کتابیں اور مطالعہ

کتابیں اورمُطالعہ
حمزہ حنیف مساعد
کتاب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لکھی ہوئی تحریر کے ہیں۔ اسی سے مکتوب و کتابت ماخوذ ہیں۔ قرآن مجید کو اﷲ کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب قرار دیا گیا اور یہ اعلان ہوا ”ذلک الکتاب لاریب فیہ“ یعنی اسکے کتاب خدا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اﷲ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے چار کتابیں تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن نازل کیں۔ علاوہ ازیں کئی انبیاءپر صحیفے نازل کئے ۔ کتاب کی اہمیت آج بھی برقرار ہے ۔یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب کہا گیا ‘ اہل دانش و بینش کی کتابیں آج بھی زندہ ہیں ۔ مصنف مرجاتا ہے تصنیف زندہ رہتی ہے گویا انسان مر بھی جائے تو مرتا نہیں ہے۔ فن کے مصداق دائمی زندگی صاحب کتاب کی ہے اور وہ جو روح کتاب کو کشید کر لے۔
بقول اقبال ….
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران ملک میں الیکٹرونک انقلاب برپا ہوا جس نے سب سے زیادہ نوجوان نسل کو متاثر کیا۔ زندگی انتہائی مصروف اور کوئیک (quick) ہو گئی۔ جس کے باعث معاشرے میں مطالعہ کا رجحان تقریباً دم توڑ گیا۔
کتابوں سے محبت کرنے والے اور کتابیں پڑھنے والے مشکل سے ملنے لگے۔ شاید اسی وجہ سے عوام کی عقلی اور شعوری سطح خاصی پست رہ گئی اور وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی مصروفیات اور ترجیحات بھی تبدیل ہو گئیں۔ آج کے نوجوان کی زندگی تیس برس پہلے کے جوان کی نسبت یکسر مختلف ہے۔ چونکہ اب میڈیا ،شوشل میڈیا، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ زندگی کالازمی جزو بن گئے ہیں ،جن کے بغیر زندگی بنجر اور بے رنگ دکھائی پڑتی ہے۔ انٹرنیٹ، الیکٹرونکس گیمز، فلمز، ڈراماز اور چیٹنگ کا حد سے زیادہ استعمال نئی نسل کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔ ان نقصانات میں کتابوں سے دوری پیدا ہونا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
انسان کی عقلی اور فکری صحت کے لیے مطالعہ انتہائی اہم ہے۔یہ انسان کی قوت تخیل کو مضبوط کرتا ہے، علم میں اضافہ کرتا ہے اور فرد میں ذہنی وسعت پیدا کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں مطالعہ کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے اور نوجوان نسل میں تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ عظیم معاشروں میں عقل دانش رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور عقل و دانش کسی دماغ میں خوبخود وارد نہیں ہوئی بلکہ یہ کتابوں میں مضمر ہوتی ہے، جسے مطالعہ سے تلاش کیا جا تا ہے۔خاکسار کی ذاتی رائے ہے کہ کتابوں سے محبت ضروری ہے ۔چونکہ دنیا کی کوئی کتاب فضول نہیں ہوتی۔اور محبت کا تقاضا زیادہ سے زیادہ مطالعہ ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply