اپنی دلیل پیش کرو،اگر تم لوگ سچے ہو۔۔نذر حافی

سمیع اللہ ملک ایک معروف کالم نگار ہیں۔ بڑے عرصے سے راقم الحروف کا ان سے قلبی تعلق اور لگاو ہے۔ ملک کے متعدد اخبارات میں ان کے کالمز باقاعدگی سے چھپتے رہتے ہیں، آج کل ان کا ایک متنازعہ کالم سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ یہ کالم گذشتہ دنوں روزنامہ اوصاف نے چھاپا اور اس کا عنوان تھا “جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔” اِن کے 25 اکتوبر2021ء کو شائع ہونے والے اس کالم پر قلم فرسائی سے پہلے ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ تحقیق کی دنیا میں معلومات کا تبادلہ، قلمی مکالمہ اور علمی نقد بہت ضرروی ہے۔ تجزیہ کاری کے دوران انسان کو اپنے ذاتی عقائد اور جذبات کو ایک طرف رکھ کر ٹھوس اعداد و شمار اور حقائق سے کام لینا چاہیے۔ چنانچہ مذکورہ کالم کے مطالعے سے قارئین کو یوں محسوس ہوا ہے کہ معزز کالم نگار ایران کے حوالے سے یا تو کچھ غلط فہمیوں کے شکار ہیں اور یا پھر یہ کہ کالم لکھتے وقت اُن کے ذاتی عقائد اور زمینی حقائق کا ٹکراو ہوا ہے۔ ظاہر ہے، جب حقائق اور عقائد کا ٹکراو ہو جائے اور انسان حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے عقائد کی طرف داری کرے تو غلط فہمیوں کا جنم لینا یقینی ہے۔ غلط فہمیوں کو کسی بھی صورت فاصلوں اور بدگمانیوں میں نہیں بدلنا چاہیئے۔

تو اب آیئے اپنی بات شروع کرتے ہیں، اپنے محترم کالم نگار کے کالم کے قابلِ اعتراض گوشوں سے۔ اُن کے ایک جملے نے ہر صاحبِ مطالعہ اور منصف مزاج انسان کو رنجیدہ کیا ہے۔ وہ جملہ یہ ہے کہ “امریکہ، بھارت، اسرائیل اور ایران چاروں یار” ہیں۔ یہ جملہ لکھتے ہوئے نجانے وہ یہ کیسے فراموش کر گئے کہ آج پوری دنیا میں عالمِ کفر کے سامنے اکیلا ایران ڈٹ کر کھڑا ہے۔ اس ڈٹنے کی وجہ سے سارے عالمِ کفر نے مِل کر ایران کو اقتصادی شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ چنانچہ آج تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود ایران میں افراطِ زر، مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بحران گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے۔

کون ہے جو نہیں جانتا کہ یہی ایران جب اسلامی انقلاب سے پہلے عالمِ کُفر کا نوکر تھا تو عالمی استعمار اسے آج کے سعودی عرب اور عرب امارات سے بھی زیادہ اہمیت دیتا تھا، لیکن اب اسلامی انقلاب کے بعد چونکہ ایران عالمِ اسلام کی حرّیت اور آزادی کی بات کرتا ہے، فلسطین و کشمیر اور یمن کے لوگوں کے اسلامی و انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی سرزمینوں سے استعمار کے انخلا کی بات کرتا ہے، لہذا وہ تنِ تنہا اغیار کے ہاتھوں استعمار کے ظلم کی چکی میں پِس رہا ہے۔

یہ بات کسی بھی صاحبِ شعور سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنا تو دور کی بات ایران صرف اسرائیل کے ساتھ تجارت کی بات ہی شروع کر دے، یعنی صرف تجارت کا عندیہ ہی دیدے تو استعماری طاقتیں ایرانیوں کے منہ موتیوں سے بھر دیں گی۔ یہ حقیقت ہر غیر متعصب انسان کیلئے روشن ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلام کی آبرو اور عزت فقط اور فقط ایران کے دم قدم سے قائم ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر ایران بھی عرب ممالک کی طرح طاغوت کے قدموں میں ڈھیر ہو جائے تو پھر اس کے بعد دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا کیسا چہرہ دکھائی دے گا۔

ہمارے محترم سمیع اللہ ملک صاحب نے اپنے کالم میں یہ بھی کہا ہے کہ “ایران حماس کا دشمن ہے۔” ہم اس بارے میں یہ فرض کر لیتے ہیں کہ شاید انہیں حماس اور ایران کے تعلقات کا علم نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ اگروہ فقط جنرل قاسم سلیمانی شہید کے جنازے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تقریر کو ہی سُن لیں تو انہیں ایران اور حماس کے روابط کا صحیح اندازہ ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ سمیع اللہ ملک صاحب کے بقول انہیں عربی پر بھی کافی عبور حاصل ہے۔ لہذا ہمیں امید ہے کہ وہ بغیر مترجم کے اسماعیل ہنیہ کی تقریر سُن اور سمجھ سکتے ہیں۔ یقیناً مذکورہ تقریر سننے کے بعد ان کی سوچ میں نمایاں تبدیلی آئے گی۔ تقریر میں اسماعیل ہنیہ نے جہاں اور بہت کچھ کہا، وہاں یہ بھی کہا کہ قاسم سلیمانی شہیدِ قدس ہے۔ یہ جملہ تین مرتبہ اسماعیل ہنیہ نے دہرایا اور یہ بھی کہا کہ حماس کو ادویات، اسلحے و غذا سمیت جو مدد بھی ملتی ہے، وہ صرف ایران سے ملتی ہے۔

سمیع اللہ ملک صاحب کا یہ دعویٰ بھی قابلِ تامل ہے کہ ایران اپنے تجارتی مفادات کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔ ہم چونکہ سمیع اللہ ملک صاحب کو ان لوگوں میں سے نہیں سمجھتے جو بہتان تراشی میں کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں، لہذا ہم فقط اُن سے یہ کہنا چاہیں گے کہ آپ ذرا سعودی عرب اور ہندوستان کی تجارت کے اعداد و شمار بھی چیک کر لیجئے اور سعودی عرب و ایران دونوں کی کشمیر کے مسئلے پر فعالیت بھی دیکھ لیجئے، اسی طرح پاکستان میں جتنے بھی خودکش بمبار، ٹارگٹ کلر، لشکر اور نیٹ ورکس ہیں، سانحہ اے پی ایس پشاور کے نونہالوں کے قاتلوں سے لے کر پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلنے والوں اور پولیس و آرمی کے آفیسرز، بیوروکریٹس، قوالوں اور نعت خوانوں کے قاتلوں، نیز مساجد اور اولیائے کرام کے آستانوں پر دھماکے کرنے والوں کا ریکارڈ بھی چیک کر لیجئے، تاکہ آپ پر یہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ کون پاکستان کے بجائے ہندوستان کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔

جہاں تک ایران کے انڈیا سے تجارتی تعلقات کی بات ہے تو یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ ایران نے اپنی ساری اقتصادی مجبوریوں کے باوجود کبھی بھی کشمیریوں اور فلسطینیوں کی لاشوں پر ٹرمپ کے کندھے سے کندھا ملا کر تلواروں کا رقص نہیں کیا اور جام نہیں چھلکائے۔ کشمیر و فلسطین پر ایران کے اصولی موقف کی ساری دنیا خصوصاً خود کشمیری و فلسطینی اور حکومت پاکستان بھی معترف ہے۔ یہ سب حقائق جاننے کے باوجود سمیع اللہ ملک صاحب نے لکھا ہے کہ “سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے قریبی حلیف ہم سے کیوں دور ہوئے۔؟” ہمیں ان کا یہ سوال پڑھ کر تعجب ہوا کہ سمیع اللہ ملک صاحب جیسے دانشور کو آج تک یہ بات کیوں سمجھ نہیں آئی کہ سعودی عرب سے پاکستان کن وجوہات کی بنیاد پر دور ہوا ہے۔

برسبیلِ تذکرہ ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ انہوں نے محترم ظفر ہلالی صاحب اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا حوالہ دے کر بھی سعودی عرب کی وکالت کی کوشش کی۔ محترمہ تو شہید ہوگئی ہیں، البتہ اللہ کا شکر ہے کہ ظفر ہلالی صاحب ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ چنانچہ صحافت و تحقیق کا ذوق رکھنے والے کچھ اہلِ نظر نے جب ظفر ہلالی صاحب سے رابطہ کیا تو ظفر ہلالی صاحب نے ایسے کسی واقعے سے بھی اور سمیع اللہ ملک صاحب کو جاننے سے بھی صریحاً انکار کر دیا۔ اب یہ تو سمیع اللہ ملک صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ اُن کے دوست ظفر ہلالی صاحب اُن کو کیوں نہیں پہچان رہے اور اُن کی ایسی معلوماتی ملاقاتیں کہاں پر ہوا کرتی ہیں۔ خیر ہم اب آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

آگے سمیع اللہ ملک صاحب نے لکھا ہے کہ “اور آج یہ عالم ہے کہ ایران میں کوئی سنی پارلیمنٹ ممبر نہیں بن سکتا، جبکہ تین یہودی پارلیمنٹ ممبر ہیں۔” وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ “ایرانی دارالحکومت تہران میں سنیوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں جبکہ اسی شہر میں 25 گرجا گھر، 16 مندر، 6 گردوارے اور 20 آتش کدے موجود ہیں۔” ہم سمیع اللہ ملک صاحب کیلئے کوئی نئی دلیل لانے کے بجائے یہاں پر کسی دوسرے کالم کے استدلال کو ہی دہرائیں گے۔ ہم صرف یہی کہنا چاہیں گے کہ کاش آپ نے ایران کے دورے کرنے والے اہل سنت کے اکابرین مولانا سمیع الحق مرحوم یا قاضی حسین احمد مرحوم سے ہی کبھی اس بارے میں پوچھ لیا ہوتا اور یا پھر ابھی مولانا فضل الرحمان، محترم لیاقت بلوچ یا مولانا شیرانی صاحب سے ہی استفسار کر لیتے۔ اسی طرح پاکستان میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں ہر سال ایران سے دیوبندی حضرات جاتے ہیں، کاش آپ نے انہی سے انٹرویو لے لیا ہوتا۔

کوئی بات نہیں دیر آید درست آید۔ ہم آپ کی اطلاع کیلئے عرض کئے دیتے ہیں کہ آج کے دور میں یہ ساری معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ آپ ماوس کو کلک کرکے چند سیکنڈز میں وکی پیڈیا سے یا کسی بھی ایرانی اہلسنت سیاستدان، عالم دین یا اہم شخصیت سے رابطہ کرکے حقیقت جان سکتے ہیں۔ سمیع اللہ ملک صاحب تک یقیناً یہ اطلاعات نہیں پہنچیں کہ ایران کی پارلیمنٹ میں اٹھارہ نشستیں اہل سنت حضرات کی ہیں، اسی طرح 25 اکتوبر کو کالم لکھتے ہوئے وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ 17 اگست 2021ء سے ایران کی بحریہ کے سربراہ یعنی چیف آف نیول اسٹاف مسٹر شہرام ایرانی کا تعلق اہل سنت سے ہے۔ انہوں نے شاید یہ سُنا ہوگا کہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے اہلِ سنت کے مقدسات کی اہانت کو حرام قرار دیا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ رہبرِ اعلیٰ کے اس فتوے کی طاقت سے غافل ہیں۔
یقیناً وہ یہ نہیں جانتے کہ ایران میں رہبرِ اعلیٰ کا فتویٰ کیا حیثیت رکھتا ہے۔ لگتا ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ایران کے صرف رہبرِ اعلیٰ نے اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ سارے ہی مسلمہ شیعہ مجتہدین اور مراجع کرام کا یہی فتویٰ ہے۔ ایرانی شیعہ اتھارٹیز کے ہاں اہل سنت کا جو مقام ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ محترم سمیع اللہ ملک صاحب نے جیسا کالم اہلِ تشیع اور ایران کے خلاف لکھا ہے، ایران میں ایسا کالم کوئی بھی اہل سنت کے خلاف لکھنے یا چھاپنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ بہرحال سمیع اللہ ملک صاحب نے جو لکھا سو لکھا، لیکن حقیقت ِحال یہ ہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں 9 عدد یعنی اہلِ سنت کی تعداد کے تناسب سے بھی زیادہ اہلِ سنت کی مساجد موجود ہیں۔ صرف سیستان و بلوچستان میں اہلِ سنت کی چھ ہزار سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔

ایران میں اہل سنت کے دینی مدارس کے حوالے سے یہ آن دی ریکارڈ حقیقت ہے کہ ایرانی اہلِسنت کے دینی طلباء و طلبات کو ایران کے ولی فقیہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے خصوصی طور پر ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ ایرانی حکومت کی طرف سے اہل سنت کے دینی طلباء کو دی جانے والی مراعات و خدمات اہل تشیع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سخت مزاج والے شیعہ اس بات پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ آخر میں ہم کچھ حوالہ جات بطورِ دلائل پیش کر رہے ہیں، تمام قارئین انٹرنیٹ پر وقت ضائع کئے بغیر خود ان حوالہ جات کو جانچ پرکھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۶۴﴾ “کہدیجئے! اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم لوگ سچے ہو۔”

قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر ہم محترم سمیع اللہ ملک صاحب سے بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ اگر اُن کے پاس کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ایران کی پارلیمنٹ میں کوئی سُنی نہیں، ایران کے اعلیٰ عہدوں پر کوئی سُنی نہیں، تہران میں اہلی سنّت کی کوئی مسجد نہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو وہ بھی ضرور حوالہ جات کے ساتھ ہمارے علم میں لائیں۔ ہم فراخدلی کے ساتھ اُن کے ثبوت اور شواہد کے بارے میں بھی تحقیق کریں گے اور جو حقیقت ہوگی، اُس کا سب کے سامنے اعتراف بھی کریں گے۔ اگر اس کے باوجود سمیع اللہ ملک صاحب قانع نہ ہوں تو ہم اُن کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے ایران کے اہلِ سنت سیاستدانوں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد، آئمہ جمعہ و جماعت نیز تہران کی مساجد میں نمازیں پڑھانے والے اہل سنت علمائے کرام کے ساتھ آن لائن سیشنز بھی کرسکتے ہیں۔

ہمارے دلائل:
1۔ صرف گذشتہ حکومت کے دوران اہل سنت کی خواتین اور مرد سفارتکاری سمیت جن پوسٹوں پر موجود تھے، اس کی ایک مختصر فہرست
https://b2n.ir/f57952
2۔ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔ رہبرِ اعلی ٰ کا فتویٰ
https://b2n.ir/j05479
3۔ اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دینے کے بارے میں دیگر شیعہ مجتہدین کا فتویٰ
https://b2n.ir/p84030
4۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ کی طرف سے اہل سنت میں سے بحریہ کا چیف مقرر کرنا اور علمائے اہلِ سنت کا بھرپور خوشی کا اظہار کرنا
https://urdu.sahartv.ir/news/iran-i391727
5۔ تہران میں اہل سنت کی مساجد کی تعداد وکی پیڈیا پر ملاحظہ کیجئے۔
https://b2n.ir/x38144

6۔ تہران میں اہل سنت کی مساجد کا پتہ پیشِ خدمت ہے، گوگل پر سرچ کیجئے یا کسی ایرانی اہلِ سنت سے معلوم کر لیجئے:
1- مسجد صادقیه، واقع در فلکه‌ی دوم صادقیه
2- مسجد تهران ‌پارس، واقع در خیابان دلاوران
3- مسجد شهر قدس، واقع در کیلومتر 20 جاده‌ی قدیم
4- مسجد خلیج فارس، واقع در بزرگراه فتح
5- مسجد النبی، واقع در شهرک دانش
6- مسجد هفت‌جوب، واقع در جاده‌ی ملارد
7- مسجد وحیدیه، واقع در شهریار
8- مسجد نسیم‌ شهر، واقع در اکبرآباد
9- مسجد رضی‌آباد، واقع در سه ‌راه شهریار

Advertisements
julia rana solicitors london

7۔ تہران میں اہلِ سنت کی مساجد اور نماز عید کا احوال ایرانی سائٹس پر دیکھ لیجئے
https://b2n.ir/j55681
8۔ ایرانی پارلیمنٹ کی 286 کرسیوں میں سے 18 نشستیں اہلسنت نمائندوں کیلئے مختص ہیں]
https://b2n.ir/y18022
9۔ اہلِ سنت کے دینی مدارس و مساجد کی شان و شوکت
https://b2n.ir/p86420
10۔ ایران میں خلفائے راشدین کے نام سے مساجد و پل اور سڑکوں وغیرہ کے نام اور ایران کی سنی کمیونٹی کے متعلق اہم رپورٹ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply