محبت اور خدا۔۔۔ناصر خان ناصر

عشق وہ منہ زور بلا ہے جو اپنا آپ منوا کر رہتی ہے۔ اپنے منہ آپ بولتا، کفر تولتا اور محب و محبوب کو مٹی میں رولتا عشق دراصل عشق ہے ہی نہیں، اگر پھٹے ڈھول کی مانند اس کی رسوائی  کے چرچے گلی گلی نہ ہوں۔
عشق میں انسان نہ مذہب دیکھتا ہے نہ ذات پات، نہ عمر نہ شکل۔
سیانے سچ کہتے ہیں کہ دل کا کیا ہے؟ ساون برکھا رت اور نوجوانی میں دل تو گدھی پر بھی آ سکتا ہے۔
جب تک عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر انسان اپنا گریبان خود پھاڑ کر گلیوں کی خاک نہ چھاننے لگے، وہ مجنوں نہیں کہلا سکتا۔ جب تک اس آتش ریگ زار حیات میں برہنہ پا دیوانہ وار بھاگ بھاگ کر ریت کی آندھیوں میں بچھڑے محبوب کے مٹتے ہوئے پاوں کے نشانات نہ تلاش کیے جائیں، عشق کامل نہیں ہو سکتا۔
عشق کی روح جسم کا پانا بھی ہو سکتا ہے اور محب کے لمس کو پانے کے لیے خود اپنے جسم کے روئیں روئیں، ذرے ذرے کا شدت سے بے تاب اور پیاسا ہو جانا بھی۔
پیار کیا تو ڈرنا کیا عشق کا ہی اصول ہے، وہ آتش ہی کیا جو جلے اور دھواں نہ ہو، وہ دل ہی کیا جو سلگے اور تپش باہر نہ نکلے، وہ عشق ہی کیا جو اگر کیا جائے تو کسی کو خبر ہی نہ ہو؟
کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔۔ سچ ہی کہتے ہیں، عشق رسوائیوں کے منہ پر ببانگ دہل طمانچہ رسید کر کے دنیا بھر کے سامنے یہ اقرار کر لینے کا نام ہے کہ ہاں میں نے محبت کی ہے، دھڑلے سے دل کھول کر، فخر سے اپنا سر اٹھا کر اور ظالم سماج کی گھورتی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کی ہے۔
عشق نے سماجی رسومات، اخلاقی روایات اور معاشرتی حد بندیوں کے تمام تر اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر، ان پر سر عام تھوک کر ان کی ہنسی خود اڑائی  ہے اور پھر خود اپنے آپ پر تبرا بھیج کر پہروں تنہائی  میں اکیلے بیٹھ کر رویا بھی ہے۔
عشق میں بہتے آنسو وہ امرت ہیں جو انسان کی روح تک کو گھلا دیتے ہیں، موہ کی آگ میں پگھل کر ہی مکھ مونہہ اسی طرح خوبصورت ہو جاتے ہیں جیسے ماہ کامل۔
عشق میں قربانی دے کر اور خود کو اپنے محبوب کے لیے قربان کر کے ہی عاشق کا دل صاف اور خالص کھرے سونے کا بن سکتا ہے مگر کیا کریں کہ ہر عالمی مذہب میں عشق کی مناہی ہے۔ کم از کم ایک انسان کی اپنے جیسے دوسرے انسان سے عشق کرنے کی سخت ممانعت ہے۔ تمام مذاہب میں انسان کو صرف اپنے معبود سے عشق کرنے کا حکم ہے۔ جب کوئی  خود سر، سر پھرا انسان خداوں کے اس حکم سے منہ موڑ کر اپنے دل میں اپنے جیسے کسی دوسرے فانی انسان کو بسا لیتا ہے تو اسے اس کی وہی سزا دنیا میں سنا دی جاتی ہے جو ازل سے نوشتہ دیوار بنی دانیال نبی کی مضطرب نگاہوں کی منتظر تھی۔
پھر ایک کبھی نہ بجھنے والی پیاس، اک یاس، تاسف، پچھتاوہ اور غم کی چنگاری اس کے من میں سلگا دی جاتی ہے جو قبر تک اس کا پیچھا کرتی ہے۔
کہتے ہیں عشق صرف عورت ہی کر سکتی ہے، مرد صرف محبت ہی کر سکا ہے، اسے تو عشق کی روح کا بھی اندازہ نہیں ہے۔ یہ عورت ہی ہے جس کے من میں عشق یا انتقام کی آگ بھڑک اٹھے تو وہ اپنی ہستی سمیت اپنی ساری دنیا کو خاکستر کر سکتی ہے۔
بھئ ہوتا ہو گا۔
عشق میں خود مردوں کی بھی وہ تیسری آنکھ اگ آتی ہے جو شیوجی مہاراج کی تیسری آنکھ کی مانند ساری دنیا کو بھسم کر دینے کی شکتی رکھتی ہے۔
اس ظالم دنیا میں چرندوں پرندوں تک کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں مرضی آئے، جس کے ساتھ من چاہے، اپنا گھونسلہ بنا کر رہیں۔۔ صرف انسان ہی ہیں جو اپنے من پسند انسان کے ساتھ اس لیے نہیں رہ سکتے کہ یہ سماج کے نئیم اور اصولوں کی سخت خلاف وردی ہے۔
دنیا میں محبت کرنے والوں کو دو قدم جگہ بھی کہیں نہیں ملتی ہاں نفرت کرنے والوں کے لیے اس دھرتی پر ہر طرف جگہ ضرور میسر ہے۔
محبت کو خدا کی پھٹکار پڑی ہوئی  ہے۔ قصوں کہانیوں کے علاوہ بہت شاذ و ناز ہی ایسے لوگ ملتے ہیں جہاں دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی ۔ اکثر محبتیں یک طرفہ ہی ہوتی ہیں۔ دوسری طرف سے بس گزارہ کرنے یا دکھاوا کرنے کا اظہار ہی ہوتا ہے۔ سچا پیار کرنے والوں کا دل ہمیشہ ٹوٹتا ہے اور پھر اسی ٹوٹے دل میں خدا آن کر بس جاتا ہے تو تب خدا کی مصلحت سمجھ میں آتی ہے۔
جو میں ایسا جانتی پریت کیے دکھ ہووے
نگر ڈھنڈورا پیٹتی کہ پریت نہ کریو کوئے
کہنے والی میرا کا اصل دکھ بھلا کون جان سکتا ہے؟ شاید صرف وہی جو اس آگ میں خود جلتا ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply