• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • علامہ نائینی: ایک شیعہ مرجع کا نظریۂ جمہوریت (2،آخری قسط) — حمزہ ابراہیم

علامہ نائینی: ایک شیعہ مرجع کا نظریۂ جمہوریت (2،آخری قسط) — حمزہ ابراہیم

(نوٹ: یہ مضمون پروفیسر فرشتہ نورائی کے تحقیقی مقالےThe Constitutional Ideas of a Shi’ite Mujtahid: Muhammad Husain Na’iniکا اردو ترجمہ ہے۔ حوالہ جات آن لائن نسخے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ “، طبع سوم، تہران، سنہ 1955ء کے حوالے مضمون میں شامل کئے گئے ہیں۔)

دوسری قسم کی حکومت جس کی آیت الله نائینی تائید کرتے ہیں آئینی حکومت ہے، جسے وہ محدودہ، ولایتیہ، مسوٴلہ اور شورائیہ کہتے ہیں۔ [19] [تنبیہ الامہ، ص 11 – 12] اس کی طاقت عوام کی خدمت کا عزم اور شہریوں کا اس پراعتماد ہے۔ ایسی مشروط حکومت کے بارے میں آیت الله نائینی کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں عوام براہ راست شریکِ کار ہوتے ہیں اور سماجی ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں۔ حکمران ان کی نمائندگی میں امورِ ریاست کو چلاتا ہے اور عوام کا خادم سمجھا جاتا ہے۔ [20] [تنبیہ الامہ، ص 12] ایسی حکومت ولایت اور امانت کی بنیاد پر جائز ہے اور غیبتِ امامؑ میں (میسر نظاموں میں) سب سے اچھی حکومت ہے۔ اثنا عشری شیعیت کی روح امامت کا عقیدہ ہے، یعنی صرف آئمہؑ کے اقتدار کو جائز سمجھنا کہ جو حق کی حجت ہیں۔ اس کا مطلب آئمہؑ سے مودت اور ان پر ایمان ہے جو حضرت علیؑ کی اولاد میں وارثین رسولؐ ہیں اور امت کے موروثی قائدین ہیں۔ [21] نویں صدی عیسوی میں بارہویں امامؑ کی غیبت کے بعد شیعہ علما  کی طرف سے ہر حکومت غیر اسلامی سمجھی جاتی رہی ہے، اور وہ عارضی حکومتوں کی طاقت کو شرعی جواز فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ تاہم ایسی ریاست جو انصاف، نیکی، منطق اور شفافیت پر قائم ہو کو اسلامی نہیں تو عملی مجبوری کے طور پر شیعہ مرجع قبول کر سکتا ہے۔ آیت الله نائینی کہتے ہیں: ”چونکہ غیبتِ امامؑ میں ہم عدل اور علم اور تقویٰ کے منبع سے محروم ہیں، ہمیں بحالتِ مجبوری کسی اور بندوبست کی طرف دیکھنا ہے۔“ [22] [تنبیہ الامہ، ص 56] سماجی معاہدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت اگرچہ اسلامی نہیں ہے لیکن اس میں آمریت کی نسبت کم برائی ہے۔ [23] [تنبیہ الامہ، ص 41–42] اس طرح حکومت کو امامت سے الگ کر کے اور عارضی اقتدار کا راستہ ہموار کر کے آیت الله نائینی واضح کرتے ہیں کہ سماجی معاہدے کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کرپشن اور زوال سے مکمل طور پر پاک نہیں ہو سکتی۔ چونکہ وہ معصوم نہیں ہے، لہذا ایک اچھے حکمران کے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور مکاری سے کام لینے کا احتمال بھی موجود رہے گا۔ ایسے حالات میں برائی اور اختیارات کے غلط استعمال سے بچنے کے لئے کوئی عادل رہبر ڈھونڈنے کے بجائے اچھے ادارے قائم کرنا ہوں گے۔ لہذا اب سوال یہ نہیں کہ حکمران کون ہو، بلکہ یہ ہے کہ کس طرح ایسا سیاسی ڈھانچہ بنایا جائے جو افراد کو ناجائز کام کرنے سے روکے؟ [24] [تنبیہ الامہ، ص 42]

آیت الله نائینی ایک مستقل آئین (نظام نامہ) تدوین کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں تاکہ شہریوں کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے اور آمریت کو مہار کیا جا سکے، اور وہ قانون کے تحفظ کے لئے ایک قومی مجلسِ مشاورت قائم کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔ [25] [تنبیہ الامہ، ص 15] اس اسمبلی میں مذہب کے علماء کے ساتھ ساتھ عقلاء شامل ہوں گے جو عوام کے مفادات اور آئین کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ وہ عام انتخابات کی مدد سے مقننہ میں آئیں گے۔ اگر علما  سیاسی عمل میں شریک ہوئے تو مقننہ اور اس کے فیصلوں کی مذہبی حیثیت پر کوئی شک پیدا نہیں ہو گا۔ [26] [تنبیہ الامہ، ص 15] آیت الله نائینی کہتے ہیں کہ آئینی جمہوریت حقیقت میں اسلامی فقہ سے ہم آہنگ ہے کیوں کہ شریعت میں حکومت کو عدل، مساوات اور رفاہ عامہ کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئیے۔ چنانچہ مثالی ریاست کی غیبت میں آئینی حکومت شفاف اور عادلانہ حکمرانی کے بنیادی عناصر بہم پہنچا سکتی ہے۔

وطنی آئین کے تصور کو فقہ سے ہم آہنگ کرنے کے بعد آیت الله نائینی سیاسی معاملات میں عوام کی شمولیت کو اقتدار کے ناجائز استعمال کے خلاف مزاحمت کے دینی فریضے سے جواز فراہم کرتے ہیں اور اسے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیتے ہیں۔ اول اسلئے کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے، کہ جس پر وہ اسلامی فقہ کے اصول امر بالمعروف و نہی عن منکر کا اطلاق کرتے ہیں۔ [27] [تنبیہ الامہ، ص 49] اگر کوئی حکمران اختیارات کا غلط استعمال کر رہا ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اسے غلط کام کرنے سے روکیں اور اسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور کریں۔ اس کام کو مؤثر طور پر انجام دینے کا طریقہ ایک آئین تیار کر کے ایک قومی مجلس قانون ساز قائم کرنا ہے۔ [28] [تنبیہ الامہ، ص 50] دوم یہ کہ امامؑ کی غیبت میں مرجع، جو عوام کی نسبت زیادہ عالم اور پرہیز گار ہو، امورِ حسبیہ کا انتظام کرنے کا ذمہ دار ہے، جیسے اوقاف (کمیونٹی ویلفیئر) اور کم سن یتیم کی جائیداد کو سنبھالنا وغیرہ۔ چونکہ عوام کی بہبود، سماجی مفادات اور اخلاقی نظم اپنی اصل میں ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں، آیت الله نائینی کہتے ہیں کہ مرجع کو عوام کی قیادت کر کے سیاسی عمل میں مداخلت کرنی چاہئیے۔ [29] [تنبیہ الامہ، ص 51–52] سوم یہ کہ اگرچہ حکومت غصب شدہ ہے اور حاکم غاصب ہے، ایسا طریقہ وضع کیا جانا چاہ یے جس سے ریاست کے اختیارات محدود کئے جا سکیں۔ ایک مقننہ کا قیام اور علماء کی نگرانی حکومت کے استبداد میں کمی لا کراسے آئین کا پابند بنا سکتی ہے۔ [30] [تنبیہ الامہ، ص 57] ایسے میں حکمران ملک کے عاقل اور تعلیم یافتہ افراد کی مشاورت کے بغیر فیصلے نہیں کرے گا اور تمام اہم معاملات میں ان کا مشورہ قبول کرنے کا پابند ہو گا۔ [31] [تنبیہ الامہ، ص 53]

آئینی جمہوریت کا قیام تبھی ممکن ہے جب عوام اپنے حقوق اور آزادیوں سے آگاہ ہوں۔ ”فردی آزادی ہی قومی وجود کا مبداء ہے“ اور استبداد اس کا دشمن ہے۔ ”تاریخ میں ہمیشہ سب انقلابات، چاہے مسیحی دنیا میں ہوں یا غیر مسیحی دنیا میں، کا مقصد فردی آزادیوں کا حصول اور ظلم کے راج کا خاتمہ رہا ہے۔“ [32] [تنبیہ الامہ، ص 65] استبداد کی دست درازی سے شہریوں کے مفادات، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، کو بچانے کیلئے قانون کی نظر میں سب کا برابر ہونا ضروری ہے۔ فقہ کے دائرے میں ایک مسلمان اپنی ذات پر مکمل حق رکھتا ہے، جس میں قانون کی نظر میں مساوات اور جائیداد کی ملکیت کا حق بھی شامل ہے۔ تاہم آیت الله کے ہاں حقوق کا تصور ”فطری حقوق“ کے جدید مفہوم کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ ”آئینی حقوق“ کے معنوں میں تھا۔ وہ افراد جو مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوں اور اپنے مذہبی فرائض انجام دیتے ہوں، برابری کی بنیاد پر نوازے جانے تھے۔چنانچہ امیر ہوں یا غریب، خاص ہوں یا عام، سب کو شریعتِ محمدیہؐ کی رو سے برابر سمجھا جانا تھا۔ آیت الله نائینی اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ قانون کی نظر میں مساوی قرار پانے کا مقصد مسلم اور غیر مسلم عوام کو حکومت کی زیادتیوں سے بچانا ہے۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ مساوات کے اس تصور کا مطلب شریعت میں دئیے گئے خاص امتیازات کو ختم کرنا نہیں ہے۔ غیر مسلم ذمی قرار پائیں گے اور وراثت، نکاح، جرائم کی سزا اور جزیہ جیسے موضوعات پر شرعی احکام کا اطلاق ہو گا۔ [33] آیت الله نائینی کی توجیہ کے باوجود فقہ اور سیکولر آئین میں یہ تضاد اپنی جگہ باقی رہا اور آئینی تحریک کے ابتدائی سالوں میں ایران کی قومی اسمبلی کے مذہبی اور سیکولر ارکان میں بحث و تنازعہ کا سبب بنا رہا۔

تاہم قومی اسمبلی اور اس کے فرائض کے بارے میں آیت الله نائینی کے استدلال کا کمال دنیاوی اور مذہبی امور کے اداروں کو الگ الگ کرنا ہے۔ سیاسی نوعیت کے معاملات قومی اسمبلی کے سپرد کئے گئے ہیں۔ ارکان اسمبلی کو حکومت کے مختلف محکموں کی نگرانی کرنا، بجٹ بنانا، تجارتی معاملات میں اصلاح کرنا اور طاقت کے غلط استعمال کو ختم کرنا چاہئیے۔ [34] [تنبیہ الامہ، ص 90] وہ واضح کرتے ہیں کہ اسمبلی کا کام سیاسی امور کو سنبھالنا ہے اور مذہبی ذمہ داریاں، جیسے نمازِ جماعت کا قیام یا فتویٰ جاری کرنا، اسمبلی کا کام نہیں ہے۔ [35] [تنبیہ الامہ، ص89]

خاتمہ میں آیت الله نائینی استبداد کی ماہیت پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس سے مقابلے کے طریقوں پر بحث کرتے ہیں۔ وہ ظلم و جور کو سماج کی تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک استبداد کا ایک اہم ستون مذہبی شدت ہے۔ ایسے جعلی مقدس لوگ جو علمی تنقید کرنے کے بجائے عوام کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں اور شہریوں کے اعتماد کا غلط استعمال کرتے ہوئے خوف اور ڈر کی فضا قائم کر کے حکومت کے ظلم میں حصہ ڈالتے ہیں۔ مذہبی طبقے کی منافقت اور کٹر پن عوام کو جہالت میں پھنسائے رکھتا ہے۔ آیت الله نائینی تاکید کرتے ہیں کہ مذہبی اور سیاسی غنڈہ گردی میں تعلق نے مسلمانوں کو جامد پسماندگی کی دلدل میں دفن کر دیا ہے اور اس بدبختی میں مبتلا کر دیا ہے جس کے وہ آج شکار ہیں۔ [36] [تنبیہ الامہ، ص 108–109] ایک شخص کو سب اختیارات دے دینے کی روایت اور فردِ واحد کی حکمرانی بھی استبداد کے اسباب میں سے ہے۔ ایک آمر جس کا اقتدار اپنی اصل میں مطلق ہو، لامحالہ عوام کو ملنے والے کسی اختیار یا آزادی کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھے گا۔ [37] [تنبیہ الامہ، ص 109] خاتمہ میں آیت الله نائینی عوام کی جہالت، جس نے انہیں اپنے حقوق سے بے خبر رکھا ہے، کو جبر اور استبداد کے تسلسل کا سبب قرار دیتے ہیں۔ [38] [تنبیہ الامہ، ص105–107] نائینی صاحب کہتے ہیں کہ استبداد، چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، ظلم کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ وہ 1908ء میں ہونے والے سانحے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں مخالفین نے مذہبی کٹر پن کا سہارا لے کر قومی اسمبلی کو تباہ کیا۔ [39] [تنبیہ الامہ، ص 119] ریاست کے جبر کا واحد حل عوام کو ان کے شہری حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور شہری ذمہ داریاں نبھانے کیلئے ان کو تعلیم دینا ہے۔ پارلیمنٹ کا قیام اور آئین کی تدوین حقوق و فرائض پر عملدرآمد کرنے میں عوام کی مدد کرتے ہیں۔ [40] [تنبیہ الامہ، ص 63–64]

تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ روایتی استبداد کے مقابلے میں جدت پسند علما  کے کردار کی ایک اچھی مثال ہے۔ اس پر جدید مغربی تصورات کا اثر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب جدید قومی ریاست کے بارے میں مذہبی طبقے کی ترقی پسندانہ سوچ کی عکاسی بھی کرتی ہے، اور کلی طور پر تحریکِ جمہوریت کے دوران سامنے آنے والی اپنی نوعیت کی نہایت توانا اور محکم توضیح ہے۔ مزید یہ کہ اس کی اہمیت اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ پہلی چھاپ کے بعد سے آیت الله نائینی کی یہ کتاب (اہل تشیع کے) ترقی پسند مذہبی حلقوں میں آئینی جمہوریت اور حکمران اور عوام کے حقوق کے بیان کیلئے بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخوند خراسانی اور ایران کی تحریکَ جمہوریت (1906ء تا 1911ء)، قسط اوّل

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply