کینسر (32) ۔ مرکزِ نگاہ/وہارا امباکر

کینسر کے علاج پر تحقیق جاری تھی۔ اور چند کامیابیاں ملی تھیں، جس نے امید بڑھا دی تھی۔
کئی محققین صبر، باریک بینی اور وقت کا تقاضا کر رہے تھے۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ایک ڈائریکٹر نے 1963 میں کہا، “وجہ اور مکینزم کو ٹھیک سے سمجھے بغیر علاج کی تلاش میں تمام توانائی صرف کر دینا درست طریقہ کار نہیں ہے۔ ہمارے پاس یقینی طور پر کینسر کا علاج نہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ ہمیں اس پروگرام کی مدد سے درجنوں کیمیکل مل چکے ہیں جو مریض کی زندگی کو کچھ طوالت دے سکتے ہیں یا تکلیف کم کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دوسری طرف کے ایکٹوسٹ اتنی باریکیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے لئے یہ سیدھا سا مشن تھا۔ فنڈ دئے جائیں، خاص احداف کی خاطر تحقیق کی جائے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
یہ بحث بالآخر 1969 میں بڑی حد طے ہو گئی۔ اور یہ زمین پر نہیں بلکہ چاند پر ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیس جولائی 1969 کو پندرہ ٹن وزنی خلائی جہاز چاند کی پتھریلی سطح پر لینڈ کر گیا۔ ایک خلاباز کے الفاظ میں، “ننھا، خوبصورت اور نیلا ۔۔۔ یہ ہمارا سیارہ تھا۔ میں نے ایک انگوٹھا سامنے پھیلایا اور ایک آنکھ بند کر لی۔ میرے انگوٹھے نے اس سیارے کو چھپا لیا”۔
اس نیلے سیارے کے افق پر یہ ایک بہت اہم وقت تھا۔ یہ ایک عظیم الشان سائنسی اور انٹلکچوئل کامیابی تھی۔ یہ نفسیاتی کامیابی بھی تھی۔ اس نیلے سیارے کے جنگلوں اور غاروں سے اٹھنے والی مخلوق اب ستاروں پر کمند ڈالنے کے خوب دیکھ رہی تھی۔
چاند ہزاروں سالوں سے رومانوی کہانیوں کا مرکز رہا تھا۔ ہزاروں سالوں سے اسے آسمان پر ٹنگی ہوئی پرسرار شے سمجھا جاتا تھا۔ صرف چند صدیوں پہلے ہی تو اس سے کچھ واقفیت ہونے لگی تھی۔ اور صرف ساٹھ برس پہلے انسان نے اڑنا سیکھا تھا۔ جہاز کی ایجاد سے چند دہائیوں بعد ہی زمین کی بندش توڑ کر چاند پر چہل قدمی کرنا حیرت انگیز کامیابی تھی۔
یہ سائنس کے حوالے سے بہت امید اور رجائیت کا دور تھا۔
“صرف توجہ دینے کی بات ہے۔ کچھ بھی ناممکن نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپالو پراجیکٹ صاف حدف اور خاص فوکس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اور اس پراجیکٹ کی کامیابی اتنی بڑی تھی کہ اس کے اثرات دور تک گئے۔ کینسر کی تحقیق پر بھی۔ یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔
اب یہ خیال عام تھا کہ “جس طرح چاند کو فتح کیا گیا ہے، ویسے کینسر کو بھی کر لیا جائے گا”۔
کینسر ایکٹوسٹ تنظیم نے اس کو کینسر کے لئے “مون شاٹ” کا نام دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو دسمبر 1969 کو اتوار کے روز واشنگٹن پوسٹ میں پورے صفحے کا اشتہار چھپا۔
“صدر نکسن۔ آپ کینسر کا علاج کر سکتے ہیں۔
اگر آسمان پر دعائیں سنی جاتی ہیں تو یہ دعا سب سے زیادہ ہو گی۔
“یا خدا، مجھے کینسر نہ نکل آئے”۔
لیکن پھر بھی، 318000 امریکی پچھلے برس کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔
جناب صدر، اس اذیت کو ختم کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔
جب آپ بجٹ کی بحث کر رہے ہیں تو ہماری استدعا ہے کہ آپ ان 318000 لوگوں کی اور ان کے خاندانوں کی تکلیف کو یاد رکھیں گے۔
ہمیں اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرنا ہے تا کہ لاکھوں جانیں بچائی جا سکیں۔
ڈاکٹر سڈنی فاربر کہتے ہیں، “ہم کینسر کا علاج پا لینے کے دہانے پر ہیں۔ صرف وہ سیاسی ارادہ درکار ہے، ویسا پیسہ اور ویسی تفصیلی منصوبہ بندی چاہیے جس نے انسان کو چاند پر پہنچا دیا۔
جناب صدر، اگر آپ نے ہم سب کو مایوس کر دیا تو پھر ہر چھ میں سے ایک امریکی کینسر کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ ساڑھے تین کروڑ انسانی جانیں ہیں۔
ہر چار میں سے ایک امریکی کینسر کا شکار ہو گا۔ یہ پانچ کروڑ دس لاکھ لوگ ہیں۔
ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے”۔
اس اشتہار کے ساتھ طاقتور تصویر تھی۔ کینسر کے خلیات کا جمگھٹا اکٹھا ہو کر کینسر کے لفظ کے آخری حروف کو ویسے ہی لپیٹ میں لے رہا تھا جیسے کینسر جسم کو لیتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیسن کے نیم روشن اندرونی کمروں سے کینسر اب عوامی نگاہوں میں تھا۔
کینسر اخباروں میں تھا اور کتابوں میں۔ فلموں میں اور تھیٹر میں۔ 1971 میں نیویارک ٹائمز میں اس پر 450 مضامین شائع ہوئے۔ کینسر وارڈ، بینگ دی ڈرم سلولی، برائن سونگ جیسی مقبول فلمیں بنیں۔ میگزین اور اخبارات میں یہ نمایاں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزاروں سال سے ہمارے ساتھ رہنے والا یہ خاموش موذی اب مرکزِ نگاہ تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply