شکست در شکست ۔۔اظہر سید

محل پر گویا آسمان ٹوٹ پڑا ہے ۔غلام مشعلیں لئے بھاگے پھر رہے ہیں ۔بے ضمیر بادشاہ گر بے حسی کی چادر اوڑھے عوامی غم، غصہ اور ملک کی نادہندگی دیکھ کر مزے لے رہے ہیں حالات زیادہ خراب ہوئے بارلے ملک بھاگ جائیں گے ۔
ہم نے تین سال قبل ثاقب نثار کو تبدیلی کے نام پر دھوکہ دینے والوں کا ایجنٹ کہا تھا اور آج وقت نے ثابت کر دیا ہے یہ شخص قانون ،ائین اور انصاف کیلئے ناسور تھا ۔جس نے تبدیلی والوں کا مہرہ بن کر عدلیہ کے وقار کو مجروع کیا ۔
اب نواز شریف کو انصاف کس طرح ملے گا جب نواز شریف کو نااہل قرار دینے والا ایک جج ملک کا چیف جسٹس ہے اور ایک حاضر سروس ۔

کیا یہ ممکن ہے ثاقب نثار کے آڈیو کا ریاست فرانزک کروائے ؟نہیں ممکن کہ جس وقت الیکشن میں نواز شریف کو شکست ہوئی آرمی چیف نے دشمن قوتوں کو شکست دینے کی ٹویٹ کی تھی ۔نواز شریف کو جس بینچ نے سزا سنائی ایک جج آج چیف جسٹس ہے ۔اس لئے بے فکر ہو جائیں کم از کم موجودہ  سیٹ اپ میں کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی اور نہ آڈیو کا ریاست فرانزک کروائے گی کہ ریاست پر تبدیلی لانے والے کردار قابض ہیں ۔جب جج ارشد ملک جو کرونا کا شکار ہوئے انکی ویڈیو پر فیصلہ کرنے کی بجائے اس معاملہ کو انصاف کی چمکدار راہداریوں میں پھینک دیا گیا یہ آڈیو بھی پھینک دی جائے گی ۔یہ سب علامتیں اور نشانیاں شکست کی ہیں جو مسلسل ہو رہی ہے لیکن تسلیم نہیں کی جا رہی ۔تین سال پہلے ہم نے لکھا تھا کہ شکست ہو چکی ہے اس بات کو تسلیم کرنے میں ممکن ہے کچھ وقت اور لگ جائے لیکن شکست ہو چکی ہے ۔

راتوں رات بنائی گئی لیبک پارٹی اصل میں پی سی او کا حلف اٹھانے والے ججوں کے نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے والے فیصلے کو توثیق کیلئے تھی اس مذہبی جماعت کا خمیر ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا دینے کے فیصلے سے اٹھایا گیا تھا اور این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں اس جماعت نے امریکہ کی رپبلکن جماعت کی طرح کام کیا مدرسوں کے طلبہ تو ضمنی الیکشن میں اپنی جماعت کے انتخابی دفاتر میں صرف پہرے داری ، کھانا پانی دینے اور اس نوع کے دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں میں مصروف ہوتے تھے اصل کام کمپوٹر اور لیپ ٹاپ پر ہنر مند افرادی قوت سرانجام دیتی تھی ۔پوسٹر ،انتخابی ترانے گھر گھر انوکھے انداز میں رسائی ،مسلم لیگ ن کے حلقے کے اہم عہدیداروں کا مکو ٹھپنے ،ن لیگی ووٹر کو بھگانے ”تمہارہ ووٹ یہاں نہیں اور اس طرح کی باریک دیگر وارداتیں جنہوں نے کیں وہ پے پناہ فنڈز اور تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے کے باوجود ضمنی الیکشن ہار گئے ‘ ماضی میں یہ حرکتیں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کیلئے نواز شریف کیلئے کی جاتی تھیں تو ”وہ ” جیت جاتے تھے لیکن اس مرتبہ وہ ہار گئے ۔سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ ممتاز قادری کی سزائے موت کی توثیق کرنے والے جج نے بھی راتوں رات بنائی جانے والی اس لیبک پارٹی کا کوئی نوٹس نہیں لیا کیونکہ یہ جماعت اسی جج کی طرف سے نا اہل قرار دئے جانے والے نوااز شریف کی مزاحمت کر رہی تھی ۔

کراچی میں فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے درمیان اتحاد کا ڈرامہ دوسری شکست تھی اور یہ شکست ایسی تھی کہ اس نے سب کچھ ظاہر کر دیا کہ آئین اور قانون پر عملدرامد کے اعلانات کی حقیقت کیا ہے اور اس بات کی بھی قلعی کھول دی کہ ملک کے بہترین مفاد میں آئین اور قانون پر کس طرح عمل کیا جاتا ہے ،فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال پوری دنیا کے سامنے اقرار کر رہے تھے کہ ہمیں فلاں نے اور ہمیں فلاں نے اتحاد کیلئے حکم دیا تھا جس نے اس شعر کے معنیٰ تبدیل کر دیے  ” صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ”
آئین اور قانون کا کالا کوٹ پہن کر ریاست میں سب کو یکساں انصاف کی فراہمی کا دعویٰ کرنے والےاو  پی سی او کا حلف اٹھانے والے کسی پارسا نے مصطفیٰ کما ل اور ڈاکٹر فاروق ستار کو طلب نہیں کیا کہ کون سے آئین اور کونسے قانون کے تحت کون سیاسی جماعتوں کے معاملات میں مداخت کرتا ہے اور اس کی اجازت کس نے دی ہے ۔
عدالت سے نا اہل نواز شریف کو پارلیمنٹ نے کثرت رائے سے پارٹی صدارت کیلئے اہل قرار دے دیا اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں یہ تیسری شکست تھی اس میں پارلیمنٹ نے نا اہلی کے فیصلوں کے منہ پر کالک مل دی ۔

نئے جذبے اور نئے جوش سے پارلیمنٹ سے نواز شریف کو دوبارہ نا اہل قرار دلانے کا بھاری پتھر اٹھایا گیا اور پھر چوم کو جہاں سے اٹھایا گیا تھا وہاں واپس رکھنا پڑا پارلیمنٹ میں نواز شریف کو نا اہل قرار دلانے کی پیپلز پارٹی کی قانون سازی کی کوشش ناکام ہو گئی ۔ نہ مسلم لیگ ن کے اراکین ٹوٹے اور نہ نامعلوم افراد کے اراکین پارلیمنٹ کو کئے جانے والے فون کسی کام آئے ”یہ موقف مسلم لیگ ن کے راہنماوں کا ہے کہ انکے ارکین کو فون کئے جا رہے تھے کہ نواز شریف کے حق میں ووٹ نہ دیں ”یہ چوتھی شکست تھی ۔

میاں نواز شریف نے رجسٹرار آفس کے نظر ثانی کی اپیل مسترد کرنے کے فیصلہ کے خلاف چیف جسٹس کے سامنے اپیل کی جسے مسترد کر دیا گیا اور رجسٹرار آفس کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ،پھر شیخ رشید کی نا اہل نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہتانے کیلئے درخواست رجسٹرار آفس نے مسترد کر دی کہ پہلے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے درخواست دینے والے نوجوانوں نے نواز شریف کی طرح رجسٹرار آفس کے فیصلے کے خلاف چیف جسٹس کو اپیل کی اور چیف صاحب نے رجسٹرار آفس کا فیصلہ برقرار رکھنے کی بجائے تبدیل کر دیا اور درخواست منظور کر لی ہماری خیال میں یہ پانچویں شکست ہے کیونکہ اس طرح چیزیں واضح ہونے لگیں ہیں اور عام لوگوں کو بھی پتہ چل رہا ہے ملک کا چیف جسٹس تبدیلی لانے والوں کےایجنٹ کا کردار ادا کر رہا ہے۔

لبیک پارٹی جنہوں نے بنائی ،جنہوں نے دھرنے کیلئے فیض آباد کا انتخاب کرایا جو دھرنے والوں کو خیمے ،ادویات ،کھانا ،کمبل اور گرم کپڑے مسلسل فراہم کر رہے ہیں ان کے خلاف فیصلے آنے لگے ہیں پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ ،پھر سپریم کورٹ کے ایک جج قاضی عیسیٰ نے دھرنے والوں کے متعلق فیصلہ دیا تو ایس پی آر بھی ہڑبڑا کر بیدار ہو گیا اور بغیر مانگے وضاحت دے دی گئی کہ دھرنے کے حوالہ سے سول حکومت کے احکامات کے پابند ہیں اس طرح جنہوں نے لبیک پارٹی بنائی ہے وہ تنہا ہو گئے ہیں یہ چھٹی شکست ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

چند درجن افراد کا ٹولہ جس نے پورے ملک میں افراتفری پیدا کر دی ہے ملکی معیشت پر بے یقینی کی فضا قائم کر دی ہے کراچی کے حصص بازار میں چھوٹے بڑے سرمایہ کاروں کے اربوں ڈالر ڈبو دئے ہیں ان کے متعلق تحقیقات اگر شروع ہو جائیں تو یہ نہ صرف ساتویں شکست ہو گی بلکہ پاکستانی عوام کی فتح کا عمل بھی شروع ہو جائے گا اور ہمارا وجدان ہے ملک کو نقصان پہنچانے والے ایک دن گرفت میں آئیں گے کیونکہ انہوں نے عوام کو گمراہ کر کے تیزی سے ترقی کرتی معیشت کو تباہ کیا ہے اور ریاست کو کمزور کیا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply