ہمارے دیس میں جج بھی وزیر ہو تا ہے۔۔گل بخشالوی

دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمدکو پر جوش خطاب سنتے ایسا لگا کہ بلاول بھٹو کسی جلسے یا اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان پر برس رہے ہیں ایسابھی لگا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کہیں میاں شہباز شریف کی طرح زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات کرتے ہوئے خام خیالی میں زرداری کو تھپڑ مارتے ہوئے جوش میں روسٹرم پر پڑ ے تمام مائیک ہی نہ گرا دیں ، جانتے ہیں سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن علی احمد کرد کے دکھائے ہوئے آئینہ میں حقائق پر سیخ پا ہونے سے قبل چیف جسٹس اپنے مقام اور مرتبے کا بھی خیال رکھتے ۔

البتہ میں نے اپنی غزل کے ایک شعر میں ایک لفظ تبدیلی کے دور میں تبدیل کر د یا۔مزاحمتی ادب میں غزل کا مطلع اور ایک شعر کچھ اس طرح ہے!
شریف ذات میں اپنے اسیر ہوتا ہے ، جو بد قماش ہو گاؤں میں پیر ہوتا ہے
کسی سے کیا کریں شکوہ  کہ دور حاضر میں، ہمارے دیس میں غنڈہ وزیر ہوتا ہے
(آخری مصرح کچھ اس طرح کر دیا، ہمارے دیس میں جج بھی وزیر ہو تا ہے)

اپوزیشن جمہوریت کا حسن ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اپوزیشن الیو ن اور حکومت کے لئے یہ کہنا منا سب نہیں ، اس لئے کہ اپوزیشن جب عمران خان پر برستی ہے تو عمران خان کے وزیر بھی بازاری لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیا کرتے ہیں۔
اگرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے اپنے خطاب میں سوال اٹھایا کہ ’ملک میں کون سی عدلیہ موجود ہے؟‘ تو انہوں نے کیا غلط کہا پوری قوم جانتی ہے ، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کیا ہوا کس نے کیا کہا ،ملاحظہ کیجیے۔

انسانی حقوق کے موضوع پر دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز عدلیہ کی کارگردگی پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے اپنے مخصوص انداز میں دھواں دار خطاب میں عدلیہ کی خوب خبر لیتے ہوئے علی کرد نے کہا کہ ’ایک جرنیل 22 کروڑ عوام پر حاوی ہے۔ یا تو اس جرنیل کو نیچے آنا پڑے گا یا لوگوں کو اوپر جانا پڑے گا۔ وکلا رہنما کرد کے مطابق پاکستان کی عدلیہ کو ’رول آف لا انڈیکس‘ میں 126ویں نمبر پر ’جرنیلوں نے پہنچایا ہے۔ اس سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ضرورت ہے جو ستر سال سے آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ’ملک کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے، بلوچستان میں لوگوں کو ایجنسیاں اٹھا کر لے جاتی ہیں۔‘جواب میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ’انتشار مت پھیلائیں، کسی کی جرات نہیں عدلیہ پر دباؤ  ڈالے، کسی سے کبھی ڈکٹیشن نہیں لی ۔میں علی احمد کرد کے موقف سے متفق نہیں ۔کبھی کسی ادارے کی بات سنی اور نہ کبھی ادارے کا دباؤ  لیا، مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ فیصلہ کیسے لکھوں، کسی کو مجھ سے ایسے بات کرنے کی کوئی جرات نہیں ہوئی۔’کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، اپنے فیصلے اپنی سمجھ اور آئین و قانون کی سمجھ کے مطابق کیے۔‘ ‘لوگوں کو غلط باتیں نہ بتائیں، انتشار نہ پھیلائیں، اداروں کے اوپر سے لوگوں کا بھروسہ نہ اٹھوائیں۔ پاکستان میں (کسی) انسان کی نہیں قانون کی حکمرانی ہے۔‘’ہم جس طرح سے کام کر رہے ہیں کرتے رہیں گے، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کریں گے اور اسی کا پرچار کریں گے، کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ علی احمد کرد نے کانفرنس کا موضوع ہی تبدیل کر دیا ہے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی احمد کرد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی تقریر سے پتا چلا کہ لوگ اور بار ایسوسی ایشنز ججز کے بارے کیا سوچتی ہیں۔’کئی عدالتی فیصلے ماضی کا حصہ ہیں جنھیں مٹایا نہیں جا سکتا۔ ماضی میں عدلیہ نے جو غلطیاں کیں، انھیں نہیں دہرائیں گے۔‘ ’جو جج آزاد ہو اس کے دباو میں آنے کا جواز نہیں۔ہم سب ایک حلف کے پابند ہیں اور اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیں۔ میڈیا کو آزاد ہونا چاہیے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply