متنجن۔۔زین سہیل وارثی

ہمارے والد گرامی بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں چھٹی والے دن اکثر گھروں میں سارے ہفتے کا بچہ ہوا کھانا ملا کر کھانا بنایا جاتا تھا، جسے اکثر لوگ متنجن کا نام دیتے تھے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں مولوی صاحب کا کھانا مختلف گھروں سے آتا ہے اور مولانا اس سارے کھانے کو ایک برتن میں ملا لیتے ہیں اور اسی کو عرف عام میں متنجن کہا جاتا ہے۔ متنجن کے اجزائے ترکیبی مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مقاصد ایک ہی ہیں کہ استعمال کرنے والے کو کچھ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
ہمارے ملک کے ہر شعبہ میں متنجن کا استعمال قیام پاکستان سے شروع کر دیا گیا تھا، سب سے پہلے آئین کی تیاری میں قرارداد مقاصد کے اجزاء شامل کرکے متنجن آئین کی بنیاد رکھی گئی، پھر قوم کو اسلامی، غیر اسلامی، استعمار اور اشتراکیت کے نام پر متنجن ملا آئین دیا گیا، متنجن میں مزید تڑکا صدارتی و پارلیمانی نظام کے نام پر لگایا گیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، آپ آج عوامی رائے لیں گے تو اس متنجن زدہ عوام کے ذہن میں خیالات اسلامی ہوں گے اور جب حدود کی سزائیں نافذ ہوں گی تو یہ عوام اسی متنجن زدہ نظام سے خائف نظر آئے گی۔
معاشی نظام کا متنجن جس میں شروع میں اسلامی معاشی نظام کا نعرہ لگایا گیا مگر بعد میں متنجن کی دیگ بیچ چوراہے میں توڑ کر استعمار اور اسکے پیادوں کو نوازا گیا۔ جب یہ حقیقت جاگیرداروں، زمینداروں اور انکے حواریوں پر آشکار ہوئی تو اس معاشی متنجن میں اشتراکیت کا تڑکا لگا کر عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے ٹرک کے پیچھے لگا کر معیشت کو حادثات کا شکار کروا دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن ہے معاشی متنجن کی شکل واضح نہیں ہو سکی کہ معاشی نظام استعماری ہے کہ اشتراکی۔
حالیہ دنوں میں اس معاشی متنجن میں دوبارہ سے اسلامی معاشی نظام کا تڑکا لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کے بعد معاشی متنجن تیزابی ہو گا یا اساسی خدائے بزرگ و برتر کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پرانا استعماری مال جدید روایت و انتظام کے ساتھ دستیاب ہے کیونکہ معاشی نظام سے ہر طبقہ نے فائدہ اٹھایا ہے صرف مذہبی طبقہ رہ گیا تھا جسے اب مکمل موقع فراہم کر دیا گیا ہے۔
ریاستی نظام میں بھی متنجن کا استعمال قیام پاکستان سے جاری ہے، جب بھی سیاسی یا مقتدر حلقوں کی حکومت آتی ہے، ریاستی نظام کے ہرکارے زیر اعتاب آ جاتے ہیں کبھی اس بنیاد پر کہ ریاستی نظام میں تبدیلیاں لائی جائیں گی اور کارکردگی کی بنیاد پر ہر جگہ ہرکاروں کو معطل یا ٹرانسفر کیا جائے لیکن ڈھاک کے وہی تین پات ہیں نتیجہ پھر متنجن والی صورتحال کی طرح ہے۔ کہ کبھی ہرکارے (بیوروکریسی) کام مکمل روک دیتے ہیں یا کبھی شاہ سے اتنے وفادار ہو جاتے ہیں کہ نشان عبرت بنا دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ موجودہ حکومت جو کہ نئے پاکستان کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے، اس میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ہرکاروں کی باز پرس کرنے کا حکومت نے بیڑا اٹھایا تھا لیکن 3 سال گزر گئے ہیں مگر صورتحال جوں کی توں ہے، یاں دوسرے الفاظ میں کہیں تو پرانے پاکستان والے کم از کم معطل کر دیتے تھے یا او ایس ڈی بنا دیتے تھے نئے پاکستان والے پہلے نگینہ نما ہرکارے ڈھونڈتے ہیں اور جب وہ کام کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں تو ہرکاروں کو ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔
74 سال گزر گئے ہیں اب تک ملک میں یکساں تعلیمی نظام کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا، تعلیمی نظام کا متنجن تو چند ایک صورتوں میں صاحب بہادر ہمارے لئے چھوڑ گئے تھے جن میں چیف کالج (ایچیسن کالج) اور دیگر مشنری ادارے تھے۔ رہی سہی کسر ہماری ریاست کی کمزور پالیسیوں نے پوری کردی، وہ تمام باقیات جو انگریزوں نے ہمارے لئے بنائیں اور متروکہ مال کے طور پر چھوڑ گئے، ہماری ریاست آج تک ان کے مقابلہ پر کوئی ماڈل سکول، کالج اور جامعہ تعمیر کرنے سے قاصر رہی۔ 1972ء کی ادارے قومیانے والی پالیسی نے تعلیمی میدان کا مزید بھرکس نکال دیا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا اللہ بھلا کرے جنھوں نے مختلف سرمایۂ داروں کو تعلیمی نظام ٹھیکہ پر دینے کا فیصلہ کیا۔ مزید حصہ بقدر جثہ جناب سید جنرل پرویز مشرف نے جامعات کے چارٹر جاری کر کے پورا کر دیا ہے اب مملکت خداداد میں اتنے تعلیمی نظام ہیں کہ متنجن کی سی صورتحال ہے۔ کوئی ایک بھی تعلیمی نظام موجود ریاستی نظام میں تعمیر و ترقی کا سبب نہیں بن رہا بلکہ ہر تعلیمی نظام مملکت خداداد کی تطہیر و ترقی معکوس میں حصہ ضرور ڈال رہا ہے۔ اس نظام میں مزید بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ تعلیمی نظام مادری زبان میں ہونا چاہیے کہ انگریزی زبان میں، اساتذہ کی تعیناتی و تقرری کا طریقہ کار اور دیگر معاملات اپنی جگہ علیحدہ موجود ہیں۔
[ ] صحت عامہ کا نظام متنجن جیسی صورتحال کا منظرنامہ پیش کر رہا ہے، حالانکہ اس نظام کی تبدیلی کے لئے 2001ء سے واضح کوششیں کی گئی ہیں، مگر اس نظام میں بھی وہی بنیادی مسائل درپیش ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے وسائل کم ہیں، نیز نظام میں بھی متعدد خامیاں ہیں جن میں بغیر پرچی ادویات کی خریداری یا دوسرے الفاظ میں کہیں تو سیلف میڈیکیشن سب سے اہم ہے۔ ہمارے ملک میں تقریبا ہر انسان حکیم و ڈاکٹر ہے، اگر وہ اس پریکٹس سے پرہیز کرتا ہے تو اسکے عزیز و اقارب میں بے پناہ ایسے عظیم لوگ میسر ہیں۔ جنرل چیک اپ سے گریز بھی ایک اہم مسئلہ ہے، ہم ڈاکٹر کے پاس جانے سے تب تک گریز کرتے ہیں جب تک معاملہ ہاتھ سے نکل جائے، اور جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو پھر ہمارے پاس پیر و فقیر تو موجود ہیں جو تمام بیماریوں کا علاج اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکومت وقت نے صحت کی بیمہ پالیسی والا نظام متعارف کروایا ہے مگر معاشی صورتحال و وسائل کی کمی اس نظام کی کامیابی میں رکاوٹ کا سبب بنے گی۔
نظام عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں اس میں بنیادی متنجن نظریہ ضرورت کا تھا، کبھی کبھی علم و دانش کی بنیاد پر لوگ آزادی کے فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر متنجن اتنا تیزابی ہے کہ عدل و انصاف کی تطہیر کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی، جہاں دیر کا اندیشہ ہوتا تھا، وہاں پی سی او نامی کالا علم استعمال کر کے نظام عدل کو مزید کمزور کر دیا جاتا تھا۔ ابھی تک ہم یہ تعین نہیں کر سکے کہ متنجن سماجی ہو گا کہ اسلامی، یعنی تعزیرات پاکستان لاگو ہوں گی کہ اسلامی حدود لاگو ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں شریعہ عدالت بھی ہے اور سول بھی، جب مناسب لگتا ہے شریعت کا سہارا لیکر بذریعہ دیت قتل سے معافی حاصل کرلی جاتی ہے اور کبھی اسی کا سہارا لیکر سازش کر نے والوں کو بھی تحتہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
مذہبی نظام میں بھی متنجن کا نہایت خوبصورتی سے استعمال حسب ضرورت و حسب ذائقہ کیا گیا، وہ ملک جہاں کی اکثریت صوفی ازم کی بنیاد پر رواداری کے اصول پر قائم تھی۔ وہاں مشرق وسطی کی طرز کا اسلامی نظام انکل سام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نا صرف لایا گیا بلکہ لوگوں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کی گئی، نتیجہ ہمارے سامنے ہیں کہ اب تک تعین نہیں کیا جا سکا کہ اسلام معتدل ہے یا رجعت پسند۔ عورت کے حقوق کیا ہیں، جہیز کی لعنت اور دیگر مسائل کا کیا حل کیا جائے۔ اس سب میں خاندانی نظام پر سوالیہ نشان الگ ہے جہاں ایک بہن یا بھائی کو باقی بہن یا بھائیوں کے لئے قربانی کا بکرا بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کالا علم، تعویذ دھاگہ اور دیگر عملیات الگ موجود ہیں۔
نظام تو اور بھی بہت سے ہیں جن میں متنجن جیسی صورتحال بیان کی جاسکتی ہے، لیکن اب حل کی طرف کچھ توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ آخر اس تمام صورتحال سے سمجھوتہ کے علاوہ مزید کیا کیا جاسکتا ہے۔
سب سے اہم بنیادی تبدیلی ہمیں حکومتی و سیاسی نظام میں لانا پڑے گی جس میں اول بلدیاتی نظام کی مکمل بحالی ہے، اگر ہم بلدیاتی نظام جو جنرل مشرف کے دور کا تھا اس میں مزید چند ایک اصلاحات لے آئیں اور تمام سیاسی جماعتیں اس پر من و عن عمل کر لیں تو شاید یہ بنیادی تعلیمی مسائل اور صحت عامہ کے مسائل حل ہو جائیں، لیکن ہمیں اس سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضرور کرنا پڑے گی۔
ان بلدیاتی اداروں کو خودمختار کیا جائے کہ یہ تمام ترقی یافتہ ممالک کی طرح کچھ وسائل صوبوں اور وفاق سے حاصل کریں باقی پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے منصوبوں کے تحت مختلف سیر و سیاحت و دیگر کاروباروں کی صورت میں خود پیدا کریں۔
ریاستی مشینری (بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ، اساتذہ، ڈاکٹروں اور دیگر شعبہ جات) کے لوگوں کی تعیناتی و تقرری کے لئے نظام میں اصلاحات لائی جائیں اور ان کی تقرری و تعیناتی کی مدت کا تعین کیا جائے کسی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر لوگوں کو معطل نا کیا جائے۔ نیز قابلیت کی بنیاد پر عہدہ دئیے جئیں نا کہ انگریز کے قائم کردہ مسابقتی نظام کی بنیاد پر جس میں انگریزی پر عبور آپ کی قابلیت اور اہلیت ثابت کرے۔
واپڈا کا چیئرمین ایک الیکٹریکل انجینئر ہونا چاہیے نا کہ ایک ریٹائرڈ جرنیل، نیز یہی اصول دیگر اداروں پر لاگو ہونا چاہیے۔ ہمیں اب اپنی آبادی کی افزائش نسل پر قدغن نا سہی تو کم از کم اسکی شرح کو قابو ضرور پانا پڑے گا کیونکہ بنیادی وسائل کی جس کمی کا ہم شکار ہیں، آبادی کی شرح ہمیں اس دلدل کی طرف دھکیل رہی ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
اس لئے میرے اس ملک کے تمام بڑوں (عدلیہ، مقننہ، مقتدرہ) سے دست بستہ گزارش ہے ان قومی مسائل کا حل نکالیں، کیونکہ یہ ملک کب تک ڈنگ ٹپانے والے انداز میں چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply