مولانا کی بزلہ سنجی۔۔رشید یوسفزئی

مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے اختلاف ممکن ہے، لیکن فنِ  گفتگو، آرائشِ  مجلس، حس ِ ظرافت، بذلہ سنجی، منطقیت، اور حاضر جوابی میں ان کی  ٹکر کی شخصیت آج تک نہیں دیکھی، اور اس سے اختلاف مشکل ہے۔

مئی 2004  میں ان کو سیرت النبی اور اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے خانہ فرہنگ ایران پشاور میں منعقد کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی دعوت دی گئی ۔ یہ حقیر فقیر پر از تقصیر سٹیج کا منتظم تھا۔ مولانا سے قبل عبداللہ صاحب  چیئرمین پبلک سروس کمیشن، قاری روح اللہ مدنی مشرف چیف ایگزیکٹو دور کے صوبائی وزیر اوقاف مذہبی امور اور سنیٹر علامہ جواد ہادی کی  تقاریر تھیں ۔ سینئر بیوروکریٹ، سابق چیف سیکرٹری اور اس وقت کے چیئرمین پبلک سروس کمیشن عبداللہ صاحب نے اپنی  تقریر میں برسبیل تذکرہ کہا کہ ‘مولوی، مُلا، مولانا” کے الفاظ بڑے محترم ہیں اور ان کے معنی ہیں  “ہمارے آقا، ہمارے سردار یا ہمارے مالک ۔

نیچے سامعین میں اے این پی کے سینیٹر حاجی عدیل بیٹھے تھے۔ انہوں  نے عبداللہ صاحب کی تقریر کاٹتے ہوئے کہا کہ “مُلا مولانا ہمارے روایتی پیشہ ورانہ الفاظ ہیں۔ اور برصغیر میں ان کے وہ معنی نہیں جو عربی زبان و ثقافت میں ہیں۔”

خود حاجی عدیل کے والد حکیم جلیل تین چوتھائی مُلا تھے مگر لوگوں نے حاجی عدیل کے الفاظ کو اے این پی کی روایتی مولوی مخالفت اور منفی معنی میں لیا۔ حاجی عدیل خوبصورت شخصیت اور حسین صورت و سیرت کے مالک تھے اور ان کا اعتراض محض لسانی تھا۔ مگر اکثر سامعین متجسس تھے کہ مولانا کیا ردِعمل دیں گے۔

مولانا کا یہ کمال ہے کہ بڑے بڑے متکبر سامنے آئیں تو چشم ِ زدن میں یا اغماض یا دو چار تیز دھار الفاظ سے انکو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ مولانا کا جواب اور عدم التفات دونوں غضب کے ہوتے ہیں۔ اور ہنسی و مسکراہٹ تو قیامت ڈھاتی ہے۔ وزرائے اعظم، جنرلز، بیوروکریٹس کو مولانا کے سامنے خوار و زار اور گربہ مسکین بنتے دیکھا۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل احسن سلیم حیات اور دیگر مواقع پر یوسف رضا گیلانی، درجنوں وزیر، سابق آئی جیز اور صحافیوں کو مولانا کے ایک دو جملوں سے گھائل و خجل   خوار اپنی  نازک انا کے زخم چاٹتے ہوئے مشاہدہ کیا۔ ۔ اور یہ مزاحیہ نکات پھر کبھی۔

مولانا نے حاجی عدیل کو لفٹ ہی نہیں کرائی ۔ میں نے بطور مُلا، مُلازادہ اور سٹیج سیکرٹری از راہ تفنن و شرارت کوشش کی کہ مولانا کا ذہن اس طرف متوجہ کروں۔۔مگر  ناکام رہا!

بطور مہمان خصوصی مولانا کی  تقریر آخر میں تھی ۔ سیرت نبوی ﷺ   سے امریکہ ایران، عراق کے حالات اور اسلامی دنیا کے اختلافات پر آئے۔۔  ایک جگہ برسبیل تذکرہ کہنے لگے:
“صدر بش اگر آج بھی کلمہ کہے۔  ۔تو اگر چہ کلمہ کہنے تک وہ ہمارا دشمن ہے۔ ہماری جان کا دشمن ہے، ہمارے خون کا دشمن ہے، لیکن اگر صدر بش آج بھی کلمہ کہے تو اسی لمحے اسکی جان ہماری جان ہوگی، اسکا خون ہمارا خون ہوگا، اسکا درد دکھ ہمارا دکھ درد ہوگا۔ ۔ لیکن۔۔  لیکن کلمہ پڑھنے سے وہ پشتون نہیں بن سکتا  ۔۔یہی فرق ہے مُلا کی  ذہنیت، نظریے، مذہب، ملت اور نیشنلزم میں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

پورا ہال سمجھ گیا۔۔  پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھا!
حاجی عدیل کو  جواب  مل چکا تھا۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply