دو ویکسین انجکشنز کے بیچ۔۔ناصر خان ناصر

ہمارے شہر میں طوفان آئیڈا نے اتنی تباہی مچائی  ہے کہ ہر سمت ٹوٹے ہوئے در و دیوار اور ٹوٹے دل ہی دکھائی  دیتے ہیں۔
ٹوٹی چھتوں، گرتے دیوار و بام کی مرمت کروانے کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں اور مرمت کرنے والے راج، مزدور، ترکھان، مستری، پلمبر، الیکٹریشنز کا گویا مہا کال سا پڑ گیا ہے۔ خدا خدا کر کے مزدور طبقہ منت سماجت کیے کہیں سے مل بھی جائے تو چھتوں کی مطلوبہ رنگت کی شنگلز اور دیگر تعمیراتی سامان نہیں ملتا۔
اتنی بدحواسی، دیوانگی، افراتفری اور بھونچال کی سی کیفیت ہم نے اِس سے قبل اپنے اس شہر میں جو “City that care forgot” کہلاتا ہے، پہلے کبھی دیکھی نہ سنی۔
سیانے کہتے ہیں
“بھوک گئے بھوجن ملے، جاڑا گئے قبا
جوانی گئے،تریا ملی، تینوں ان سبھا”

پہلے اس عالمی وبا کے ہاتھوں زندگی عاجز تھی۔کئی  برس سے ملک تو ملک، شہر سے باہر قدم رکھنا بھی گویا حرام تھا۔ گھر سے سر منہ ڈھانپے، ڈھاڈا گھانٹے، عینک ماسک لگانے، دستانے پہنے ہم گویا یوں نکلتے تھے جیسے کسی بینک میں ڈاکہ ڈالنے جاتے ہوں۔ کسی سے ہاتھ ملانے کی تو کیا،انگلیوں سے چھونے تک کی مناہی تھی، خُود جُورو و خصم آپس میں بغلگیر ہونا بھول گئے تھے۔
زبانِ غیر سے کیا شرع آرزو کرتے،
معاشرے کی ساری موج مستی، راگ رنگ پر طرح بہ طرح کی قدغن لگ چکی تھی۔
بھول گئے ناچ رنگ، بھول گئی  جکڑی
تین چیز یاد رہی، نون، تیل، لکڑی
پھر خدا خدا کر کے وائرس کا توڑ کسی ویکسین کی صورت میں دستیاب ہوا تو پبلک کی  دوڑیں لگ گئیں۔

ہم نے امریکہ میں ایسی افراتفری، بھاگ دوڑ، بدنظمی اور بد حواسی اس سے قبل کبھی نہ دیکھی تھی۔ لوگ جان پر کھیل کر، قطاریں توڑ کر انجکشن لگوانے میں یوں بدمست ہوئے کہ ہمیں نوجوانی میں پاکستانی فلموں کے کھڑکی توڑ ڈانمنڈ جوبلی مناتے سینما گھر یاد آ گئے۔
چلتی چاکی دیکھ کے دیا کبیرا رو
دو پاٹن کے بیچ میں ثابت گیا نہ کو

دو شاٹس وقفے کے ساتھ لگے تو دو گھڑی چین آیا،مگر پھر دل کو پنکھے لگ گئے۔ نئی  آفت یوں آن پڑی کہ وائرس کے نت نئے روپ بدلتے بہروپ جگہ بہ جگہ اپنی رونمائی  کرانے پر تل گئے۔ ہر آنے والا سٹرینڈ پچھلے وائرس سے زیادہ مہلک بتایا جاتا۔
اس سے قبل نوکریاں چاکریاں اُون لائن میں تبدیل ہو چکی تھیں اور اس کی بدولت معاشرے میں سماجی بھونچال آ چکا تھا۔ کم عمر بچوں کو گھر بار سنبھالنے پڑ گئے تھے۔

ازلی تنہائیوں کے روگ نے ہر سمت اپنے پنجے گاڑ کر ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں کس لیا تھا۔ موت کا بھیروں گلی گلی جھاڑو دیتا چلا گیا تھا۔ ڈومرو بجاتے شو دیوتا کی تیسری آنکھ جاگ اٹھی تھی اور وہ تیزی سے ناچتا، لاشوں پر رقص کرتا دنیا کے خاتمے کا اعلان کرنے لگ پڑا تھا۔ مکہ مدینہ میں تالے لگ گئے تھے۔
پیرس روم اور نیویارک کی سڑکوں پر لاشیں سڑنے لگیں تھیں۔ امریکہ کے تمام بڑے شہروں کے سارے اسپتالوں میں کوئ بستر خالی نہ رہا تھا۔ عالمی سطح پر مصنوعی تنفس کی مشینیں کم پڑ گئیں تھیں۔
ساؤتھ امریکہ میں لوگ سڑکوں پر مردے پھینکنے اور جلانے لگے تھے۔
تن پتلا خاک کا، اسے دیکھ مت بھول
ایک دن ایسا ہوئے گا، ملے دھول میں دھول

اجتماعی دکھ کی شدت سے ہر زی روح کے سینے پھٹنے لگے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا کی بدولت سکڑتی ہوئی  دنیا کے کونے کونے سے موت کے مناظر ہر جگہ دیکھنا ممکن تھا۔ اکِ بے حسی، سنگدلی اور خود غرضی کی چادر سی ہر طرف تن چکی تھی۔ اس میں اور دل میں خونچگاں شگاف صرف تبھی پڑ جاتا جب کوئی  اپنا ناگہانی داغِ مفارقت دے کر جہاںِ فانی سے رخصت ہو جاتا۔
یہ ہمارا آپ ہی کا نہیں، ہر حساس ذی روح کا تازہ ترین مسئلہ  ہے۔ عالمی وبا، کساد بازاری اور اپنے پرائے دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں کو آنکھوں کے سامنے یوں مرتے ہوئے دیکھنا کہ جگہ بہ جگہ کشتے کے پشتے لگ رہے ہوں، ایک نہایت ہی دلخراش اور بھیانک تجربہ ہے۔ یہ ایک ایسا عجب حادثہ ہے جو دنیا بھر میں ہر جگہ دم سادھ کر دیکھا جا رہا ہے۔
سائیں اپنے چت کی بھول نہ کہیے کوئے
تب لگ من میں راکھیے جب لگ کارج ہوئے
پتھر پڑا دل اگر پتھر نہ ہو تو آنکھیں پتھرا نہ جائیں؟ سانس لینا اور جینا محال نہ ہو؟
ہم سب انسانوں کے من پر بھاری بوجھ آن پڑا ہے اور یہ اجتماعی خاموشی ایک بہت بڑا عالمی عذاب بننے جا رہی ہے۔
انسانوں کا تمدن، اخلاق، رہن سہن، سائیکی اور سوشل زندگی اتنے بدل گئے ہیں کہ ایک انجانا سا خوف ہر ہردے میں سما چکا ہے۔

نئی  نسل جو اس تنہائی  کے عذاب سے نکل کر جوان ہو رہی ہے، بغیر کسی کونسلنگ یا سوشل و سائیکلوجیکل  مدد کے نارمل نہیں رہ سکتی۔ ہم اپنے اردگرد بے شمار سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بچوں کے ایبنارمل روئیے دیکھ کر پریشان ہیں کہ اب شاید ابنارمل ہونا ہی نارم بن چکا ہے۔

پوری دنیا میں علم و ادب، ہنر و فن، موسیقی و مصوری، ڈرامہ فلم و سنگیت، سیاست سمیت ہر میدان میں نامور مشہور ہستیاں دیکھتے ہی دیکھتے یوں چٹ پٹ ہوئی  ہیں کہ ان کا سوگ منایا ہی نہیں جا سکتا۔
ایوان اردو ادب کے اتنے بڑے بڑے ستون دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں، منوں مٹی میں سما گئے ہیں کہ دل شدتِ غم سے پھٹنے لگتا ہے۔
پلک جھپکتے اتنے پیارے پیارے لوگ جدا ہو گئے ہیں کہ اب سکتہ سا بھی نہ طاری ہو تو حیرت ہو۔
ہمارا اپنا یہی حال ہے کہ عرصے سے بس نثر پر بسر ہے، شاعری کو ہم نے اور شاعری نے ہمیں ترک کر رکھا ہے۔
دل نے دکھی ہو کر سب در و دیوار بند کر رکھے ہیں، تخلیقی چشمے کہاں سے پھوٹیں کہ چشم تر خشک ہی نہیں ہوتی۔
خدا ہم سب پر اپنا رحم و کرم قائم رکھے۔ ہماری آرزو اور دعا ہے کہ خدا کرے اب کوئی  بیمار نہ ہو۔۔۔ کسی پر ہسپتال جانے کی نوبت نہ آئے کیونکہ آنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کی کھیپ بھی نہ صرف اُون لائن تیار ہوئی  ہے، بلکہ جذبات سے عاری بھی ہے۔
اب دو ویکسین انجکشنز کے بعد اسی وائرس کی نئی  قسم ڈیلٹا کا دور دورہ ہے۔ اس کے بوسٹر شارٹس لگنا شروع ہو گئے ہیں۔ شنیدن ہے کہ ایسی نت نئی  وائرس ویری ایشنز اور ان کے لیے لگوائے نئے بوسٹر شاٹس کا ان منختم سلسلہ 2030 تک چلتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکن بڑی سیانی قوم ہیں۔ ویکسن شاٹس کا جو کارڈ عوام کو ریکارڈ رکھنے کے لیے دیے جا رہے ہیں، ان پر مزید اندراجات کے لیے بے شمار سطور خالی رکھ کر گنجائش چھوڑی گئی  ہے۔
دنیا بھر میں پھیلی مہنگائی  بھوک اور اذیت کے عذاب بالکل عالمگیر ہیں اور سچ پوچھیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ان عالمی وباوں کو دنیا کی آبادی کم کرنے اور عام انسانوں کے ساتھ ساتھ غریب ممالک کے وسائل کو مکمل کنٹرول کرنے کے لیے ہی ایجاد کیا گیا ہے۔
رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply