• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ : ہفتم):ڈاکٹر محمد علی جنید

افغانستان طالبان اور عالمی سیاست (حصّہ : ہفتم):ڈاکٹر محمد علی جنید

غلط تقابلہ قلیل الفہم حکمران:

اسکو لگا کہ جس طرح اتا ترک اور پہلوی کی یورپ میں دھوم مچی پڑی ہے ،اور انکی عوام جس طرح انکےاحکامات کی بجا آوری کرتی ہے میری قوم بھی ویسا ہی کریگی انکی رو سے یورپیت   ،مغربیت و ترقی صرف بیرونی لباس ،ناچ گانے،اور تعلیمی اداروں تک محدود تھی،انکا ترقی و علم کا نظریہ ناقص و غیر کامل تھا،وہ اس ضمن سرمایہ داریت ،جمہوریت،اور علم سیاسیات کی جدید سیاسی روح سے قطعاً غیر ناواقف تھے،ان کو ایران کے دارالخلافہ سےزائد معاشرت کی بابت نہ  کچھ خاص پتا تھا اور نہ  تجربہ تھا۔چنانچہ  انہی  دیہی ایرانی علاقوں اور انکے دارالخلافہ میں رہاش پذیر مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں نے انقلاب ایران ۱۹۷۹ کے لئے افرادی قوت فراہم کی تھی۔

جبکہ دوسری طرف کابل کے   علاوہ نیم خام شہری تمدن کل افغانستان میں   نہ  ہونے کے برابر تھا،جلال آباد بھی  ایک خام قسم کا شہر   ہوا کرتا تھا ،چنانچہ  جدیدیت کے لئے مطلوب پس منظر کی عدم موجودگی،اور افغان معاشرت و ثقافت پر یکمشت حملہ انکے لئے تباہ کن  ثابت ہوا ،بتانے والے بیان کرتے ہیں کہ اتاترک نے انھیں تدریج ِاحکام  یا  گریجول چینج کا حکم دیا تھا،یکمشت فوری تبدیلی کا منظر نامہ تخلیق کرنے سے باز رکھنے کی ہدایت کی تھی،خود اتا ترک کے ترکی نے ستر سال بعد گُل اور ارد گان کی قیادت میں ترکی سیکولرازم اور لادینیت کو رد کرکے  مسلم سیاست کا چلن ڈالا اگر چہ انکی عصری  معاشرت پر ابھی  بھی  ثقافتی  طور اتا ترک  غالب ہے ،مگر اتنا طے تھا کہ لاشعور میں پنہاں سوئی ہوئی قدامت و اسلاف پرستی چھ سات دہایوں بعد پھر خوابیدہ ہوکر پس منظر پر آنے میں مگن ہے۔

عزیز ہندی نے امان اللہ کو کیسا پایا:

عزیز ہندی جو امان اللہ کے دور میں افغانستان میں رہ چکے تھے اور ہندوستان واپسی پر انہیں برطانوی حکومت نے گرفتار کرلیا تھا ،انہوں نے امیر امان اللہ کی بابت دور قید و صعوبت میں ایک کتاب تحریر کی ہے،جسکی بابت ہم  بطور قاری  بنیادی طور پر کچھ خاص نہیں جانتے ہیں، ہاں انسائیکلو پیڈیا ،وکی پیڈیا میں جو کچھ ہم نے پڑھا ہے وہ ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

یہ کتاب زوال ِ امان اللہ کے نام سے موسوم ہے جو ۱۹۳۳ میں ثناء  برقی پریس امرتسر سے شائع ہوئی تھی،یہ کتاب امیر امان اللہ کا اہم مرقع پیش کرتی  دکھتی ہے اس میں امان اللہ کی سیاحت کے دوران اتا ترک سے ملاقات کا ماجرا ور  کلمات پڑھنے کو ملتے ہیں،ان تک یہ معلومات کیسے پہنچی یہ امر لائق  ِ تحقیق ہے،مگر آج کی صحافتی تاریخ نگاری کے مزاج نے اب سند اور روایت  کی تحریک کو عنقا کردیا ہے رپورٹر اور اسکے اخبار کو اہم بنادیا ہے لہذا اس تناظر میں ہم سے زیادہ تحقیق کا مطالبہ فضول ہے،خیر اس میں جھانکنے سے معلوم پڑتا ہے کہ اتا ترک نے کہا تھا اصلاحات کے لئے ڈنڈے  کی ضرورت پڑتی ہے ،ترکوں میں بھی قدامت تھی جسے ڈنڈے  نے مندا کردیا تھا،انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اصلاحات و تبدیلی لانے والے حکمران کو عوام میں حد درجہ مشہور و مقبول ہونا ضروری ہے،تاکہ یہ مقبولیت مزاحمت کو کمزور کرسکے۔امیر امان اللہ کا جواب تھا کہ ملُا مسئلہ پیدا کرینگے ،اور انکا حلقہ اثر بھی ہے مگر پہلے کی  مانند نہیں ہے جب ہی  میں ان سے نمٹ لونگا،بلکہ وہ تو مزاحمت کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔

اتا ترک نے کہا کہ: بھئی! بغاوت ممکن ہے جب ہی  طاقتور وفادار فوج کی سخت ضرورت پڑیگی امان اللہ نے کہا: انکے پاس وفادار فوج موجود ہے،اتا ترک نے کہا :سوچ لو ! اس طرح امن و امان کی حالت بگڑ سکتی ہے جو کاروبار زندگی،محصولات کے نظام کو متاثر کریگی؟ اسکے جواب میں امان اللہ نے یہ گپ ماری کہ:حضور ! پیسے کا مسئلہ  نہیں ہے ،وہ ہوجائیگا حد یہ کہ برطانیہ و روس بھی امداد کردینگے،اور  دور بغاوت  میں بھی عالمی مدد فراہم کرینگے۔اتا ترک نے اپنا تجربہ ان سے اشتراک (شیئر) کرتے ہوئے کہا کہ: ترک قوم بھی قدامت پسند تھی،اور مذہب و ثقافت پر کاربند تھی،ایسے میں وقت کا انتظار نہیں کیا گیا کیونکہ عوام اپنے اسلاف کی روایات و مذہب کو آسانی سے ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی ہے ،جب ہی  انکو ریاست کے جبر و قوت کے دم پر ہی بدلا جاسکتا ہے ۔چنانچہ  ہم دیکھتے ہیں کہ اس  آخری مشورے کو امان اللہ نے بطور خاص اپنی خام خیالی میں   واپسی پر بروئے کار لانے کی کوشش کی۔

حکومتی مجلس کے اجلاسوں میں اراکینِ مجلس  کو ہدایت جاری کی گئیں  کہ نک ٹائی،پینٹ شرٹ کورٹ  پینٹ پہنا  کریں،چنانچہ  ہم دیکھتے ہیں کہ لمبی گھیر والی شلوار اور کھلی قدیم قمیض پہننے والے پگڑٰیاں اور امامے  باندھنے والے زعماء  کو یہ امر بھی کافی ناگوار گزرا ،انھیں کہا گیا کہ انگریزی ہیٹ پگڑی کی جگہ استعمال کرو،عورتوں کو کہا گیا کہ قدیم برقعہ و پردہ ترک کرو اور چھرہ کھلا رکھو۔اس لباس نامے پر اوّل انہوں نے ،انکی بیگم ملکہ ثریا اور سسر صاحب نے عمل  کرناشروع کردیا۔

علما پر تنقید،اور انکی اہمیت گھٹانے کی کوشش اتاترک سے متاثر ہوکر شروع کی   گئی،ان پر جملہ کسنا عام ہوگیا،اور خود بھی اس مشغلہ میں حصہ ڈالنا بھی سیاسی اظہارِ رائے ( پولیٹیکل فریڈم آف اوپینین) تصور کیا گیا جیسا کہ سننے کو ملتا ہے کہ:انہوں نے ایک دفعہ علما سے ملاقات میں انکے سلام کا جواب دینے کی بجائے ہیٹ اتار کر اشارہ کردیا،کچھ لوگوں سے بس مصافحہ کرکے مسند کی طرف بڑھ گئے۔

ایک مُلا  جی جو علما  میں با عزت سمجھے جاتے تھے جنک ا نام ملا چکنور مشہور  تھا کے  ہاتھ میں ایک موٹے سیاہ دانوں کی تسبیح دیکھی جیسی آج کے کچھ مُلاوؤں پیروں فقیروں کے ہاتھوں میں بطور مذہبی فیشن   دیکھی جاسکتی ہے بلکہ ایسی تسبیح اکثر میڈیا  پر مرحومہ  بے نظیربھٹو سے لیکر عمران خان کے ہاتھوں میں بھی دیکھی جاچکی ہے  ، دیکھ کر طنز کیا گیا  کہ :تم کیوں ان اونٹ کی مینگنوں سے کھیل رہے ہو؟ مابعد کسی نے بتایا یہ بڑے مرتبہ کے عالم صاحب ہیں تو جواب دیا کہ :اسکی جگہ ریچھ بھی ہوتا تو اسکو انسان بنادیتا۔

ملکہ ثریا کا مذہب بشریت پرستی کی طرف میلان اور قرآن کی توہین :

انکی ملکہ تو ان سے دو ہاتھ آگے تھیں بلکہ کہا گیا ہے کہ امان اللہ پر یہ عورت ایسے حاوی تھی کہ اسی نے انکی ذہنی کایا  کلپ کردی  تھی اور انھیں سیاحت کی تبلیغ کی تھی کہ  عالی جناب  ذرا میرے ساتھ  سفرِ یورپ پر چلیں اور دیکھیں دنیا کہاں پہنچ چکی ہے،اسکی ترقی کا راز کیا ہے؟یہ  معلوم  بات ہے کہ یہ موصوفہ اور انکے والد آزاد روش کے حامل  صحافی  مشہور تھے اور انکا اعتقاد  و میلان طبع  دین مخالف بشریت پرستی کی طرف راجع   تھا جس سے مابعد ہیومن رائٹس  ڈسکورس پیدا ہوا،اس بابت ول ڈیورانٹ کی دی اسٹوری آف ہسٹری کی جلد :نثاۃ ثنایہ(رینایزاں) دیکھیں جسکا اُردو ترجمہ یاسر جواد کرچکے ہیں خیر انکا مزاج و اعتقاد کا اظہار ذیل کے قصہ سے ہوگا:

’’ایک دفعہ محل میں کسی خادمہ کے ہاتھوں  سے قرآن گر گیا اس نے اسکے گرے صفحات(یا کُل قرآن؟) چومنا شروع کردیا ملکہ نے دیکھا پوچھا :یہ کیا کر ہی ہو؟ خادمہ بولی :ملکہ حضور! یہ کلام ِ الہی ہے مجھ سے غلطی سے گرگیا جب ہی  توبہ کر رہی ہوں ؟ تو موصوفہ نے جواب دیا کہ :زمانہ بہت بدل چکا ہے،اپنے عقائد اپنے پاس رکھو ،خود کو بدلو ،اصل مذہب بس انسانیت (بشریت پرستی:ہیومن ازم) ہے،ایک سے ایک کتابیں  دنیا  میں لکھی جارہی ہیں اس سے بھی اچھی کتاب جلد  دنیا کو مل جائیگی،واضح رہے کہ ہم اس قسم کے قصوں کی صداقت پر اصرار نہیں کرنا چاہتے ہیں ممکن ہے کہ یہ انکے مخالفین کی پھیلائی  ہوئی باتیں ہوں،مگر کُل بحث سے اتنا ضرور واضح ہوتا ہے کہ امیر امان اتاترک سے بہت متاثر تھے،اور اتا ترک نے دین اسلام کے عقائد و معاشرت سے ترکوں کو اتنا دور کردیا ہے کہ ارد گان  دور کے ڈراموں کے علاوہ کہیں موجودہ ترکی حقیقت میں ثقافتی طور بھی  اسلامی شعار منوا نہیں سکا ہے،اس ضمن میں ترک ڈرامہ الف جس کو پاکستان میں سی ۔ٹی وی نے ا ُردو ترجمہ کے ساتھ پیش کیا تھا دیکھنے کے قابل شئے  ہے، اس ڈرامہ میں ترکی جامعات اور معاشرے میں اسلام پسند اور مغربیت زدہ نیم ملحدانہ معاشرے کی کشمکش پر بخوبی و عمدگی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

مسلم قوم کا ایک مخمصہ:

ہم غور کرتے ہیں تو معلوم کرتے ہیں کہ امیر امان کا کردار ان مسلم حکمرانوں کی مانند ہے جن کی قومی یا  ملکی جنگوں کو لوگ اسلام کی جنگ تصور کرکے انکی بابت حسنِ اعتقاد قائم  کرکے غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں،وہ اسلام اور مسلمان کے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں،ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر نام کے مسلم حکمران درون خانہ اسلام کو بس اپنے اجداد اور عوام کا مذہب تصور کرکے محتاط رہتے ہیں،جہاں انکو موقع میسر آتا ہے تو وہ اصلاحات کے ایجنڈے کو لیکر اٹھتے ہیں اور دین کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔

دوسری طرف کچھ ایسے بھی تجدد پسند ملت ہیں جو نہ تو  دین مخالف ہوتے ہیں اور نہ   اسلامی روایات کے منکر ہوتے ہیں مگر عالمی مصلحتوں اور مقامی ضرورتوں کا عالمی مصلحتوں اور ضرورتوں سےتقابل  کرکے انکا میلان اس جانب ہونے لگتا ہے کہ تبدیلی لائے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہے۔

ایک تیسرا  طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو قومی،ملکی یا قوم پرستانہ دعوت کے لئے کام کرتے ہیں،لوگوں کی کثیر تعداد چونکہ مذہبی رجحان و اقدار کی مداح ہوتی ہے جبھی حکمران بیرونی طور پر قدامت پسند ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں مگر باطن میں انکے دین مخالف رجحانات بھرے پڑے ہوتے ہیں ،چونکہ انکا اصل دین  و مذہب درون خانہ بس اور بس سیاست و اقتدار ہوتا  کا حصول و قیام  ہوتا ہے لہذا وہ اس دین پر رہنے کے لئے عوام کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔

چوتھی قسم  یہ ہے کہ کچھ حکمرانوں کو دین و قوم دونوں سے محبت ہوتی ہے مگر انکو گمان ہوتا ہے کہ دین کی جو تصویر کشی اور جو تعبیر  عصری علما پیش کررہے ہیں وہ انکے رجحان قلب کے مخالف ہیں لہذا وہ علما کی کاٹ کرنے کے لئے جدید تعلیم یافتہ اور جدید رجحان کے حامل مذہبی اہل علم کو آگے بڑھاتے ہیں جیسے صدر ایوب خان نے غلام احمد پرویز اور جنرل پرویز مشرف نے جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو آگے بڑھوایا تھا یہ جیو ٹی ۔وی کی ثقافتی یلغار تھی جو ثقافتی میڈیائی لہر  کی ابتدا ء تھی جس نے بعد ازاں پاکستانی اُ ردو ڈرامہ کی منہج و مقصد میں نمایاں تبدیلی پیدا کی اور ہم ٹی۔وی نے اسے عروج تک پہنچادیا،یہاں سے ایک مقامی مغرب زدہ نسائیت کی طاقتور لہر بلواسطہ پیدا ہوئی۔

اس میں شک نہیں ہے کہ کچھ علما تہہ در تہہ ایسی اقدار کی تقلید پر راسخ ہوتے ہیں جو عین دینی نہیں ہوتی ہیں بلکہ انکے فقہ و مسلک سے ہدایت یافتہ اقدار ہوتی ہیں،چنانچہ  یہاں عین ٹھیٹھ  مذہبی اقدار اور مابعد کی فقہی آرا کا اختلاف کچھ ایسے مسائل علمی بنیادوں پر قاری کے دماغ میں پیدا کردیتے ہیں جو اصل کی جگہ فروع کو مقام دلوادیتے ہیں۔خیر اس میں بھی شک نہیں ہے کہ عین شرعی اصولوں  کے مقابل  اکثر اجماعی مسائل کے خلاف  انفرادِ فرد  کو جدت پسند طبقہ بڑھاوا دیکر دین کے معاملات میں لوگوں کو مشکوک کرنے کی کوشش کرتا ہے،چنانچہ  وہ مسلمہ دینی مسائل جن کی بنیادیں مسنتد شرعی نصوص سے ثابت شدہ ہوتی ہیں جن کی طرف صدیوں سے علما کا اتفاق و رجحان ہوتا ہے کو جدت پسند طبقہ ملا ؤں  کی بنائی ہوئی بات کہہ کر دین  کو رد کرنے لگتے ہیں۔

حالا نکہ انفرادی مسائل اور مولوی کی مسلمہ ثابت شدہ مسائل کے مخالف مولوی گیری کے مقابل ہر دور کا سواد اعظم مزاحم رہا ہے،علما و محققین ،جمیع محدثین   و  فقہا نے کبھی تقلید و عدم تقلید کی بحث سے قطع نظر غلط مسئلہ  پر کسی مولوی بھائی کی بات سے اتفاق نہیں کیا ہے،جب ہی  کسی سنی سنائی بات یا کسی کی الزام تراشی سے مسئلہ  ثابت ہو نہیں جاتا ہے۔اخلاقیات سے متعلقہ معاملات میں شریعت نے کوئی ویسی سختی نہیں برتی ہے جیسی دعویٰ  کی جاتی ہے،مگر اسی طرح کسی کو انکی علمی ،متنی سند و مقام کو رد کرنے کا حق بھی کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو حاصل نہیں ہے،اور نہ صدیوں سے تجربہ شدہ اخلاقی قدریں تبدیلی کی لہر  میں بہہ کر ترک کیا جانا کوئی معقول عمل مانا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اصول میں تقلید کا کوئی بھی محقق عالم جزم سے قائل نہیں ہے،فروعی معاملات میں اختلاف اکثر کُل میں نہیں جزو  میں  ہوتے ہیں ،چنانچہ  ریاست کو شریعت کچھ فروعی معاملات میں سیاست شریعہ کے تناظر میں حق ِ فیصلہ ضرور دیتی ہے مگر ریاست اس بابت کامل اور بلاتحدید کوئی حق شرعی مسائل کے رد کرنے،انکو موقوف کرنے یا ان پر قدغن لگانے کے ضمن میں شرعی طور پر استعمال نہیں کرسکتی ہے،شریعت اسلامی نے ریاست کو ذریعہ مانا ہے ناکہ مقصد تسلیم کیا ہے،جب ہی  دین کی صرف سیاسی تشریح پر اصرار اور کل کو اسکے تابع رکھنے کا رجحان بھی درست نہیں ہے، دینی سیاست حقیقت ہے مگر شرعی دین کے نظم کا ایک جز و یا سسٹم کا ایک خاص حصہ ہے  ناکہ کل  روحِ محرکہ و اصلیہ ہے اس جگہ مولانا مودودی ؒ اور مولانا وحید الدین خان کا اختلاف عالمی سے زیادہ زمانی و مقامی دِکھتا   ہے،اس ضمن میں مولانا وحید الدین خان کی کتاب تعبیر کی غلطی اور علامہ مودودی کی دین کی چار بنیادی اصطلاحات کا تقابل  کرکے آہستہ آہستہ پڑھیں۔

یہاں جدید یوٹیوبیائی غلط فہمیاں شہرت  کے متلاشی حضرات پیدا کرتے پھر رہے ہیں ساحل عدیم کی اکثر ویڈیوز ایسے سوال پیدا کرتی ہیں جسکا جواب علمی طور پر   ضخامت اور تحقیق سے مطلوب   ہوتا ہے،مگر جواب قلت علم و عدم تدبر پر مبنی ناقص معلومات  سے پُر ملتا ہے، جس سے کوئی عام شہرت کے پیچھے بھاگنے والا یا چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہونے والا مطالعہ سے دور بقراطیت جھاڑنے والا رواجی  مقلد تو ہوسکتا ہے مگر کوئی سنجیدہ متین نفس مضمون کو سمجھنے والا نہیں ہوسکتا ہے،  چنانچہ امان اللہ ،اتا ترک،پہلوی ان تینوں کے بنیادی قضیہ جات اور سیاسی مصلحتوں پر مبنی مفروضات کو بعد ازاں سیاسی و سماجی انقلابات و بتدریج تغیرات نے بدل کے رکھ دیا تھا۔

سماجی تبدیلی کی مبادیات:

جب ہی  ہم دیکھتے ہیں کہ سماج کے دھارے کو تربیت ،تدریج،تقلیل التکالیف(یعنی کم سے کم بوجھ ڈالنا،شرعی آسانیاں جنکی آزادی ہوکو استعمال کرنا) اور عدم حرج کے بغیر یکمشت قلم و تلوار سے بدلنے کے نتائج  تباہ کن ثابت ہوتے ہیں کیونکہ جب تک قوم کے مزاج و فکر میں فکری تبدیلی مستقل بنیادوں پر پیدا نہ  ہو تو حادثاتی یا جبری نوعی تبدیلی پر اصرار  منصوبوں پر پانی پھروا دیتا  ہے،یہ منصوبہ جات  و تحریکیں جلد مردہ ہوکر مٹنے لگتی ہیں ۔

اس کی عمدہ مثالیں روسی انقلاب کے بعد بننے والی سویت ریاست اور مشرقی یورپی اشتراکی ریاستوں میں ڈھونڈی  جاسکتی ہیں فطرت کو بدلنا آسان کام نہیں ہے،فطرت کو سماجی و ریاستی ٹیکوں سے سلایا ضرور جاسکتا ہے ،مگر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے،اور یہ سویا ہوا دیو جب سو کر اٹھتا ہے تو اس پر کوئی نشہ کام نہیں کرتا ہے،اسکی مزاحمت ماضی کے جبری افکار و اقدامات کو ملیا میٹ کردیتی ہے،اتا ترک کا ترکی ٹوٹ رہا ہے،لینن کا مجسمہ گرادیا گیا ہے،ٹراٹسکی کو خود کو اسٹالن نگل چکا تھا،خورشیف اور بزنیف نے اسٹالن کو رد کردیا تھا،چین نے مقامی مزاج کے مطابق اوّل ماؤ  کو مارکس پر ترجیح دی بعد ازاں اس نظام نے ایک ریاست دو معاشی نظام کو اپنا کر اشتراکی مزاج و طریقہ کار کی بس سیاست زندہ رکھی اور روح سرمایہ داریت کی قبول کرلی،لہذا امان اللہ نے وہی غلطی کی جو شروع دور کے ارتقا پسند مسلم مفکرین نے کی تھی،انہوں نے ایک تصور کو جدید ترقی کا مآخذ ضرور مان لیا مگر جہاں یہ تصور پیدا ہوا وہاں کے حدود و اربع،مزاج،تغیر ،ضروریات،خواہشات ،رسم و رواج اور تمدن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔

حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے اگر یہ بات ان تک سنداً  ثابت ہوجاتی ہے کہ جاہلیت کو سمجھے بغیر فیصلہ کرنا خود بڑی جہالت ہے، لہذا دور رس تغیر اور فوری تغیر کی جزیات و کلیات الگ الگ ہوتی ہیں ،دونوں کے لئے مطلوب ماحول و مزاج الگ الگ ہوتے ہیں  چنانچہ  علم طبعیات میں علم کیمیا کے اصول،طب میں علم حساب کے کلیہ جات،ہومیو پیتھی میں ایلو پیتھی کی منہج استعمال کرنا علمی بدمعاشی تو ضرور سمجھی جاسکتی ہے کوئی علمی منطقیت پر مبنی فیصلہ تسلیم نہیں کی جاسکتی ہے۔

امان اللہ کا زوال و اختتام:

چنانچہ  امان اللہ کی جدت کی پرواز جب سماج کے خلاف غرور و نخوت کے درجہ پر فائض  ہوگئی انکی ذاتی انا جب خو د کو حق و باطل قبول اور عدم قبول کا معیار گرداننے لگی تو انکے خلاف لاوا پھٹ پڑا،چنانچہ  ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۸ میں ،قبا ئلی  زعما،علما اور فوج بہت حد تک انکے مخالف ہوچکے تھے،انکی آمریت افغان مزاج کے خلاف ہوتی جارہی تھی ۔ابھی تک جو زبانیں حلقوں میں بند تھیں اب انکو کھولنے اورمدد کرنے کا موقع ایک برطرف فوجی حبیب اللہ نے فراہم کردیا جس نے کابل کے شمال میں  موجود کوہ  د من سے اپنی جارحیت کا آغاز کردیا،اس نے کھلے عام لوٹ مار کا طوفان بدتمیزی شروع کردیا ، جبکہ معلوم پڑتا ہے کہ  اسکے مقابل امن و عامہ کی ذمہ دار  افغان نظمیہ نے اسکو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا تھا بلکہ شاید اسکو انکی ڈھکی چھپی حمایت بھی  حاصل تھی،اس ڈھیل نے اسکو ایسا  شترِ بے مہار کردیا کہ اس نے ۱۹۲۹ میں  تین سو کوہ دامانیوں کے جتھے کے ساتھ کابل پر چڑھائی کردی ،جسکے مقابل فوج خاموش رہی صرف ایک گھوڑ سوار شاہی دستہ کچھ مزاحمت پیش کرسکا۔

امان اللہ کو جب معاملہ کی نزاکت کا علم ہوا  تو وہ سمجھ گیا اس حبیب اللہ عرف بچہ سقہ کو اسکی آستین کے سانپوں نے ہوا دی ہے چنانچہ  اسے  اپنا بڑا بھائی عنایت اللہ یاد آیا ا وہ سکو حکومت سونپ کر قندھار فرار ہوگیا ،مگر چونکہ عنایت اللہ کو اربابِ حل و عقد ،زعما ،سرداروں اور علما کا اعتماد حاصل نہیں تھا،وہ حکومت کی دوڑ میں خود کو اپنی غلطی سے ماضی میں دفن کرچکا تھا  لہذا وہ ہندوستان فرار ہوگیا ،چنانچہ  حبیب اللہ کی بادشاہت کا اعلان کردیا گیا،جب امان اللہ نے یہ معاملہ سنا تو وہ بقیہ فوج کے ساتھ اس پر چڑھائی کرنے کابل کی طرف  بڑھا ،وہ سوچ رہا تھا کہ کچھ قبائل عصبیت میں آکر اسکا ساتھ دیں  گے ،مگر جب وہ قندھار سے بمقام مقر پہنچا تو خبر ملی کہ نواح غزنی کے گل(غل) زئی قبائل اسکے سخت خلاف،ہیں یعنی یہ کہ ان سے  وہاں دوران سفر تصادم ممکن ہے اس پر قندھاری فوجیوں میں تشویش و اضطراب پھیلنے لگا اور وہ ٹال مٹول کرنے لگے۔

اب امان اللہ سمجھ گیا کہ بہتری یہی ہے کہ ہوا کا رخ سمجھ لو چنانچہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ٹم ٹم موٹر پر سوار ہوکر چمن بھاگ آیا جو برطانوی ہندی بلوچستان کا حصہ تھا،یوں اسکی دیار غیر میں جلاوطنی تا یموت کا آغاز ہوا جو اطالوی روم پر جاکر اختتام پذیر ہوئی یہ بارک زئی ،دوست محمدی خاندان کی حکومت کا دورِ اختتام تھا۔بہت سے مورخین و محققین کا کہنا ہے کہ بچہ سقہ اور اسکے حمایتوں کا عالم پناہ حامی و ناصر وایسرائے ہند اور اسکی انگلستانی حکومت تھی۔

حرفِ آخر:

اس پوری بحث میں یہ امر صراحت و وضاحت سے پیش نظر رکھیں کہ،امیر امان نے روح عصر کو سمجھنے میں فکری و تاریخی فروگزاشتوں کا ثبوت پیش کیا تھا،اس نے اپنی قوم کے مزاج سے الٹی گنگا بہانے کی جو کوشش تھی وہ مذہب ریاست کی بقا کے خلاف تھی،دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اس نے مغربی تہذیب کی عمدہ فکری چیزیں اور اعمال اختیار کرنے کی جگہ منفی و سلبی امور کو مغربی تہذیب سمجھ لیا تھا،عوام الناس کی سوچ و فکر کی تربیت کرکے تبدیلی لانے کی جگہ لباس طور اطوار ،انداز نشست کو ہی   عین ترقی کا مظہر تصور کرلیا گیا تھا ،اس نے ریاست کو جدید جمہوری سیاست سے روشناس کرانے کی بجائے بس ثقافت کی تبدیلی کو ہی اصل مقصد بنالیا  تھا ،یعنی جدت کاری بس چونا لیپا پوتی تھا ،چنانچہ یہ غلطی ،اسکو بدنام،غیر مقبول اور ناکام ثابت کرواگئی،اسکو کسی عوامی بغاوت کی جگہ ایک لٹیرے نے دن میں تارے دکھادئے ،اور اس وقت وہ خوابوں کی دنیا میں بد مست پڑا تھا۔

چنانچہ  یہ جان لینا چاہیے  کہ  نہ  تو  ہر  منفی قدامت پر صدا استقلال  کوئی احسن امر ہوتا  ہے اور نہ  ہی ہر شئے  کو جدید کرنا اچھی بات  ہوتی ہے، جبکہ اس قدر کی پیش رو قدر زیادہ مجرب،محکم اور معقولی و تجربہ شدہ موجود ہو ۔ لہذا جو تجربہ شدہ قدیم خیر اپنے آپکو ہر دفعہ کامیابی سے منواتی آرہی ہو اسکو صرف قدیم کہہ کر بدلنا کوئی دانشمندی پر مبنی فیصلہ  نہیں  ہوتا ہے ۔اسی طرح وہ جدید امور جو نا مذہب کے مخالف  ہوں اور نا جن سے اخلاق ،کردار و اقدار میں منفیت کا تاثر ابھرتا یا قایم  ہوتا ہو انکو صرف مغربی اور جدیدی کہہ کر رد کرنا کوئی مذہبی و فکری تجربہ کی رو سے درست عمل نہیں ہوتا  ہے،جبھی میانہ روی اور تدریج کی روش کو پیش نظر رکھنا ہی محتاط و احسن عمل ہوتا ہے،اسی میں عقل والوں کے لئے صریح نشانی و فلاح پنہاں ملتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply