الاؤ(حصّہ اوّل)۔۔شاہین کمال

میری زندگی پر سکون دریا پر ہلکورے لیتی بادبانی کشتی کہ مانند تھی۔ اس کو تند و تیز لہروں کے حوالے میں نے خود کیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ میں خود ہی سراسر قصوروار ہوں۔جب آپ چیزوں کو فور گرانٹیڈ لینے لگتے ہیں اور اپنی حدود پھلانگ لیتے ہیں تو پھر وہ رسی حرکت میں آتی ہے جسے مہلت کی رسی کہتے ہیں، مگر مصیبت تو یہ ہے کہ جوانی میں نصیحت پر کان دھرتا کون ہے؟
اس وقت تو لگتا ہے کہ آپ وقت کے سکندر ہیں۔
یہ وقت یونہی آپ کے تابع رہے گا۔ آپ کی مٹھی میں بند۔ مگر وقت کب ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے پتہ بھی نہں چلتا۔ ہوش تب آتا ہے جب پانی سر پر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
مجھے پتہ ہے آپ بور ہو رہے ہیں۔ بےشک مجھے رونے کے لیے اپنا کندھا مت دیجئے مگر خدارا یہ دل خراش کہانی سنتے جائیں۔ پلیز !

کہ یہ فسانہ ء  عبرت ہے۔

میں خورشید مرزا ہوں۔ میں اس گمان میں مبتلا تھا کہ میرا خورشید کبھی غروب نہیں ہو گا۔ ہائے انسان اور اس کی خوش گمانیاں۔ مبالغہ نہیں، میں واقعی حسن و جوانی کا پیکر تھا۔ چھ فٹ سے نکلتا قد ، سرخ و سفید رنگت، بھوری چمکدار آنکھیں جن میں مستقل مسکراہٹ براجتی تھی۔ سیاہ گھونگر یالے بال۔ چوڑا اونچا ماتھا جو میری ذہانت کا مظہر تھا۔ میں لفظوں کی جادوگری میں ید طولی رکھتا تھا۔ بس یوں سمجھیے کہ

ہم یوسف زماں تھے ابھی کل کی بات تھی۔

نوازنے والے نے کہیں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔
میں بظاہر مور کی طرح آرستہ اور بباطن مور کے  پیروں کی طرح کریہہ اور سخت تھا۔ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور تین بہنوں کا سر چڑھا چہیتا بھائی تھا۔ اماں جانی مجھے دیکھ دیکھ کر جیتی تھیں۔ سچ پوچھیے  تو ان کی بے جا حمایت اور لاڈ پیار ہی نے میری مت مار دی تھی۔ وہ میری ہر خطا کی پردہ پوش تھیں اور ان کی یہ اندھی محبت میرے لئے سم قاتل ٹھہری۔ ابا تک تو اول کوئی شکایت ہی نہیں پہنچ پاتی تھی اور اگر کبھی دربار تک رسائی حاصل کر بھی لیتی تو اماں اور بہنیں میری سپر اور ڈھال بن جاتیں اور ابا کو پسپائی اختیار کرنی پڑتی۔
رفتہ رفتہ مجھے اس کھیل میں مزہ انے لگا اور میں اپنا میدان وسیع کرتا چلا گیا۔
میں حسن کے ساتھ ساتھ ذہانت سے بھی مالا مال تھا لہذا  ایم۔ بی۔اے شاندار نمبروں سے پاس کیا۔ میں انتہا کا شاطر تھا اور اپنے بچاؤ کا بھر پور انتظام رکھتا ۔ دانہ اس مہارت سے ڈالتا کہ پنچھی کو دام کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ داؤ اس چابک دستی سے لگاتا کہ مات ہونے تک مخالف اس کو اپنی جیت ہی سمجھتا اور جب تک کہانی سمجھ میں آتی پٹری چمک رہی ہوتی۔ مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ میں بلا کا سفاک اور منجھا ہوا کھلاڑی تھا۔

ابا میاں کی پلاسٹک کے برتنوں کی فیکٹری تھی اور ہم لوگوں کا شمار اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں ہوتا تھا۔ زندگی کی ہر آسائش میسر تھی۔ اب میں باقائدگی سے فیکٹری جایا کرتا تھا مگر میری فطرت تو آزاد منش تھی۔پابندی میرے خون میں جوار بھاٹا لے آتی اور میں رسی توڑوانے کے درپے ہو جاتا تھا۔
یونیورسٹی تک تو لڑکیاں کبھی میرا مسئلہ نہیں رہیں تھیں کہ لڑکیاں مجھ پر پروانہ وار نثار رہتی۔ میں نے بھی ان کی دیوانگی کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور کھل کر کھیلا۔ میں کرشن کنہیا تھا اور میرے ارد گرد گوپیاں ہی گوپیاں۔ میرے مسلک میں کفران نعمت حرام تھا مگر اب پریکٹیکل لائف میں یہ سب ذرا مشکل کہ فیکٹری میں، میں بہت بیبا بندہ بن کر رہتا تھا۔ میں نے بتایا نا کہ میں محتاط طبیعت بھی تھا اسی لیے محلے اور فیکٹری میں اپنا شاندار امیج بنا کے رہتا تھا اور شکارگاہ ہمیشہ قیام گاہ سے کوسوں فاصلے پر رکھتا کہ میں بہرطور ایک شاطر کھلاڑی تھا۔
کم سنی میں گھر کی نوکرانی پر اوچھا ہاتھ ڈالنے کے بعد میں بہت محتاط ہو گیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو اماں کا کہ نے معاملہ سنبھال لیا ورنہ اس واقعے سے تو بڑی اور منجھلی باجی بھی بدک کر میرے مخالف کھڑی ہو گئی  تھیں، سمیرا تو خیر ان دنوں بہت چھوٹی تھی۔ وہ تو اماں کی خیر ہو انہوں نے ہی رائتہ سمیٹا۔
اس قصے سے میں نے سبق سیکھا اور ٹھنڈا کر کے کھانے لگا۔ مگر اس واقعے کی پھانس اماں کے دل میں کچھ ایسی گڑی کہ اماں کا دل پھر میری طرف سے کبھی صاف ہی نہ ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ میں پوری دنیا میں اماں ہی کو سب سے زیادہ چاہتا ہوں۔ میں بدلنا بھی چاہتا تھا مگر جانے کیا ہو جاتا تھا۔ مہینے دو مہینے انسان کا بچہ بنا رہتا پھر نہ جانے کہاں سے کوئی کافر ادا آ جاتی اور میری ساری تپسہ بھرشٹ ہو جاتی۔ اب میں قدرت اللہ شہاب تو تھا نہں کہ آنے والیوں کے ساتھ نمازیں پڑھتا پڑھاتا اور ان کو ہدایت سے سرفراز کرتا۔ شہاب صاحب ان عورتوں کو چمگادڑیں کہا کرتے تھے جو ان کی راہ کھوٹی کرنے آتی تھیں۔ بھئ میں تو خود کھوٹا تھا اور خطا کار تھا، اس لئے پھنس جاتا، دھنس جاتا تھا۔

فیکٹری میں بڑے بے کیف دن گزر رہے تھے کہ یکایک اماں نے میری شادی کا شوشہ چھوڑ دیا اور یہ میرے حق میں بہت نیک شگون ثابت ہوا۔ نورجہان ابا کی دور پار کی عزیز تھی اور واقعی نورجہان تھی۔ ہم دونوں کی جوڑی شمس و قمر کی جوڑی۔ وہ معاشیات میں گولڈ میڈلسٹ تھی، یہ بات میری انا کو ذرا ناگوار تھی کہ اس سے میری خود پرستی پر ضرب پڑتی۔ نورجہان حسن صورت و سیرت سے آراستہ تھی اور مجھ جیسے بھنورے کو اس نے خاصی حد تک اسیر کیا ہوا تھا۔ شادی کے ابتدائی پانچ، چھ سالوں تک میری خیانت محض نظروں تک محدود تھی اور دوسری عورتوں کے ساتھ گھومنا گھومانا نہیں تھا۔ ان گزرے سالوں میں، میں دو بیٹوں جلال اور بلال کا باپ بھی بن چکا تھا اور گویا مجھے شہ پر لگ گئے تھے۔ میری چھاتی مزید بالشت بھر چوڑی اور انا سانپ کے پھن کی طرح تن گئی  تھی۔

ابا بڑے سیانے بینے تھے۔ فیکٹری میں پچاس فیصد حصہ ابا کا اور پچیس فیصد میرا اور پچیس فیصد نورجہان کا تھا جو کہ ظاہر ہے مجھے بلکل پسند نہیں تھا بلکہ بچوں کی پیدائش سے پہلے تک تو نورجہاں ابا کے اصرار پر فیکٹری بھی جاتی رہی تھی، گو اماں اور میں اس روش پہ خوش نہیں تھے۔ ابا شریعت کے بہت پابند تھے اور انہوں نے تینوں بیٹیوں کو جائیداد میں جو ان کا شرعی حصہ تھا وہ ان کو اپنی زندگی ہی میں دے دیا تھا ۔ وہ بہت دیالو تھے، دوسروں پر کھل کے خرچ کرتے تھے۔ غریبوں کی بیٹیوں کی شادی، نادار طالبعلموں کے لیے وظیفے۔ یہ سب ابا کی روٹین میں شامل تھا۔ حد سے ذیادہ وضع دار، حقوق العباد اور صلع رحمی کے پرستار۔
ابا اب بیمار رہنے لگے تھے اور عملاً فیکٹری اب میرے حوالے تھی پر یہ کل وقتی ذمہ داری بھی میرے پیروں میں بیڑیاں نہیں ڈال سکی تھی ۔

شادی کو دس سال ہو چلے تھے اور اب میں تھوڑا تھوڑا نور سے اوبنے لگا تھا، شادی کی جکڑن سے جھلانے لگا تھا۔ اب میرا زیادہ تر وقت گھر کے اندر کے بجائے اینکسی میں یار دوستوں کی سنگت میں گزرنے لگا ۔ نور نے نوٹ تو کیا مگر ناراضگی کا برملا اظہار نہیں کیا۔ وہ ویسے بھی بڑے رکھ رکھاؤ والی وضع دار عورت تھی۔ ان دس سالوں میں  آج تک ہم لوگوں کا جھگڑا بیڈ روم سے باہر نہیں گیا تھا۔
انہی دنوں میری زندگی کے افق پر منظر طلوع ہوا جو حقیقتاً میرے غروب کا پیام بر تھا۔ منظر میرے کالج اور یونیورسٹی کا دوست تھا۔ رئیس ماں باپ کی بگڑی اولاد۔ اس کا ظاہر اور باطن خباثتوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگ ہم دونوں کی دوستی پر حیران ہوتے تھے جبکہ حق یہ تھا کہ ہم دونوں باکل ایک تھے۔ سچ ہم ایک دوسرے کا آئینہ  تھے۔
یونیورسیٹی کے بعد وہ امریکہ چلا گیا تھا اور اب نائین ایلیون کے متاثرین کے ساتھ وہ بھی دوبارہ پاکستان آ گیا تھا۔ اس سانحے نے امت مسلماں پر جو قہر ڈھایا اس سے تو سب ہی واقف ہیں۔ اختلاف اور انتشار کی رسیا اس امت کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور وہ امریکہ کی وحشت اور بربریت کا یکے بعد دگرے شکار ہوتے چلے گئے۔
نا عاقبت اندیش امت نے اس ناگہانی سے بھی سبق حاصل نہیں کیا اور متحد ہونے کا یہ نادر موقع بھی گنوا دیا۔ صیہونی قوتوں نے متحد ہو کر ہم مسلمانوں کو پارہ پارہ کر دیا۔ نتیجہ آج دنیا بھر میں مسلمان بے خانماں اور برباد ہیں۔
منظر میری زندگی میں بھوچال بن کر آیا. پہلے میری شامیں پھر راتیں بھی مصروف تر ہوتی چلی گئی ۔ رات گئے کے مشغلے صبح کے معمول پر بھی اثر انداز ہوئے اور فیکٹری میں پروڈکشن کا گراف نیچے گرنے لگا۔
اچھا ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم مرد اس مغالطے میں مبتلا رہتے ہیں کہ بیوی کو کھانا کپڑا مل رہا ہے، ہفتے عشرے میں دو چار دل لگی کے جملے بول دیے اور حاطم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے شاپنگ کے لئے اضافی پیسے دے دیے ۔ بس اب ہم ہر زمہ داری سے بری الزمہ اب ہم جو چاہیں کریں۔ وہ ہماری ساری سرگرمیوں سے لاعلم رہیں گی۔
نہ نہ  ایسا نہیں ہوتا.
بیویوں میں رب تعالی نے کوئی خاص قسم کا ریڈار سسٹم لگایا ہوتا ہے، ادھر آپ نے پٹڑی بدلی ادھر ان کو علم ہوا۔ وہ تو نظروں کی خیانت تک سے واقف ہوتی ہیں۔ بس  ذرا لگام ڈھیلی رکھتی ہیں۔ راسیں زیادہ کھینچ کے نہیں رکھتی کہ گھوڑا الف نہ ہو جائے اور ہم بے خبر سمجھتے ہیں کہ سارا معاملہ انڈر کنٹرول ہے۔ مزے کی بات کہ یہ ریڈار سسٹم پڑھی لکھی اور غیر پڑھی لکھی سب بیویوں میں یکساں نصب ہوتا ہے۔

بدنصیبی کبھی تنہا نہیں آتی ۔ انہی دنوں ابا میاں کا انتقال ہو گیا اور جو ذرا نظر کا لحاظ تھا، ہلکی سی پردہ داری تھی وہ بھی ہوا ہوئی۔ اماں ابا کے انتقال کے بعد بلکل ہی گوشہ نشین ہو گئیں ۔ وہ ویسے بھی میری باگ نورجہاں کو پکڑا کر بے فکر ہو گئی  تھیں، مگر نور بےفکر نہیں تھی اس کی چھٹی حس نے الارم بجا دیا تھا اور اسے گڑبڑ کا اندازہ تھا، اسے یقین کہ میں فیکٹری کی آڑ میں کہیں اور مصروف ہوں۔ میں نے کہا نا کہ بیویوں میں ایک خاص حس ہوتی ہے جو نظرکے بھٹکنے سے بھی آگاہی دیتی ہے بےوفائی تو بہت دور کی بات ہے۔ بیویوں کا انٹیلیجنس سسٹم کچھ ایسا ہے کہ ان کو میاں کے خوابوں پر بھی رسائی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply