے کے علاوہ 550ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانا بھی یقینی بنائے۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی اعلان سے ہوجاتا ہے۔ نئے ٹیکس لگانے کے لئے تاہم ضمنی بجٹ نامی شے قومی اسمبلی سے منظور کروانا ہوگی۔
مجھے خدشہ ہے کہ فوری طورپر قومی اسمبلی سے رجوع کرنے سے قبل حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نئے ٹیکس کے اطلاق کا اعلان کردے گی۔ غالباََ یہ آرڈیننس آئندہ ہفتے میں جاری کردیاجائے گا۔ اس کے اجراء کے بعد اشیائے صرف کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ مذکورہ اضافے کی منظوری مگر قومی اسمبلی سے ہر صورت لینا ہوگی۔ جب یہ منظوری ہوگئی تو ہم محض شوکت ترین اور آئی ایم ایف ہی کو اپنی مشکلات کا ذمہ ٹھہرانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ ہماری مشکلات کے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے علاوہ اتحادی جماعتوں کی نشستوں پر بیٹھے تمام اراکین بھی وزیر اعظم عمران خان سمیت برابر کے ذمہ دار ہوں گے۔
آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کا اطلاق روکنا فقط اسی صورت ممکن ہے اگر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے والا ضمنی بجٹ قومی اسمبلی نامنظور کردے۔ کثیر تعداد میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی سیاسی جماعتیں مگر اس قابل نہیں۔ اہم ترین قانون سازی کے لئے بلکہ وہ اندھی نفرت وعقیدت کے موسم میں بھی حکومت کی اکثر سہولت کاررہی ہیں۔ اس ضمن میں فقط دو واقعات یادر کھنا ہی کافی ہے۔ پہلا ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی معیادِ ملازمت کو باقاعدہ بنانے کے حوالے سے رونما ہوا تھا۔ اس کے بعد دس سے زیادہ قوانین کا پلندہ بھی پارلیمان میں تفصیلی بحث کے بجائے تاریخی عجلت میں انگوٹھے لگانے سے ہوا تھا۔ جواز اس کا پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانا تھا۔ ہم اگرچہ اس لسٹ میں آج بھی موجود ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی دن میں 33قوانین منظور کروائے ہیں۔ یہ منظوری ممکن ہی نہ تھی اگر “سیم پیج” والی حقیقت یا گماں اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے۔ مجھے خدشہ ہے کہ مذکورہ گماں یا حقیقت عمران حکومت کو ضمنی بجٹ بآسانی منظور کروانے میں بھی کماحقہ مدد فراہم کرے گی۔ مجھ جیسے افراد کی مچائی دہائی کسی کام نہیں آئے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں