• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سعودی داخلہ امور کی خبریں، دوسرا رخ اور روشن پہلو۔بلال شوکت آزاد

سعودی داخلہ امور کی خبریں، دوسرا رخ اور روشن پہلو۔بلال شوکت آزاد

یہ دور بہت عجیب فتنوں اور جھگڑوں کا دور ہے۔نبوی ﷺ  پیشن گوئیوں کی روشنی میں اگر اس دور کی اصلیت دیکھی جائے تو سبھی صغیرہ نشانیاں جو قیامت سے قبل رونما ہونی تھیں ہو چکی ہیں۔اب یہ دور شدید فتنوں اور کبیرہ نشانیوں کے ظہور کا ہے۔ہر تصویر کے دو رخ اور دو ہی پہلو ہوتے ہیں۔خبر کی موجودہ ڈیجیٹل اور گلوبل ویلیج دنیا میں خبر کے بھی دو رخ اور دو ہی پہلو ہوتے ہیں۔جس کو صرف غیر جانبدار اور دیانتدار صحافی ہی بہتر انداز میں الگ الگ بیان کرسکتا ہے۔لیکن خبر کی اس دنیا میں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد جو سب سے بڑی تبدیلی اور انقلاب آیا ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔

لیکن اسی سوشل میڈیا نے پروپیگنڈا مشینری اور منافقت کے کاروبار کو بھی چار چاند لگادیے ہیں۔رواں تبصروں اور تجزیوں کی ریل پیل میں اکثر کسی کی سچی اور کھری بات بھی اس قدر آگے چلی جاتی ہے کہ وضاحت اور صفائی دینے کا نہ موقع بچتا ہے نہ گنجائش ملتی ہے۔اگر ایکسپریشن ظاہر کرنے کا اور بہتر انداز ہوتا تو لوگوں کی باتوں میں چھپے غصے یا پسندیدگی کے تاثرات دیکھنا مشکل نہ ہوتا۔بہرحال موضوع کی طرف آتا ہوں کہ چند دنوں سے عالمی (دجالی ) میڈیا پر سعودی حکومت اور بلخصوص شہزادہ محمد بن سلمان کو لیکر بہت سی خبریں گردش کررہی ہیں۔کسی کے نزدیک وہ خبریں سچ اور کسی کے نزدیک وہ جھوٹ ہیں۔

بیشک ایسا ہونا جمہوریت اور آزادی رائے اظہار کی خوبصورتی ہی ہے۔لیکن میں نے آغاز میں ہی کہا تھا کہ ہر خبر بالکل تصویر کی طرح دو رخ اور دو پہلو رکھتی ہے۔شہزادہ سلمان بن محمد کے متعلق خبروں میں بھی یہی صحافتی اصول لاگو ہوتا ہے۔اور یہ بھی میں اوپر بیان کرچکا ہوں کہ غیر جانبدار اور دیانتدار صحافی خبر کے دونوں رخ اور پہلو الگ الگ بیان کرتا ہے۔میں الحمداللہ کوشش کرتا ہوں کہ غیر جانبدار اور دیانتدار رہوں۔اسی لیے ہمیشہ خبروں کے ہر رخ اور پہلو پر دو الگ الگ رائے یا تجزیے دیتا ہوں۔ایک رخ منفی اور ایک رخ مثبت ہوتا ہے اور اسی طرح ایک پہلو تاریک اور ایک پہلو روشن ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں میں نے سعودیہ عرب سے متعلق تین چار خبروں پر مشترکہ رائے پر مبنی ایک رخی منفی تجزیہ دیا تھا اور ممکنہ تبدیلیوں اور خبروں کو موضوع بحث بناکر مستقبل پر سوالیہ نشان لگایا تھا جس کو بہت سے میرے قریبی دوستوں نے میرا حتمی تجزیہ سمجھ کر ذومعنی تبصرے کیے اور مجھ پر منافقت سے لے کر درپردہ رافضیت تک کے فتوے چسپاں کیے گئے۔اور تو اور الگ سے ٹھٹھے بھی اڑائے الگ الگ القابات دے کر خاص کر انہوں نے جو تقلید اور اندھی عقیدت کے سخت دشمن اور پہرے دار ہیں ماشاءاللہ  بنا شک و شبہ۔مجھے ان سب دوستوں کی باتوں پر رتی بھر غصہ نہیں آیا بلکہ مجھے دلی تسلی ہوئی کہ میں نے سچ بیان کرکے دراصل انجانی محبتوں اور تقلید کو چھیڑ دیا ہے۔لیکن وہ تجزیہ ایک مکمل غیرجانبدار اور پیشہ ورانہ تجزیہ تھا۔

اب میں حسب وعدہ اور حسب پیشہ ورانہ ذمہ داری کے ان خبروں پر دوسرے رخ مطلب مثبت طریقے اور روشن پہلو پر بات کرکے اپنی ذمہ داری ادا کروں گا کہ ان خبروں کا مثبت رخ کیا ہوسکتا ہے جو ہم لوگ عالمی ذرائع ابلاغ کی چکا چوند میں نظر انداز کرگئے ہیں۔خبریں تو سعودیہ عرب اور شہزادہ محمد بن سلمان کے متعلق بہت سی ہیں اور کافی گرما گرم بھی لیکن ہم دو تین خبروں کو ہی موضوع سخن بناکر پہلے کی طرح بات کرتے ہیں۔

ایک خبر تو بار بار گھوم کر یروشلم پوسٹ, دی نیویارک ٹائمز, ریٹورز, الجزیرہ, دی مڈل ایسٹ آئی اور دی ٹائمز آف اسرائیل پر شائع ہورہی ہے اکتوبر کے اواخر سے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین ایک اہم اتحاد ہونے جارہا ہے ایران کی جنگی طاقت کو لگام دینے کی خاطر۔اس خبر کی سچائی میں ایک اور سابقہ خبر کو کوٹ کیا جارہا ہے کہ ستمبر کے وسط میں شہزادہ سلمان بن محمد نے ایک خفیہ دورہ اسرائیل کا کرکے اسرائیلی عہدے داروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔جبکہ اس خبر کی تردید اور تصدیق میں کوئی بیان سعودی حکومت نے جاری نہیں کیا۔

دوسری خبر جو دو دن پرانی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سب اسرائیلی سفراء کو پابند کیا ہے کہ ہر سفارتی محاز پر سعودیہ کے لیئے لابنگ کی جائے خاص کر ایران مخالف بیانات اور پالیسیوں پر۔تیسری خبر جو خالص اندرونی مسئلے کے متعلق ہے کہ چند اہم شخصیات کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے محمد بن سلمان کے خصوصی حکم پر۔اب اگر ان تینوں خبروں کا مثبت رخ اور روشن پہلو سے تجزیہ کیا جائے تو حقیقت بہت ہی تلخ اور حساس ہے۔

جی میری ناقص رائے میں شاہ سلمان سے قبل تک جو سعودیہ تھا وہ شاید اب اور نہ رہے۔اب بادشاہت نئے اور جوان ہاتھوں میں منتقل ہونے کو ہے جو قیادت میں کسی طور کم اور ہلکے نہیں بلکہ پری کنگڈم پالیسی بنانے اور ان پر عمل کروانے پر عبور رکھتے ہیں۔دشمن قوتوں کا اب یہ ایک اہم اور نیاہتھیار ہے کہ بندہ  مار کر اس کو شہید ملت بنانے سے بہتر ہے کہ اس کا کردار عوام میں ماردو۔پھر وہ دوسو سال بھی زندہ رہ لے لیکن کردار کو زندہ کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔اب اگر نہایت حتمی اور مثبت تجزیہ پیش کروں موجود ینگ قیادت کو دیکھ کر تو یہ محاورہ فٹ آتا ہے کہ چوروں کو پڑ گئے مور۔

محمد بن سلمان کی ساری توجہ اس وقت مشرق وسطی کی ان سٹیبل کنڈیشن کو سٹیبل کرنے پر ہے۔جس کا آغاز مرحلہ وار اسی سال کے وسط سے ہو چکا ہے۔سب سے بڑھ کر متحدہ اسلامی افواج کا قیام اور اس کی باگ دوڑ ایک عجمی سپہ سالار کو دے کر اس پالیسی کا اولین قدم تھا۔اس کو کسی طور طاغوتی قوتوں نے برداشت اور قبول نہیں کیا لیکن سامنے کوئی بڈھی لاغر قیادت نہیں تھی کہ جس پر پریشر ڈال کر ماحول بنایاجاتا اس لئے سامنے خاموشی اختیار کرنا مجبوری بن گئی۔

ایک منٹ کو اتحاد والی بات کو اگر ہم سچ تسلیم کرلیں اور یہ حقیقت بھی ساتھ ہو کہ راحیل شریف جیسا مدبر اور کائیاں پاک فوج کا جرنیل شہزادے کا مشیر ہے تو صاحبان یہاں پھر مشرف والی تاریخ دہرائی جانے والی ہے جیسے مشرف کے دور میں پاک امریکہ اتحاد بناکر مشرف نے امریکہ کو افغانستان کی دلدل میں پھنسا ڈالا ہے اسی طرح عرب کا لق و دق صحرا اب اسرائیل کا قبرستان بننے والا ہے اس اتحاد کی بدولت۔

جہاں جہاں پاکستان اور پاک فوج کے قدم پڑے ہوں وہاں دشمن دوستی کرکے بھی نہیں بچا۔رہ گئی بات اندرونی خلفشار اور اہم شخصیات کی گرفتاری کی تو یہ خبریں بھی دبی دبی گردش میں ہیں کہ گرفتار شخصیات کا غداری اور بغاوت کا منصوبہ اسرائیلی چھتر چھایہ میں پروان چڑھنے کو تیار تھا۔جو بروقت انٹیلی جنس اطلاعات کی روشنی میں ناکام کردیا گیا اور سعودیہ کو ایک بہت بڑی خانہ جنگی سے محفوظ کرکے اگلی چال چلنے کا بندوبست کردیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال گفتگو کے آغاز میں میں نے تمہید باندھتے ہوئے فتنوں اور جھگڑوں کے بدترین دور کا تذکرہ کیا تھا جو بیشک رواں ہے اور عرب کی سرزمین کبیرہ فتنوں کی آماجگاہ بنے گی یہ ایک نبویﷺ  پیشن گوئی ہے۔لیکن ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اور سب سے بڑھ کر برادر اسلامی ملک, آل سعود اور عرب ریاستوں کی سالمیت اور برکت کے لیے دعا گو ہیں اور خیرخواہ ہیں تو ہماری اولین خوشی ان کی برکت اور خیر میں ہی ہے کہ وہ حرمین شریفین کے پہرے دار اور میزبان بھی ہیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply