بدچلن۔۔حبیب شیخ

وینو، دودھ، وینو۔
یہ تکون پریتی کا سر پھاڑ کے رکھ دے گی۔ ایک وینو روتا ہے کہ وہ دودھ نہیں پیے  گا اور دوسرا دودھ کے لئے ضد کر تاہے۔ یہ کیسا جہاں ہے جہاں ایک کسی چیز کے ملنے پر رو رہا ہے اور دوسرا نہ ملنے پر۔
اگلے دن ایک وینو گندے کپڑوں میں اور دوسراصاف ستھرا وینو ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔
’جلدی جلدی کام کر، آج تو اتنی دیر کیوں کر رہی ہے۔‘ ہلکے میک اپ اور کنگنوں سے سجی ہوئی راج کماری کی آواز میں آج کتنی کرختگی تھی۔ ’تجھے یاد ہے کہ تو نے میرے وینو کو دس بجے دودھ پلانا ہے۔ ڈاکٹر کی تاکید ہے کہ وہ دن میں دو بار دودھ پیے۔
لیکن میڈم جی وہ تَو دودھ کا گلاس دیکھتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے۔
پھر تو کس کام کی ہے؟ اس کو باتوں میں لگا کر دودھ پلا۔ اور مجھے یہ بتا کہ آج ایک بچہ کیوں ساتھ لے کر آئی ہو؟
کاش یہی آواز بھی دودھ کی طرح ملائم ہوتی! پریتی نے یہ سوچتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ ’میڈم جی، اس کا نام بھی وینو ہے۔‘
’میں نے اس کا نام نہیں پوچھا۔ سوال کچھ کرو اور جواب کوئی اور۔‘ اب آواز اور اونچی ہو گئی تھی۔
’میڈم جی، اس وینو کو بھی تو ماں کی ضرورت ہے۔ آپ کو تو پتا ہے کہ اس کا باپ تو کووڈ سے مر گیا اب میں ہی اس کے لیے سب کچھ ہوں۔‘
’پریتی! اس کو ابھی کہیں چھوڑ کر آ، جب سے تو آئی ہے تیرا دھیان اس کو کھلانے پلانے پہ لگا ہوا ہے۔ ‘
’میڈم جی، یہ رات کو بھوکا سویا تھا اس لئے کھانے پینے میں ہی لگا ہوا ہے یہ تو آپ کی مہربانی ہے کہ آپ لوگ نوکروں پر کوئی کھانے پینے کی پابندی نہیں لگاتے۔‘
’کل صرف پانچ نوکر ہیں اور سودا اتنا آتا ہے جیسے کسی فوج نے کھانا ہے۔ یہ کھانا کھا لے تو اسے کہیں چھوڑ کے آنا۔‘
’میڈم جی دونوں آپس میں کیسے کھیل رہے ہیں! ‘ پریتی کے گھٹے پٹے چہرے پہ نجانے کہاں سے مسکراہٹ کھل گئی۔
’تیرا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہے۔ میرا صاف ستھرا ناز نخروں سے پلا ہوا وینو کیسے بھو کے ننگے گندے بچے سے کھیل سکتا ہے اور تیرے بچے کو تو صحیح بات کرنا بھی نہیں آتی۔ میرا بچہ اس سے پتا نہیں کیا کیا گالی گلوچ سیکھے گا۔ اس کو میرے وینو سے پرے رکھ۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے آجاتے ہیں گھٹیا لوگ!‘ میڈم صاحبہ نے نے انتہائی حقارت سے پریتی کے وینو کو دیکھا۔
پریتی ایک دم ایسے ہو گئی جیسے ٹھنڈی راکھ سے الاؤ بھڑک اٹھے۔ ’میڈم جی، میرا بچہ بھوکا ننگاگندا جاہل کیوں ہے؟‘
’تم لوگ بچے ایسے جنتی ہو جیسےکتے بلیاں۔ پھر تو وہ ننگے بھوکے جاہل نہیں رہیں گے تو اور کیا ہو گا! ‘
’میڈم جی، میں کوئی کتی بلی نہیں ہوں۔ میرا ایک ہی بچہ ہے۔ آپ بھی میری بات سن لیں۔ میرا وینو گھٹیا نہیں ہے۔‘
’شرم نہیں آتی تجھ کو مجھ سے بحث کرتے ہوئے، دفعہ ہو جا یہاں سے۔ کل سے کام پر نہیں آنا۔‘
’میڈم جی۔ ہمارا گزارہ ٹھیک ہو رہا تھا، میرے شوہر کو کووڈ ہوگیا، اسپتال کے باہر ہی پڑا رہا اور آکسیجن نہ ملنے سے مر گیا۔ آپ کے پتی، آپ کے پتی وزیر صحت ہیں، وہ قاتل ہیں میرے پتی کے، ہاں وہ قاتل ہیں میرے پتی کے۔ آپ لوگوں کی وجہ سے ہم غریب ہیں بھوکے ہیں ننگے ہیں بیمار ہیں اسکول نہیں جا سکتے۔‘
’اے لالو، اس کمینی کو دھکّے مار کے نکال یہاں سے۔ اگر کمار جی نے سن لیا تو وہ اسے تہہ خانے میں بند کردیں گے۔‘
ایک زور دار آوازگرجی۔ ’میں سن رہا ہوں سب کچھ، اوئےخربوزے، لے جا اس نوکرانی کو اور اس کا دماغ ٹھنڈا کر۔‘
شام میں وینوماں کو یاد کر کے رو رہا تھا۔ میڈم جی ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھے جا رہی تھی پھر ایک دوسری نوکرانی سے بولی۔ ’آج تم اس بچے کو گھر لے جاؤ۔‘
’لیکن میڈم جی یہ تو میرا بچہ نہیں ہے! یہ یہ ۔۔
میڈم جی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’میں تمہیں اس کا خرچہ دوں گی اس کو اپنے پاس رکھنا اور اسے دودھ ضرور پلانا۔‘
’جی کب تک اسے اپنے پاس رکھنا ہے؟‘
’جب تک کہ اس کی ماں کا دماغ ٹھنڈا نہیں ہو جاتا۔ کمار جی کی مرضی کے بغیر اب وہ تہہ خانے سے باہر نہیں نکل سکتی۔‘ اور پھر وہ ٹھٹک کر آہستہ سے بولی۔ ’اس کا جو حشر ہو رہا ہے، جب بھی وہ رہا ہو کر باہر نکلے گی تو بدچلن کہلائے گی۔‘

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply