سورج کا ساتواں گھوڑا-دھرم ویر بھارتی(1)۔۔مترجم:عامر صدیقی

ترتیب

پہلی دوپہر۔۔۔۔نمک کی ادائیگی

دوسری دوپہر۔۔۔۔گھوڑے کی نال

تیسری دوپہر۔۔۔۔عنوان مانک ملّا نے نہیں بتایا

چوتھی دوپہر۔۔۔۔مالوا کی یُورانی دیوسینا کی کہانی

پانچویں دوپہر۔۔۔۔کالے دستے کا چاقو

چھٹی دوپہر۔۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ

ساتویں دوپہر۔۔۔۔سورج کا ساتواں گھوڑا

****

پہلی دوپہر

نمک کی ادائیگی

یعنی مانک نے جمنا کانمک کیسے ادا کیا۔

انہوں نے سب سے پہلی کہانی ایک دن گرمیوں کی دوپہر میں سنائی تھی، جب ہم لوگ لوء  کے خوف سے کمرہ چاروں طرف سے بند کر کے، سر کے نیچے بھیگا تولیہ رکھے خاموشی سے لیٹے تھے۔ پرکاش اور اونکار تاش کے پتے  بانٹ  رہے تھے اور میں اپنی عادت کے مطابق کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک مانک نے مجھ سے کتاب چھین کر پھینک دی اور بزرگانہ انداز میں کہا،’’یہ لڑکا بالکل نکما نکلے گا۔ میرے کمرے میں بیٹھ کر دوسروں کی کہانیاں پڑھتا ہے۔ بول کتنی کہانیاں سنے گا۔‘‘سبھی اٹھ بیٹھے اورمانک ملّا سے کہانی سنانے کا اصرار کرنے لگے۔ آخر میں مانک ملّا نے ایک کہانی سنائی، جس میں انکی کہانی کے مطابق اسکا تجزیہ یہ کیا تھا کہ پیارنامی احساس کوئی پراسرار، روحانی یا سیدھا سادا انفرادی احساس نہیں ہے بلکہ حقیقتاً ایک سیدھا سادہ سماجی احساس ہے، اس لئے سماجی نظام سے جڑا ہوتا ہے اور اس کی بنیاد معاشی اور طبقاتی اونچ نیچ پر قائم ہے۔

روایت کے مطابق پہلے انہوں نے کہانی کا عنوان بتایا، ’’نمک کی ادائیگی‘‘۔ اس عنوان پر ناول نگاری کے شہنشاہ پریم چند کے ’’نمک داروغہ‘‘ کے کافی اثرات معلوم ہوتے تھے،لیکن کہانی سیدھی سادی اور اصلی تھی۔ کہانی کچھ اس طرح سے تھی ۔۔۔۔

مانک ملّا کے گھر کے ساتھ ایک پرانی کوٹھی تھی ،جس کے پیچھے چھوٹا سااحاطہ تھا۔ احاطے میں ایک گائے رہتی تھی،اور کوٹھی میں ایک لڑکی۔ لڑکی کا نام جمنا تھا، گائے کا نام معلوم نہیں۔ گائے بوڑھی تھی، رنگ لال تھا،اور سینگ نوک دار۔ لڑکی کی عمر پندرہ سال کی تھی، رنگ گندمی اور لہجہ میٹھا،ہنس مکھ اور الھڑ۔ مانک ، جن کی عمر صرف دس برس کی تھی، اسے جمنیاں کہہ کر بھاگا کرتے تھے اور وہ بڑی ہونے کی وجہ سے جب کبھی مانک کو پکڑ پاتی تھی تو انکے دونوں کان مروڑتی اور چٹکیاں کاٹ کر سارا بدن لال کر دیتی۔ مانک ملاّ فرار کی کوئی راہ نہ پا کر چیختے تھے، معافی مانگتے اوربھاگ جاتے تھے۔

لیکن جمنا کے دو کام مانک ملّا کے سپرد تھے۔ الہ آباد سے نکلنے والے جتنے سستے قسم کے رومانی کہانیوں کے رسائل ہوتے تھے، وہ جمنا انہیں سے منگواتی تھی اور شہر کے کسی بھی سنیما گھر میں اگر نئی پکچر آتی تو اسکے گانوں کی کتاب بھی مانک کو خریدکر لانی پڑتی تھی۔ اس طرح جمنا کا گھریلو ’’کتب خانہ‘‘ روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔

وقت گزرتے کتنی دیر لگتی ہے۔ کہانیاں پڑھتے پڑھتے اور سنیما کے گیت یاد کرتے کرتے جمنا بیس برس کی ہو گئی اورمانک پندرہ برس کے اوربھگوان کی مایا دیکھو کہ جمنا کا بیاہ ہی کہیں طے نہیں ہوا۔ ویسے بات چلی ضرور۔ قریب ہی رہنے والے مہیسردلال کے لڑکے تنّا کے بارے میں سارا محلہ کہا کرتا تھا کہ جمناکا بیاہ اسی سے ہوگا، کیونکہ تنّا اور جمنا میں بہت جمتی تھی، تنّا، جمنا کی برادری کا بھی تھا، حالانکہ کچھ نیچے درجے کا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مہیسردلال سے سارا محلہ ڈرتا تھا۔ مہیسرجتناجھگڑالو، مغرور اور فحش گو تھا، تنّا اتنا ہی سیدھا، شائستہ اور نرم گو ، سارا محلہ اس کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔

لیکن جیسا پہلے کہا جا چکا ہے کہ تنّا تھوڑے نچلے درجے کا تھا اور جمنا کا خاندان ساری برادری میں کھرے اور اونچے ہونے کیلئے مشہور تھا، اس لئے جمنا کی ماں کی رائے نہیں مانی گئی۔ چونکہ جمنا کے پِتا بینک میں بس عام سے کلرک بھر تی تھے اور تنخواہ سے کیا آتا جاتا تھا، تیج تہوار، موڑن دیوکاج میں ہر سال جمع شدہ رقم خرچ کرنی پڑتی تھی، اس لئے جیسا ہر درمیانے طبقے میں ہوتا ہے، بہت جلد سارا جمع شدہ روپیہ خرچ ہو گیا اور شادی کے لئے کانی کوڑی نہیں بچی۔

اور بیچاری جمنا،تنّا سے سگائی ٹوٹ جانے کے بعد خوب خوب روئی۔ پھر آنسو پونچھے، پھر فلم کے نئے گیت یاد کئے اور اس طرح سے ہوتے ہوتے ایک دن بیس کی عمر کو بھی پار کر گئی۔ اور ادھرمانک کا یہ حال کہ جیسے جیسے جمنا کی عمر بڑھتی جائے، ویسے ویسے وہ کبھی دبلی تو کبھی موٹی ہوتی جائے اور ایسی کہ مانک کو بھلی بھی لگے اور بری بھی۔ لیکن اسے ایک بری عادت پڑ گئی تھی کہ چاہے مانک ملّا اسے چڑائے یا نہ چڑائے وہ انہیں کونے کدھروں میں پاتے ہی اس طرح دبوچتی تھی کہ مانک ملّا کا دم گھٹنے لگتا تھا اور اسی لیے مانک ملّا اسکی چھایا سے بھی کتراتے تھے۔

لیکن قسمت کی مار دیکھیے کہ اسی وقت محلے میں دھرم کی لہر چل پڑی اور تمام عورتیں جنکی لڑکیاں بیاہنے سے رہ گئی تھیں، جن کے شوہر ہاتھ سے نکلے جا رہے تھے، جن کے لڑکے لڑائی میں چلے گئے تھے، جن کے دیور بک گئے تھے، جن پر قرض ہو گیا تھا۔ سب نے بھگوان کی شرن لی اور کیرتن شروع ہو گئے اور کنٹھیاں لی جانے لگیں۔ مانک کی بھابھی نے بھی ہنومان چوتراوالے برہمچاری سے کنٹھی لی اور قاعدے کے مطابق دونوں وقت بھوگ لگانے لگیں۔ اور صبح شام پہلی ٹکّی گاؤ ماتا کے نام سینکنے لگیں۔ گھر میں گائے توتھی نہیں اس لئے کوٹھی کی بوڑھی گائے کو وہ ٹکّی دونوں وقت کھلائی جاتی تھی۔ دوپہر کو تو مانک اسکول چلے جاتے تھے، دن کا وقت رہتا تھام اس لئے بھابھی خود چادر اوڑھ کر گائے کو روٹی کھلانے آتی تھیں پر رات کو مانک کو ہی جانا پڑتا تھا۔

گائے کے احاطے کے قریب جاتے ہوئے مانک ملّا کی روح کانپتی تھی۔ جمنا کا کان کھینچنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا (اور اچھا بھی لگتا تھا!) چنانچہ ڈر کے مارے رام کا نام لیتے ہوئے خوشی خوشی وہ گائے کے احاطے کی طرف جایا کرتے تھے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ مانک ملّا کے یہاں مہمان آئے اور کھانے پینے میں کافی رات گزر گئی۔ مانک سو گئے تو ان کی بھابھی نے انہیں جگا کر ٹکّی دی اور کہا،’’گائے کو دے آؤ۔‘‘ مانک نے کافی بہانے بازی کی ،لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ آخر کار آنکھیں ملتے ملتے احاطے کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ گائے کے پاس بھوسے والی کوٹھری کے دروازے پر کوئی پرچھائیں ،بالکل کفن جیسے سفید کپڑے پہنے کھڑی ہے۔ ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگا،تاہم انہوں نے سن رکھا تھا کہ بھوت کے آگے آدمی کو ہمت باندھے رکھنا چاہئے اور اسے پیٹھ نہیں دکھلانی چاہیے، ورنہ اسی وقت آدمی کا دم نکل جاتا ہے۔

مانک ملّا سینہ تانے اور کانپتے ہوئے پیروں کو سنبھالے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور وہ عورت وہاں سے غائب ہو گئی۔ انہوں نے بار بار آنکھیں مل کر دیکھا، وہاں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اطمینان کی سانس لی، گائے کو ٹکّی دی اور واپس چلے۔ اتنے میں انہیں لگا کہ کوئی ان کا نام لے کر پکار رہا ہے۔ مانک ملّا خوب جانتے تھے کہ بھوت محلے بھر کے لڑکوں کا نام جانتے ہیں، اس لئے انہوں نے رکنا محفوظ نہیں سمجھا۔ لیکن آواز قریب آتی گئی اور اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر مانک ملّا کا کالر پکڑ لیا۔ مانک ملّا گلا پھاڑ کر چیخنے ہی والے تھے کہ کسی نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ اس لمس کوبخوبی پہچانتے تھے، جمنا!

لیکن جمنا نے کان نہیں مروڑے اور کہا،’’چلو آؤ۔‘‘ مانک ملّا بے بس تھے۔چپ چاپ چلے گئے اور بیٹھ گئے۔ اب مانک بھی چپ اور جمنا بھی خاموش۔ مانک ،جمنا کو دیکھیں، جمنا ،مانک کو دیکھے اور گائے ان دونوں کو دیکھے۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد مانک نے گھبرا کر کہا،’’ہمیں جانے دو جمنا۔‘‘

جمنا نے کہا،’’ بیٹھو، باتیں کرو مانک ۔ دل بڑا گھبراتا ہے۔‘‘

مانک پھر بیٹھ گئے۔ اب بات کریں تو کیا کریں؟ ان کی کلاس میں ان دنوں جغرافیہ میں نہر سوئیز، تاریخ میں شہنشاہ جلال الدین اکبر، ہندی میں’’ سوانح عمریاں‘‘ اور انگریزی میں ’’ریڈ رائیڈنگ ہڈ‘‘ پڑھائی جا رہی تھی، پر جمنا سے اسکی باتیں کیا کریں! تھوڑی دیر بعد مانک بور کر بولے،’’ہمیں جانے دو جمنا، نیند آ رہی ہے۔‘‘

’’ابھی کون سی رات گزر گئی ہے، بیٹھو۔‘‘کان پکڑ کر جمنا بولی۔

مانک نے گھبرا کر کہا،’’نیند نہیں لگ رہا ہے، بھوک لگ رہی ہے۔‘‘

’’بھوک لگ رہی ہے! اچھا، جانا نہیں! میں ابھی آئی۔‘‘اتناکہہ جمنا فوراً پچھواڑے کے صحن میں سے ہو کر اندر چلی گئی۔ مانک کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آج جمنا اچانک اتنی مہربان کیوں ہو رہی ہے،ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اتنے میں جمنا لوٹ آئی اور آنچل کے نیچے سے دو چار پوئے نکالتے ہوئے بولی،’’لو کھاؤ۔ آج تو ماں بھاگوت کی کتھا سننے گئی ہیں۔‘‘اور جمنا اسی طرح مانک کو اپنی طرف کھینچ کرپوے کھلانے لگی۔

ایک ہی پوا کھانے کے بعد مانک ملّا اٹھنے لگے تو جمنا بولی،’’اور کھاؤ۔‘‘تو مانک ملّا نے اس سے کہا کہ انہیں میٹھے پوئے اچھے نہیں لگتے، انہیں بیسن کے نمکین والے اچھے لگتے ہیں۔

’’اچھا کل تمہارے لئے بیسن کے نمکین بناکر رکھوں گی۔ کل آؤ گے؟ کہانی تو سات روز تک ہوگی۔‘‘ مانک نے اطمینان کی سانس لی۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ لوٹ کر آئے تودیکھا کہ بھابھی سو رہی تھیں۔ مانک ملّا خاموشی سے گاؤماتا کا دھیان کرتے ہوئے سو گئے۔

دوسرے دن مانک ملّا نے جانے کی کوشش کی، کیونکہ انہیں جانے میں ڈر بھی لگتا تھا اور وہ جانا بھی چاہتے تھے۔ اور نہ جانے کون سی چیز تھی جو اندر ہی اندر انہیں کہتی تھی،’’ مانک ! یہ بہت بری بات ہے۔ جمنا اچھی لڑکی نہیں۔‘‘اور ان کے ہی اندر کوئی دوسری چیز تھی جو کہتی تھی،’’ چلو مانک ! تمہارا کیا بگڑتا ہے۔ چلو دیکھیں تو کیا ہے؟‘‘اور ان دونوں سے بڑی چیز تھی، نمکین بیسن کا پوا، جس کیلئے مورکھ مانک ملّا اپنا لوک پرلوک دونوں خراب کرنے کیلئے تیار تھے۔

اس دن مانک ملّا گئے تو جمنا نے دھانی رنگ والی وائل کی ساڑھی  پہنی تھی، ارگنڈی کا مہین بلاؤز پہنا تھا، دو چوٹیاں کی تھیں، پیشانی پر چمکتی ہوئی بندیا لگائی تھی۔ مانک اکثر دیکھتے تھے کہ جب لڑکیاں اسکول جاتی تھیں تو ایسے ہی سج دھج کر جاتی تھیں، گھر میں تو میلی دھوتی پہن کر فرش پر بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں، اس لئے انہیں بڑا تعجب ہوا۔ بولے،’’جمنا، کیا ابھی اسکول سے لوٹ رہی ہو؟‘‘

’’اسکول؟ اسکول جانا تو ماں نے چار سال سے چھڑا دیا۔ گھر میں بیٹھی بیٹھی یا تو کہانیاں پڑھتی ہوں یا پھر سوتی ہوں۔‘‘ مانک ملّا کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جب دن بھر سونا ہی ہے تو اس سج دھج کی بھلاکیا ضرورت ہے۔ مانک ملّا حیرت سے منہ کھولے دیکھتے رہے۔ اس پر جمنا بولی،’’آنکھ پھاڑپھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو! اصلی جرمنی کی ارگنڈی ہے۔ چچا کلکتے سے لائے تھے، بیاہ کیلئے رکھی تھی۔ یہ دیکھو چھوٹے چھوٹے پھول بھی بنے ہیں۔‘‘

مانک ملّا کو بہت تعجب ہوا ،اس ارگنڈی کو چھو کر، جو کلکتہ سے آئی تھی، اصلی جرمنی کی تھی اور جس پر چھوٹے چھوٹے پھول بنے تھے۔

مانک ملّا جب گائے کو ٹکّی کھلا چکے تو جمنا نے بیسن کے نمکین پوئے نکالے۔ اور ساتھ ہی کہا،’’پہلے بیٹھ جاؤتب کھلائیں گے۔‘‘

مانک خاموشی سے کھانے لگے۔ جمنا نے چھوٹی سی بیٹری جلا دی، مگر مانک مارے خوف کے کانپ رہے تھے۔ انہیں ہر لمحے یہی لگتا تھا کہ تنکوں میں سے ابھی سانپ نکلا، ابھی بچھو نکلا، ابھی کنکھجورا نکلا۔ روندھے گلے سے بولے،’’ہم کھائیں گے نہیں۔ ہمیں جانے دو۔‘‘

جمنا بولی،’’کیتھے کی چٹنی بھی ہے۔‘‘اب مانک ملّا مجبور ہوگئے۔ کیتھا انہیں خصوصیت سے پسند تھا۔ آخر کار سانپ بچھو کے خوف کو بھگا کر کسی طرح وہ بیٹھ گئے۔ پھر وہی منظرکہ جمنا کو مانک خاموشی سے دیکھیں اور مانک کو جمنا اور گائے ان دونوں کو۔ جمنا بولی،’’کچھ بات کرو، مانک ۔‘‘جمنا چاہتی تھی کہ مانک کچھ اس کے کپڑے کے بارے میں باتیں کرے، جب مانک نہیں سمجھے تو وہ خود بولی،’’ مانک ، یہ کپڑا اچھا ہے؟‘‘

’’ بہت اچھا ہے جمنا۔‘‘ مانک بولے۔

’’دیکھو، تنّا ہے نا ، وہی اپنا تنّا ۔ اسی کے ساتھ جب بات چیت چل رہی تھی ،تبھی چچا کلکتے سے یہ تمام کپڑے لائے تھے۔ پانچ سو روپے کے کپڑے تھے۔ پنچم بنیا سے ایک سیٹ گروی رکھ کے کپڑے لائے تھے، پھر بات ٹوٹ گئی۔ ابھی تو میں اسی کے یہاں گئی تھی۔ اکیلے دل گھبراتا ہے۔ لیکن اب تو تنّا بات بھی نہیں کرتا۔ اسی کے لیے کپڑے بھی بدلے تھے۔‘‘

’’بات کیوں ٹوٹ گئی جمنا؟‘‘

’’ارے تنّا بہت ڈرپوک ہے۔ میں نے تو ماں کو راضی کر لیا تھا پر تنّا کو مہیسر دلال نے بہت ڈانٹا۔ اس کے بعد سے تنّا ڈر گیا اور اب تو تنّا اچھے طریقے سے بولتا بھی نہیں۔‘‘ مانک نے کچھ جواب نہیں دیا تو پھر جمنا بولی،’’ اصل میں تنّا برا نہیں ہے پر مہیسر بہت کمینہ آدمی ہے اور جب سے تنّا کی ماں مر گئی اس کے بعد سے تنّا بہت دکھی رہتا ہے۔‘‘پھر اچانک جمنا نے بات بدلتے ہوئے کہا،’’لیکن پھر تنّا نے مجھے آس میں کیوں رکھا؟ مانک ، اب نہ مجھے کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔ اسکول جانا چھوٹ گیا۔ دن بھر روتے روتے گذر جاتا ہے۔ ہاں، مانک ۔‘‘اور اس کے بعد وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔

مانک بولے،’’وہ بہت ڈرپوک تھا۔ اس نے بڑی غلطی کی۔‘‘

تو جمنا بولی،’’دنیا میں یہی ہوتا آیا ہے۔‘‘ اور مثال دیتے ہوئے اس نے کئی کہانیاں سنائی جو اس نے پڑھی تھیں یا پکچر پر دیکھی تھیں۔

مانک اٹھے تو جمنا نے پوچھا کہ’’روز آؤ گے نا۔‘‘ مانک نے آنا کانی کی تو جمنا بولی،’’دیکھو مانک ، تم نے نمک کھایا ہے اور نمک کھا کر جو ادا نہیں کرتا اس پر بہت گناہ پڑتا ہے، کیونکہ اوپر بھگوان دیکھتا ہے اور سب کھاتے میں درج کرتا ہے۔‘‘ مانک مجبور ہو گئے اور انہیں روز جانا پڑا اور جمنا انہیں بٹھا کر روز تنّا کی باتیں کرتی رہی۔

’’پھر کیا ہوا۔‘‘جب ہم لوگوں نے پوچھا تو مانک بولے،’’ایک دن وہ تنّا کی باتیں کرتے کرتے میرے کندھے پر سر رکھ کر خوب روئی، خوب روئی اور چپ ہوئی تو آنسو پونچھے اور اچانک مجھ سے ایسی باتیں کرنے لگی، جیسی کہانیوں میں لکھی ہوتی ہیں ۔ مجھے بڑا برا لگا اور سوچا اب کبھی ادھر نہیں جاؤں گا، پر میں نے نمک کھایا تھا اور اوپر بھگوان سب دیکھتا ہے۔ ہاں، یہ ضرور تھا کہ جمنا کے رونے پر میں چاہتا تھا کہ اسے اپنے اسکول کی باتیں بتاؤں، اپنی کتابوں کی باتیں بتا کر اس کا دل بہلاؤں۔ پر وہ آنسو پونچھ کر کہانیوں جیسی باتیں کرنے لگی۔ یہاں تک کہ ایک دن میرے منہ سے بھی ویسی ہی باتیں نکل گئیں۔‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’عجب بات ہوئی۔ اصل میں ان لوگوں کو سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ جمنا خاموشی سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر رونے لگی۔ بولی،’’میں بہت خراب لڑکی ہوں۔ میرا دل گھبراتا تھا اسی لئے تم سے بات کرنے آتی ہوں، پر میں تمہارا نقصان نہیں چاہتی۔ اب میں نہیں آیا کروں گی۔‘‘ لیکن دوسرے دن جب میں گیا تو دیکھا، جمنا پھرموجود ہے۔‘‘

پھر مانک ملّا کو روز جانا پڑا۔ ایک دن، دو دن، تین دن، چار دن، پانچ دن۔۔۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے بورہو کر پوچھا کہ آخر میں کیا ہوا تو مانک ملّا بولے،’’کچھ نہیں، ہوتا کیا؟ جب میں جاتا تو مجھے لگتا کوئی کہہ رہا ہے مانک ادھر مت جاؤ یہ بہت خراب راستہ ہے، پر مجھے پتہ تھا کہ میرا کچھ بس نہیں ہے۔ اور آہستہ آہستہ میں نے دیکھا کہ نہ میں وہاں جائے بغیر رہ سکتا تھا نہ جمنا آئے بغیر۔‘‘

’’ ہاں، یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا انجام کیا ہوا؟‘‘

’’انجام کیا ہوا؟‘‘ مانک ملّا نے طنزیہ لہجے میں کہا،’’تب تو تم لوگ خوب نام کماؤگے۔ ارے کیا پریم کہانیوں کے دو چار انجام ہوتے ہیں۔ ایک ہی تو آخر ہوتا ہے۔ ہیروئن کی شادی ہوگئی، مانک منہ تکتے رہ گئے۔ اب اسی کو چاہے جتنے طریقوں سے کہہ لو۔‘‘

بہرحال اتنی دلچسپ کہانی کا اتنا عام سا خاتمہ ہم لوگوں کو پسند نہیں آیا۔

پھر بھی پرکاش نے پوچھا،’’لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ محبت نامی احساس کی بنیاد اقتصادی تعلقات پر ہے اورطبقاتی اونچ نیچ کا نظام اسے متاثر کرتا ہے۔‘‘

’’کیوں؟ یہ تو بالکل واضح ہے۔‘‘ مانک ملّا نے کہا،’’اگر ہر گھر میں گائے ہوتی تو یہ صورت حال کیسے پیدا ہوتی؟ جائیداد کی ناموزونیت ہی اس محبت کا اصل سبب ہے۔ نہ ان کے گھر گائے ہوتی، نہ میں انہیں دیکھنے جاتا، نہ نمک کھاتا، نہ نمک ادا کرنا پڑتا۔‘‘

’’لیکن پھر اس سے سماجی فائدے کیلئے کیا نتیجہ نکلا؟‘‘ہم لوگوں نے پوچھا۔

’’بغیر نتیجے کے میں کچھ نہیں کہتا دوستو! اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر گھر میں ایک گائے ہونی چاہئے، جس سے دیس کا لائیواسٹاک بھی بڑھے، اولاد کی صحت بھی بنے۔ پڑوسیوں کو بھی فائدہ ملے اور بھارت میں دوبارہ دودھ، گھی، مکھن کی ندیاں بہیں۔‘‘

اگرچہ ہم لوگ اقتصادی نظریے والے اصول سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، تاہم یہ نتیجہ ہم سبھوں کو پسند آیا اور ہم لوگوں نے وعدہ کیا کہ بڑے ہونے پر ایک ایک گائے ضرور پالیں گے۔

اس طرح مانک ملّاکی پہلی نان فکشن پریم کہانی ختم ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply