خدا کی اسکیم۔۔محمد وقاص رشید

17مارچ 2007 کی شام جب میری والدہ اسے میری آغوش میں دینے کو اپنے چہرے پر ایک زندگی سے بھرپور مسکراہٹ سجائے میری طرف بڑھ رہی تھیں تو میں نے بازو یوں پھیلائے کہ جیسے خدا کے سامنے کوئی جھولی پھیلاتا ہے اور واقعی ان بازوؤں کی جھولی میں خدا نے اسے ایک عظیم عطیے کی صورت مجھے سونپ دیا۔  خدا کے کرم کا فیضان تھا،نام بھی فیضان ہی رکھ دیا ۔فیضان نے میری آغوش میں آکر اپنے وجود کی معصوم بولی میں مجھے یہ پیغام دیا کہ قدردان ہوں بابا کہ میں آپ کو باپ بنانے آیا ہوں۔ جانتے ہیں نا باپ کیا ہوتا ہے؟ ۔ تیاری مکمل ہے نا باپ بننے کی ؟

استادِ محترم غامدی صاحب کی ایک بات بہت ہی اچھی لگتی ہے کہ  اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کرنے کی جو سکیم تخلیق کی اس میں بنیادی طور پر دو اہم ترین عہدے دار شریک ہوتے ہیں ۔ ایک عہدہ ماں کا اور دوسرا باپ کا۔ ۔

ماں باپ بننا اللہ کی اس سکیم میں شمولیت اختیار کرنا ہے جو کہ یقینی طور پر ایک غیر معمولی ذمہ داری ہے۔ ایک ناتواں بچے بچی کو اپنے جسم اور روح کی تمام توانائیاں تفویض کر کے اسے اپنے پیروں پر کھڑاکرنا خدا کی تخلیقِ انسان و انسانیت کو پروان چڑھانا ہے اور ان فرائض ہی کی انجام دہی کا یہ اجر ہے کہ والد کی رضا کو اپنی رضا قرار دے دیا۔ ان دونوں پر احسان کرنے کا واضح حکم دے دیا اور تو اور جس جنت سے نکالے جانے سے لے کر دوبارہ حصول تک کے لیے اتنابڑا نظامِ کائنات مرتب کیا اسے سمیٹ کر ماں کے پیروں تلے سجا دیا ۔یہ ہے خدا کی اسکیم میں ماں باپ کا مقام ۔

ہمارے سماج میں اسکی کوئی تیاری نہیں ہوتی۔  ریاست کو چاہیے کہ خدا کی   اس اسکیم میں بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے عورت اور مرد کی ماں باپ بننے کے لیے باقاعدہ تربیت کا اہتمام ہو۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عہدہ سونپنے سے پہلے اسکی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کے لیے افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوتا ہے اور خدا کی  سکیم اور انسانیت کو پروان چڑھانے والے سماج کے سب سے دو بڑے اور بنیادی عہدوں اور ذمہ داریوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں۔  کم ازکم وہ والدین جن کے بچے خدا کی  سکیم کے شراکت دار بننے جا رہے ہیں وہ ہی اپنے بیٹے اور بیٹی کی اس ضمن میں تربیت کریں۔  انہیں بتائیں کہ ماں باپ بننا کوئی خوشگوار اتفاق نہیں بلکہ سب سے زیادہ غورو خوض اور انتہائی باریکی سے طے شدہ حکمت عملی کا متقاضی ہے اور اگر والدین خود اس امر کے عملی پیامبر رہے ہوں تو لفظی توانائیاں ایک چوتھائی خرچ کرنی پڑیں کیونکہ “عمل ،لفظ سے کہیں اونچا بولتا ہے۔ ”

مجھے یوں لگا کہ فیضان جسے میں فیض جانی کہتا ہوں نے میری تکمیل کی ہے ۔ میرے اندر کہیں چھپ کر سوئے ہوئے ایک باپ کو اس نے اپنے گلابوں جیسے ہاتھوں کی پتیوں جیسی انگلیوں سے گدگدایا ہے۔ نیند سے جگایا ہے ۔۔ یوں لگا جیسے میری جھولی ایک خشک ریگستان تھی اور اس میں رحمت کی بدلی کسی نے روئی میں لپیٹ کر رکھ دی ہو،جس کی پھوار روح میں سرائیت کرتی جائے ۔ ہاں ہاں ان دنوں روح گھائل تھی کیوں تھی یہ پھر کبھی ۔۔ مگر زخموں پر جیسے کسی نے تشفی کا پھاہا رکھ دیا۔ ۔حبس سے سینے میں دبی ہوئی سانس جیسے تازہ ہوا کے جھونکے کو محسوس کر کے انگڑائی لے،خشک ڈالی پر جیسے کوئی کونپل کھل کر اپنی خوشبو سے پورے چمن کو پیامِ بہار دے،جیسے تھکن سے چور بے سمت سی مسافت میں منزل کا آخری سنگِ میل سامنے آنے پر انسان اپنی آبلہ پائی بھول جاتا ہے ۔جیسے زندگی کو گزرنے نہیں جینے کی کوئی وجہ ہاتھ آ جائے۔

ہاں ہاں اسکے بعد وہ مجھ میں اور میں اس میں جیا۔۔ میں اسکا اور وہ میرا کھلونا بن گیا۔  اس نے مجھے میرا بچپن لوٹا دیا ۔ چھٹی کا سارا دن اسکے ساتھ گزرنے سے لے کر اسے رات لوری دے کر سلانے تک میں سائے کی طرح اسکے ساتھ تھا ۔خدا کا شکر ، ایک بات جو میں لازماً  بتانا چاہوں گا وہ یہ، ویسے بھی گھر کا ماحول ایسا تھا کہ مردوزن کا کہیں زیادہ آنا جانا نہیں تھا دوسرا ہمارے علاقے اور خصوصاً  بالکل سامنے والے گھر میں زندگی کا ایک دلخراش ترین سانحہ (جسکی روداد پھر کبھی ضرور لکھوں گا ) ہونے کی وجہ سے فیضان سوشلائز ہوا ہی نہیں۔ ۔ یعنی جس طرح بچے ادھر اُدھر گلیوں محلوں میں کھیلتے پھرتے ہیں۔  ایسا بالکل نہیں تھا، وہ گھر ہی میں کھیلتا تھا  اور باہر ہمیشہ میرے ساتھ ہی جاتا تھا ۔

پھر اسکی اسکولنگ ،لڑکپن کے شب و روز زندگی میں حسین ترین یادوں کی ایک کتاب کی مانند یاداشت کی بک شیلف پر موجود ہیں جن کی ورق گردانی سے لطف اٹھاتے رہتے ہیں ہم لوگ۔۔ ۔
خواب نگر (ملکوال ) کو خیر باد کہہ کر جب ہم یہاں اسکندرآباد منتقل ہوئے تو نصاب کی تبدیلی کی وجہ سے جب فیضان نے پانچویں جماعت کے لیے سکول میں آکسفورڈ سلیبس کا ٹیسٹ دیا تو ٹیسٹ اسکا اتنا اچھا نہ تھا ۔سکول والوں نے ہمیں کہا کہ بہتر ہے فورتھ کلاس ریپیٹ کروا لیں۔  میں نے سکول میں بات کی کہ ہم پانچویں ہی میں اسے داخل کروانا چاہتے ہیں تو سکول کی کوآرڈینیٹر نے کہا دیکھ لیجیے بعد میں پھر والدین شکوہ کرتے ہیں۔  تو میں نے ان سے کہا کامیابی ہوئی تو آپکی ناکامی ہوئی تو میری ،اگر فرمائیے تو لکھ کر دے دیتا ہوں  اور یوں فیضان کی کتاب کا ایک ایک لفظ اسکے ساتھ سارا برس بیٹھ کر پڑھنے سے لے کر اسکی پوزیشن آنے تک مجھے اور اسے اپنا چیلنج یاد تھا ۔

وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور آج صبح اس نے مجھے اپنے جسم میں ہونے والی کچھ تبدیلیوں (بال وغیرہ آنے) کے بارے میں  بڑی معصومیت سے پوچھا تو مجھے خوشی کا ایک جھٹکا لگا۔  دل ہی دل میں مَیں بہت خوش ہوا۔ ۔۔مندرجہ بالا تمہید اور جزئیات بیان کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ جان سکیں کہ اسکے اور میرے درمیان بیگانگی کی ایسی کوئی دیوار نہ تھی (اور نہ ہونے کی بنیادی وجوہات کیا تھیں)  جن سے اس معصوم کو سر ٹکرانا پڑے ۔ ایسا لکھتے اور سوچتے ہوئے لا شعوری طور پر میرا ہاتھ اپنے سر کی طرف گیا۔ میں کامیاب ہو گیا تھا الحمدللہ!

میں نے اپنے بچوں کے ساتھ بچوں سے زیادتی جیسے معاشرتی ناسور کے خلاف آگاہی مہم کے دوران بنائی جانے والی نظموں وغیرہ کی ویڈیوز کے دوران بھی انہیں انکی عمر کے مطابق یہ تعلیم و تربیت دے رکھی ہے کہ عمر کے ساتھ جسم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔

سو میں نے فیض جانی سے کہا کہ بیٹا یاد ہے ناں میں نے آپ کو اس بارے تھوڑا بہت بتا رکھا ہے۔  توبس میرے چندا، خدا کا بنایا ہوا نظام ہے ۔ آپ ماں کی گود سے نکلے،چلنا شروع ہوئے، تو آپ کے جسم میں کچھ تبدیلیاں آئیں ۔ آپ بڑے ہونا شروع ہوئے ۔ بچپن میں آپ میری انگلی پکڑ کر چلتے رہے (یہ اور بات کہ اب آپ نے ماشاللہ مجھے ہی آگے لگایا ہوا ہے، اسے ہنسانے کے لیے ۔ جس پر وہ کھل کر ہنسا۔۔اور میں چاہتا بھی یہی تھا کہ وہ ریلیکس کرے )  پھر اسکے بعد آپ  لڑکپن میں قد کاٹھ نکالنے لگے ۔ آپ کا دماغ بڑی کلاس کے مشکل سبق سمجھنے کے لئے بڑا ہوا ۔ قد لامبا ہوا۔ ۔ بھاری اسکول بیگ اٹھانے کے لیے کاندھے چوڑے چکلے اور مضبوط ہوئے۔  اسی طرح جب آپ لڑکپن سے نوجوانی میں جائیں گے تو آپکی باڈی میں مزید تبدیلیاں آئیں گی ۔کچھ بیرونی کچھ اندرونی۔ ۔ آپ سائنس پڑھنے والے بچے ہیں تو آپ کے لیے سمجھنا آسان ہے کہ جسم کے اندر مختلف ہارمونز ہوتے ہیں، جن کے اپنے اپنے علیحدہ افعال ہیں ۔تو عمر کے حساب سے ان ہارمونز میں تبدیلیاں آتی ہیں ۔ جسم کے باہر ہونے والی یہ تبدیلیاں ہی ظاہر کرتی ہیں کہ اندر ون خانہ اب تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں  اور اب آپ بڑے ہو رہے ہیں ۔ میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دوست سے شیئر کرتا رہوں گا آپ کو بتاتا رہوں گا  اور آپ کے اپنے ذہن میں بھی کوئی کسی قسم کا سوال آئے تو بالکل جھجھک کے بغیر مجھ سے پوچھیں ۔ ہم یار دوست ہیں جگری!

فرشتے آسمان پر ہوتے ہیں زمین پر انسان ہوتے ہیں جو کہ کاملیت کا دعویٰ  نہیں کر سکتے ۔ ہمارے ماں باپ بھی انسان تھے اور تھے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ جب ہم انکے زیرِ تربیت تھے ۔ ہم میں سے ہر کوئی یہ ٹھان لے کہ جو خوبیاں ہمارے والدین میں بحیثیت ماں باپ کے تھیں انہیں ہم نے مزید بہتر بنا کر اپنے بچوں کو پیش کرنا ہے اور جو خامیاں ان میں تھیں اور اگر انکا شکار ہم کسی بھی طرح ہوئے۔  ہم نے اپنے بچوں کو نہیں ہونے دینا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خداکی اسکیم میں مردو زن جب شراکت دار بن کر ماں باپ بن جاتے ہیں تو انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ اسکیم ہے کیا۔ ۔ یہ اسکیم صرف پیدا کرنے سے متعلق نہیں بلکہ انکی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی بھی ذمہ داری ہے اور بنیادی ضروریات میں سے ایک علم و شعور ہے۔  اپنے بچوں کو زندگی کے مختلف مراحل میں داخل ہونے کے لیے تیار کیجیے ، انہیں علم دیجیے کیونکہ علم ہی انسان اشرف المخلوقات ہے،اور ہم جس دین کے ماننے والے ہیں وہ کہتا ہے کہ علم والا اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔  یہی خدا کی  سکیم ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply