الاؤ(دوم،آخری حصّہ)۔۔شاہین کمال

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میں بہت سیانا کوا تھا۔ میں اپنے پی۔اے اور ڈرایور کو ہمشہ اپنی مٹھی میں رکھتا تھا۔ ان پر نوازشات کی بارش کر کے ان کی زبان اور ایمان کو اپنے پاس گروی رکھ لیتا۔ منظر اور میں شہر کا کوئی کلچرل ایونٹ مس نہیں کرتے تھے۔ میرے اس حد تک جانے پر نور نے اعتراض کیا، شکوہ شکایت، ناراضگی یہاں تک کہ بھوک ہڑتال بھی۔ پہلی بار ہمارے جھگڑوں نے بیڈ روم کی دہلیز پار کی اور اماں بےچاری کے وظائف کے دورانیے بڑھتے چلے گئے۔ نور منت ترلے کر کر ہار گئی۔ سارے نسوانی حربے آزما لیے مگر میں نفس کے ہاتھوں اندھا تھا۔
پھر بات بڑھتی ہی چلی گئی اور میں اس مقام تک جا پہنچا جہاں کسی حال میں نہیں جانا چاہیے تھا، یعنی الماس بیگم کے دولت کدے تک۔ میں جوہڑ میں غوطے لگا رہا تھا، گھر کی مصفا کوثر چھوڑ کر۔ اس کے بعد نور نے مجھے کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا۔ میں بہت خوش تھا کہ روز کی قِل قِل  سے جان چھوٹی۔ وہ میرے سارے کام ویسے ہی کرتی تھی مگر اب وہ کام محبت کے شیرے میں ڈوبے ہوئے نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ مجبور فرض کے بے رنگ لٹھے کے کفن کی طرح سرد اور جذبات کی گرمی سے عاری تھے۔ بیوی جب تک لڑتی جھگڑتی ہے خیر ہے۔ اگر وہ چپ ہو گئی اور آپ سے باز پرس کرنی چھوڑ دی تو یقین رکھیے کہ آپ دل کے سنگھاسن سے اتارے جاچکے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ محبت اور نفرت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ محبت اپنی توہین کبھی برداشت نہیں کرتی۔ لمحوں میں شدید محبت نفرت کا   کفن  پہن لیتی ہے۔
میں بد نصیب اس سانحے سے قطعاً لا علم تھا۔
مجھے ان دنوں ہوش ہی کہاں تھا۔ میں تو جذبات کے دھنک پل پر الماس کے ساتھ محو خرام تھا۔ منظر میری زندگی میں بحران لا کر جرمنی جا چکا تھا۔ ان ہی دنوں میری طبیعت بھی کچھ گری گری تھی۔ مجھے پہلا جھٹکا تب لگا جب الماس کو دیا گیا چیک باؤنس (bounce) ہوا اور الماس کی ماں نے دبے دبے مجھے  ذلیل کیا۔ میں تن فن کرتا چچا فراست کے کمرے میں جواب طلبی کے لئے گیا۔ چچا فراست ابا کے بہت وفادار تھے اور میں چاہ کر بھی ان کو تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔ ابا بلاشبہ بہت دور اندیش اور صاحب بصیرت تھے۔ وہ اپنی زندگی میں ایسے انتظامات کر گئے تھے کہ مجھے کھل کر کھیلنے کا موقع نہ ملے اور بےشک یہ ان کی معاملہ فہمی تھی جس نے فیکٹری کو بچا لیا ورنہ میں نے تو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
یہ چچا فراست تھے جنہوں نے نور کو میرے روز و شب سے آگاہ کیا تھا اور نور نے پی۔اے اور ڈرائیور سے ساری کہانی اگلوا لی تھی۔ نور کے پاس میری خطاؤں کی لمبی فہرست بمعہ  ثبوت تھی۔ اس نے فیکٹری دوبارہ جانا شروع کر دیا تھا۔ ادھر میں الماس کا دھتکارا ہوا ، گویا دھوبی کا کتا۔

میری میڈیکل رپورٹ بھی آ گئی تھی جو انتہائی مہلک اور شرمناک تھی۔ مجھے سکینڈ ڈگریsyphilis تھا۔ میرے پاس تو منہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں تھی۔
نور نے میرے علاج معالجے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ مگر وہ، وہ نور نہیں تھی جو میرے سر درد پر بھی بےچین ہو  جاتی تھی اور میں شکوے کا حق کھو چکا تھا۔ پچھلے پانچ سالوں سے میں نے اس سہاگن کو ابھاگن بنا کر برہا کی بھٹی میں جھونک رکھا تھا۔ اس کو جس آزار میں مبتلا رکھا تھا اس کی معافی نہ دنیاوی قانون میں تھی اور نہ آفاقی میں۔
میری حیثیت ایک خارش زدہ کتے کی تھی جو گھر کے مین گیٹ پر نہیں بلکہ کہیں کونے کدھرے میں منہ چھپا کے بیٹھا رہتا ہے اور جسے روٹی بھی دور سے پھینک کے ڈالی جاتی ہے۔

میں نے اب غور کیا تھا کہ نور سر تا پا بدل چکی تھی۔ کپڑے بہت سوبر رنگوں کے، کان اور گلا زیور سے نا آشنا۔ یہ تو بہت سج دھج کے رہتی تھی۔ میرے خاندان اور حلقے میں نور فیشن کی ٹرینڈ سیٹر کے طور پر جانی مانی جاتی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو مٹی کر لیا تھا۔
صبح جب خالہ حسبو میرا ناشتہ لے کر آئیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ سب خیریت تو ہے بی بی دو دن سے فیکٹری نہیں جا رہی  ہیں؟
کہنے لگی کہاں میاں ! بخار میں بےسدھ ہیں ۔ نہ ڈاکٹر کے پاس جاویں ہیں نہ نگوڑے کو بلانے دیں ہیں۔
میں ناشتے کے بعد اپنے ہی گھر میں، پتہ نہیں  کتنے عرصے کے بعد چوروں کی طرح داخل ہوا۔ دل گویا حلق میں دھڑک رہا تھا اور ہاتھ پیر بے جان ہوئے جاتے تھے۔ اپنا بیڈ روم دیکھ کر دل کو دھکا سا لگا اور پچھلی زندگی بجلی کی طرح نگاہوں میں کوند گئی۔ نور بےسدھ پڑی تھی۔

میں نے جیسے ہی اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا، لگا اس کو کرنٹ لگ گیا ہے، تڑپ کر اس شدت سے اس نے میرا ہاتھ جھٹکا کہ میں لڑکھڑا کے گرتے گرتے بچا۔
اس کی نظر۔ اف! کاش کاش!
میں نے نہ دیکھی ہوتی۔ ان آنکھوں میں نفرت کا دہکتا ہوا جہنم تھا۔ میں اب تک اس مغالطے میں تھا کہ نور چونکہ بہت ناراض ہے اس لئے میری طرف دیکھ کر بات نہیں کرتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ میں نظریں ملانے کے لائق بھی نہ تھا۔ مگر آج مجھے اندازہ ہوا کہ وہ غصہ نہیں نفرت کی شدت ہے۔ اتنی شدید نفرت کے وہ مجھے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ میں خاموشی سے واپس اینکسی میں آ گیا اور پھر اپنے فیملی ڈاکٹر کو فون کیا کہ وہ آ کے اس کو دیکھ جائیں۔ اس کی نفرت جائز تھی۔ میری بےراہ روی نے اس سے صرف اس کا شوہر ہی نہیں بلکہ بچے بھی چھینے تھے۔ میری رسوائی کی وجہ سے اس نے بچوں کو مری کے بورڈنگ اسکول بھیج دیا تھا۔

مجھے آج شدت سے احساس زیاں تھا۔ میں کیسا جاہل اور کم ظرف تھا کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہنستی بستی زندگی کو خاکستر کر دیا۔ مجھے اپنے سارے گناہ یاد آ رہے تھے۔ وہ تمام نادان لڑکیاں جو میرے عشق میں پاگل تھیں اور جن کے بھروسے کو میں نے لوٹا تھا۔ ان کی آہیں اور بد دعا مجسم ہو کر مجھے چمٹ گئی تھیں۔ آج سے پہلے مجھے اپنے آپ پر ترس آتا تھا۔
مگر آج! آج مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔ مجھے میرے منہ اور جسم کے زخم بہت تھوڑے لگ رہے تھے اور جلد کی خارش جیسے میں کھجا کھجا کہ لہو لہان ہوجاتا تھا ، بہت کم لگ رہی تھی۔ میں تو اس سے کہیں زیادہ   اذیت کا مستحق تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ مجھ پر کڑکتی بجلی گر جائے اور میں جل کر راکھ ہو جاؤں اور میرا نام و نشان مٹ جائے۔ ابھی تک میں دل ہی دل میں رب تعالی سے ناراض تھا کہ دنیا میں مجھ سے بڑے بڑے بدمعاش اور عیاش بھرے پڑے ہیں، ان کو تو syphilis نہیں ہوا۔ منظر کو تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ ویسے ہی زندگی سے رس کشید کر رہا ہے۔
میں ہی کیوں؟
مگر آج مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ دل چاہ رہا ہے کہ زندگی کا خاتمہ کر دوں، مگر ایک اور گناہ؟
میرے پلے تو پہلے ہی کوئی بھولی بھٹکی نیکی نہیں۔ میرے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں ان لوگوں کو کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں جن کی زندگیاں میں نے تباہ کردی تھیں۔
میں ان کو کہاں پاؤں کہ ان کے پیروں پر گر کر اپنی خطا بخشوا لوں۔ آج مجھے احساس ہوا کہ ابا میاں ہر وقت حقوق العباد اور صلع رحمی پر کیوں اصرار کرتے تھے۔
اب مجھے اندازہ ہوا کہ شاید رب کو راضی کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اس کے بندوں کو منانا۔ بندے تو سمے کی دھارا میں گئے وقت کی طرح کھو جاتے ہیں۔

مجھے نہیں لگتا کہ نور مجھے کبھی معاف کرے گی۔ حق تو یہ ہے کہ اس کو کرنا بھی نہیں چاہیے۔ پتہ نہیں ہم مرد یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بیوی بھی ہم مردوں کی طرح گوشت پوست ہی سے بنی ہوئی انسان ہے۔ اس کے پاس بھی خواہشوں سے لبریز دھڑکتا ہوا دل ہے اور ہمارے ہی جیسا بھڑکتا ہوا نفس بھی۔ جذبات اور موسم اس پر بھی شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہم کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ خدا نے اس کو صنف نازک بنایا ہے اور وہ آبگینے کی طرح نازک ہے، ریشم کی طرح نرم اور سرد و گرم سے بچائے جانے کی متقاضی۔ دل میں بسا کے، انکھوں میں سجا کے رکھنے کے لائق ۔اس کو ہم خودغرض مرد خواہشات کے تپتے ریگ زار میں نفس کی خود پہنا کے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور پلٹ کے دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ اس کی صبر کی ذرہ تڑخ تو نہیں گئی۔

گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں
میرے قاتل حساب خوں بہا ۔۔ ۔ایسے نہیں ہوتا

کاش مجھے کوئی معافی دلا دے۔ مجھ سے میری زندگی لے لے پر مجھے سب سے معافی دلا دے۔
مجھے تو اب وضو کا طریقہ بھی ٹھیک سے یاد نہیں، پتہ نہیں سورتیں بھی یاد ہیں کہ نہیں؟
نہیں نہیں !
ٹھہرو !! مجھے سورہ اخلاص یاد ہے۔ بالکل یاد ہے۔
اماں سوتے ہوئے سورہ اخلاص اور کھانا کھلاتے ہوئے سورہ فاتحہ پڑھا کرتی تھیں۔
اماں اماں! مجھے بچا لو۔
اماں تم تو مجھے ابا میاں کے عتاب سے بچا لیا کرتیں تھی نا۔
اماں اماں! پلیز مجھے اللہ تعالیٰ سے اور ان سبھوں سے معافی دلا دو۔ اماں، اماں!!!

اللہ، اللہ !
مجھے نہیں پتہ میں کب تک زمین پر پڑا بلکتا رہا ، گریا کرتا رہا۔ گڑگڑاتا رہا. کبھی اماں کو اور کبھی اس رحیم کو پکارتا رہا۔
یا کریم ،یا کریم،
یا ستار یا مجیب۔
مجھے اذان سنائی دی غالباً عصر کی اذان تھی ۔ میں نے مدتوں بعد کانپتے ہوئے وضو کیا اس کو پکارنے کے لیے جو کہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے پکارو، مجھ سے مانگو
وہی تو ہے جو ہر بے قرار کی پکار سنتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply