مُکالمہ، پروفیسر اور ریٹنگ۔ انعام رانا

مُکالمہ کانفرنس لاہور اختتام کو پہنچی تو پروفیسر نے مجھے کہا”ذرا ویہلے ہو کے ملو مینو” اور مجھے اندازہ ہو گیا کہ میری خیر نہیں۔ اتنی عزت سے بلانے کا مطلب تھا کہ طوفان سے پہلے خاموشی کا سماں ہے۔ دو دن بعد اک اڈے پر ملاقات ہوئی تو پروفیسر کے ہاتھ میں مُکالمہ میگزین تھا۔ چھوٹتے ہی بولا اوئے۔۔۔۔ دیا، ایہہ  کی اے؟ میں نے کہا جی مُکالمہ میگزین ہے جسے بطور سالنامہ شائع کیا ہے۔ بولا “جی مینو بھی پتہ ہے انعام دہلوی صاحب، پر ایہہ  کی جموں راں کیتے نیں؟” (لاہور میں جامن فروش اک مٹکی میں جامن اور نمک ڈال کر ان کو زور سے ہلاتا ہے، اسے جموں را کرنا کہتے ہیں، مطلب کہ مختلف چیزوں کو باہم شیر و شکر کر دینا)۔ مجھے معلوم ہے کہ جب پروفیسر بھڑک اٹھے تو پانی بننے کا مطلب  آگ بجھانے سے زیادہ خود ابلنا ہے سو گرم مُکالمہ ہی بہتر ہو گا۔ سو عرض کی کہ توانو کیہہ  چبھیا ہے؟ بولا کہ یہ مارکس ، مودودی، طفیل ہاشمی اور شاداب مرتضی اک ہی مٹکے میں ڈال کر تو کرنا کیا چاہتا ہے؟ “ہمارا” اور ان کا کیا ساتھ ہو سکتا ہے؟

گراونڈ اب میری تھی اور بال لوز ،سو میں نے بھی سگریٹ سلگایا اور پہلی شاٹ کھیلی۔ اس سے مسلئہ کیا ہے؟ پروفیسر تڑپا، اوئے تینو مولوی نال کوئی مسلئہ نہیں؟ نہیں، میں نے مرغولہ چھوڑا، مولوی میرے نزدیک طبقاتی نظام میں پسے ہوئے گروہ کا حصہ ہے اور باقی محنت کش طبقات کی طرح استحصال کا شکار۔ پروفیسر نے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی پتھر نہیں تھا ،سو گالی مارنے پر اتفاق کیا اور چنگھاڑا “اوئے ۔۔۔۔۔ ، ایہہ کیہڑے مارکس کولوں تعریف سنی اے؟

عرض کی مارکس کو مرے عرصہ ہوا، ویسے بھی میں لوکل مسائل کو لوکل دانش سے حل کرنے میں زیادہ یقین رکھتا ہوں۔ مگر یہ بتائیے کہ اگر مُکالمہ میگزین، سائیٹ یا کانفرنس میں مولوی، لبرل اور سوشلسٹ اکٹھے ہوئے تو اس میں مسلئہ کیا ہے؟ اچھا ہے کہ ہم باہمی مسائل کا حل مل جل کر نکالیں۔ جب پروفیسر نے دیکھا کہ میں ڈھیٹ پن پر اترا ہوں تو لمبی سی ہوں ں ں کی اور گھورتے ہوا پوچھا، تو کرنا کیہ چاہندا ایں؟

عرض کی کہ استاد، ستر سال ہو گئے اس ملک کے مختلف طبقوں کو اک دوجے سے کھچے ہوئے، نفرت کرتے ہوئے۔ اس تقسیم کا فائدہ کیا ہوا؟ ستر برس میں آپ نے سماج کے اک بڑے پسے ہوئے حصے کو اپنا پیغام ہی نہیں دیا کہ وہ مارکس پر ایمان نہیں لائے۔ اور اس بڑے حصے نے ہمیں نزدیک نہ  آنے دیا کہ ناپاک نہ  ہو جائیں۔ انجام کہ تقسیم نے اس مفاد پرسٹ ٹولے کو مضبوط تر کر دیا جس کے استحصال کا شکار ہم سب ہیں۔ تو بس ارادہ فقط یہ ہے کہ مُکالمہ کو ایک پل بنا کر دونوں طرف کے لوگوں کو اس پل پر اک دوجے کو ملنے، سمجھنے کا موقع دوں تاکہ استحصال کے خلاف مشترکہ جدوجہد وجود میں آئے۔ پروفیسر کو یقین تھا کہ یہ دیوانگی ہے اور ناکامی مقدر۔ میں نے کہا مہاراج پہلے کون سا انقلاب دروازے پہ کھڑا ہے، جہاں آ پ کی نسل کے تجربات ناکام ہوئے، چلیے کچھ نیا ہی سہی۔

پروفیسر یوں یاد آیا کہ اک عزیز دوست اکثر انباکس آ کر مُکالمہ کی ریٹنگ پر پریشانی کا اظہار کرتے تھے۔ اک دن عرض کی کہ حضرت ریٹنگ تو اس بازار میں ہوتی ہے اور میں نے مُکالمہ کھولا ہے کوٹھا نہیں۔ دو دن سے کچھ اور دوستوں نے بھی چھیڑا۔ صاحبو، سال سے زیادہ ہوتا ہے کہ اپنی جیب سے مُکالمہ چلا رہا ہوں، ہر ماہ چند سو پاؤنڈ جو جیب سے نکلتے ہیں، ان کا مقصد ریٹنگ لینا نہیں بلکہ کچھ دینا ہے۔ مقصد وہی ہے جو اوپر پروفیسر سے بیان کیا اور جب آپ کسی مقصد کو لے کر کوئی کام کرتے ہیں تو نوائے وقت آپ کے اوپر ہے یا آپ کے نیچے، یہ بات ثانوی ہو جاتی ہے بلکہ بقول منٹو اوپر نیچے درمیان ہو جاتی ہے۔

کئی بار عرض کر چکا کہ پاکستان میں سائیٹس ایک ایسا عوامی فورم ہیں جو سیٹھ اور سرکار کی مناپلی سے آزاد ہیں۔ مین سٹریم پرنٹ میڈیا اور پھر چینلز کی بھرمار نے صحافت کو کمرشلزم، ریٹنگ اور ہیجان کے سوا کیا دیا؟ کتنے عوامی مسائل ہیں جن کے لیے یہ مین سٹریم میڈیا اک موثر آواز بنا؟ یہ کبھی سیٹھ کے ہاتھ بک گیا تو کبھی سرکار سے دب گیا۔ عوام اس کے لیے فقط سرکولیشن یا ٹی آر پی تھے، جن کی بنیاد پر یہ اپنی اچھی قیمت لگواتا تھا۔ ایسے میں سوشل میڈیا عوامی فورم بن کر ابھرا اور اتنا طاقتور ہوا کہ مین سٹریم میڈیا تک کو اس کی بات سننی پڑی۔ لیکن کیا یہ سب آسانی سے برداشت کر لیا جاتا؟ کیا سٹیک ہولڈرز عوام کو متحد اور باآواز برداشت کر لیتے؟

Advertisements
julia rana solicitors

سوا سال قبل سیک سیمینار لاہور میں مَیں نے عرض کی تھی کہ جن کے خلاف یہ عوامی بیانیہ اور پلیٹ فارم بنایا گیا ہے، وہ میدان میں اتریں گے اور اس پر قبضے کی کوشش بھی ہو گی۔ وقت نے میرا خدشہ درست ثابت کیا۔ آج ننگی تصاویر، ہیجان انگیز خبریں، لائکس، سکینڈل انٹرویو لگا کر پھر سے عوام کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹا کر کہتے ہیں، گل و بلبل کی بات کرو، فگر ماپو، ہم کو لائک کرو، ہماری ریٹنگ دیکھو۔  مجھے کسی کے کمرشل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر پھر کم از کم کمرشل پراجیکٹ ہی رہیے، عوامی بیانیے بنانے یا عوامی نمائندگی کا دعوی نا کیجئیے۔ اس نوجوان نسل نے بڑی مشکل سے ایک آزاد فضا بنائی ہے جس میں وہ ہر استحصال کے خلاف آواز بلند کرے، قریب آئے اور مسائل پر اپنا بیانیہ خود ترتیب دے۔ اس فضا کو کمرشلزم کی گیس سے آلودہ نہ  کیجئیے۔ ریٹنگ اور پیسے کمانا آپ کا حق ہے، مگر ریٹنگ کے نام پر اس میڈیم کا بھی وہی حال نہ  کیجئیے جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ہوا۔ ورنہ باقی میڈیا کی مانند اگر عوام  اس پلیٹ فارم سے بھی بددل ہوئی تو تاریکیاں  نگل جائیں گی، ہم سب کو۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”مُکالمہ، پروفیسر اور ریٹنگ۔ انعام رانا

  1. متفق برادرم۔ ننگی تصویریں اپنی لذت کے لیے نہیں لگائی جاتیں بلکہ لگوانے کے لیے سپانسرز موجود ہیں۔۔۔باقی مدیروں کو یہ ادراک ہوا ہے کہ ہم سب تحریروں کی وجہ سے نہیں بلکہ ننگی تصویروں کی وجہ سے ریٹنگ بڑھائی گئی ہے۔۔

  2. اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرا تو حال اس نوجوان جیسا ہے جس کی دو محبوبائیں آپس میں لڑ پڑی ہوں۔
    اب فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کی بات پر صاد کروں۔ دونوں محبوباؤں کے اپنے انداز ہیں۔ اپنے نخرے ہیں۔ ناز دونوں کے اٹھانے ہیں۔ دونوں کو وقت دینا ہے۔
    سنا ہے دو کشتیوں کا سوار آخر ڈوب جاتا ہے۔ دو محبوباؤں کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے، بتایئے !

  3. آپ کا کالم یا مضمون براہ راست ہمارے مشترکہ پروفیسر دوست پر ناجائز پھبتی ہے۔ ’’پروفیسر تڑپا‘‘ جیسے الفاظ کی مدد سے آپ نے اپنے خیال میں یہ لڑائی (اگر یہ لڑائی تھی) جیت لی یا جیت لینے کا دکھاوا کیا۔
    بہت جلد آپ مرحوم جمیل عمر کے ہم نوا بن جائیں گے جو اواخر عمر میں مزاروں پر جانے والے معتقدین اور گدی نشینوں کو بھی ’’ساتھ‘‘ ملا کر انقلاب کی باتیں کیا کرتے تھے۔
    ہم راسخ العقیدہ یا پوسٹ ماڈرن ازم زدہ سوشلسٹوں یا ترقی پسندوں کے پاس ایک رسالہ جاری کرنے کے علاوہ نہ پہلے کوئی کام تھا اور نہ اب ہے۔ اور اب تو اس رسالے میں سے کاغذ بھی منہا ہو گیا ہے۔

Leave a Reply