دو جمع دو۔۔ناصر خان ناصر

عجیب اتفاق ہے۔
ابھی ابھی فلاڈیلفیا سے آتے ہوئے ہائی  وے 59 ساؤتھ پر البامہ کے ایک ننھے منے چھوٹے سے قصبے کے نزدیک سے گزرے تو اس کے نام Mccalla Bessemer پر ہمیں ہنسی آ گئی ۔ ہم نے جمائیاں لیتی اپنی بیگم صاحبہ سے کہا کہ اس قصبے کا نام اگر جلدی سے پڑھو تو ‘منہ کالا بے شرم’ ہی پڑھا جاوے گا۔
وہ بھی ہنس دیں۔
چند لمحے دور جا کر ہی پٹاخے کی سی بلند آواز آئی  اور ہماری کار ڈانواں ڈول ہو کر بے طرح ڈولنے لگی۔ شاید ہماری کار کا ٹائر پنکچر ہو گیا تھا۔
فورا ً ٹرپل اے کو کال کیا۔ یہ کمپنی AAA اپنی مستعدی کی بنا پر امریکہ بھر میں مشہور ہے۔ بہت سارے سوال جواب ہوئے اور موقع واردات کا حدودواربع بیان کرنے کے بعد ہم نے استفسار کیا تو انھوں نے کہا کہ اس علاقے کا اکلوتا ٹو ٹرک والا تو آج بے حد مصروف ہے۔
ہمیں صرف ایک گھنٹہ انتظار کرنا ہو گا۔
مرے کو مارے شاہ مدار۔۔۔
گھنٹہ گرمی میں انتظار کروانے کے بعد انھوں نے کسی مقامی ٹو ٹرک والے کو بھجوایا جو کار کو toe کر کے اسی قصبے کے ایک ٹائر ڈیلر کے پاس ہمیں لے گیا۔
وہ ایک خوبرو نوجوان لڑکا تھا۔
بے بی بلیو نیلی آنکھیں، سنہری بال، لمبا تگڑا۔
مسکرایا تو دونوں گالوں میں ڈمپل پڑنے لگے۔۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے ٹپ وصول کی اور نہایت خوش دلی سے ہمارا شکریہ ادا کیا۔
سخت گرمی تھی مگر ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ننھے منے قصبے میں شاید دو چار ہی گھر تھے۔ ایک آدھا سٹور، کاروں کی مرمت کا گیراج اور بس۔۔۔
باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔۔۔

نئے ٹائر کی قیمت تھوڑی سی زیادہ تھی  ،کیونکہ ہمیں گھر واپس آنے کی سخت جلدی تھی لہذا منہ مانگی قیمت ادا کی اور جھٹ پٹ نیا ٹائر خرید لیا۔ ٹائر لگوانے، ٹائر بدلوانے، ہوا بھرنے اور پرانے ٹائر کو ٹھکانے لگانے کی مد میں مختلف رقوم ہمارے بل میں جمع ہوتے دیکھ کر ہماری سٹی گم ہو گئی ۔ پھر صبر کے دو گھونٹ بھر کر چپ چاپ حامی بھر لی۔ سرائیکی مثل ہے ‘ پھتکے دا کیا پھاتنڑ’ یعنی پھنسے ہوئے کا کیا پھڑکنا؟

ٹائر لگوانے کے لیے ہم سے قبل دو تین لوگ پہلے سے موجود تھے۔ ہماری کم بختی اور باری ان کے بعد آنی تھی۔ سوچا اتنی دیر میں لنچ ہی کر لیا جائے۔
انہی حضرت سے کسی قریبی ریستوران کا پوچھا۔۔۔
اس نے مقامی کھانے کی تعریف کرتے ہوئے قریبی ریستوران کا اشتہاری پرچہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔
باہر نکلے تو ایک ضعیف کبڑی جھکی کمر بڑھیا نے پھولوں کا گلدستہ بیگم کو تھما کر دانت نکوسے اور ہمیں لوٹنے پر کمر کس لی۔ ۔ مقامی پھول۔۔۔
اس کے مرجھائے پھول کے سے ڈھلکے گالوں میں بھی ڈمپل پڑتے تھے۔
چندھی سی آنکھیں آسمان کا رنگ لیے تھیں۔
بیگم کا دریائے جود و سخا فوراً  اُبل کر جوش میں آ گیا۔ حاتم طائی  کی قبر کو لات مار کر بڑا سا نوٹ اس مچکتی مسکراتی بڑی بی کے حوالے کیا اور پھر نہایت محویت سے پھول سونگھنے لگیں۔۔۔
ہم اپنی فکر میں غلطاں تھے۔
مذکورہ  ریستوران شاپ کے پچھواڑے ہی بنا تھا۔
کھانا اچھا تھا بشرطیکہ اسے دو دن کی بھوکی بھینس تناول فرماتی اور شاید کھا کر ایک بڑی سی ڈکار بھی ضرور مارتی۔
اس کھانے کی نام پر تہمت کو ہم نے چپکے سے زہر مار تو کر لیا، اگرچہ بہت سی کیچپ اور مرچوں کی ساس ڈالنے کے باوجود ذائقہ بھر بھی کچھ پھیکا سیٹھا سا ہی رہا تھا۔
ایک موٹی سی ویٹریس نے اپنے سنہری بالوں کا بڑا سا جوڑا سخت کسا ہوا تھا۔
اداس سی نیلی آنکھیں۔۔۔
کھانے کا بل دیکھ کر ہمارے ہاتھوں سے طوطے اور چہرے سے رنگ ضرور مزید اڑے ہوں گے کیونکہ وہ دلربا مسکرائی  ۔
ڈمپل دیکھ کر ہمارا سارا غصہ کافور ہو گیا اور جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ساری جیبیں ٹٹول الٹ کر ہم نے میز پر صرف اسی آس امید پر انڈیل دیں کہ اسے ایک بار پھر مسکراتا دیکھ لیں۔
مگر پھر بیگم کو گھورتا دیکھ کر اپنا سر جھکا لیا۔

ریستوران سے باہر نکلے تو ایک چھوٹی سی بچی گرل سکاوٹ کے بسکٹ بیچتی ہوئی  ملی۔
بیگم صاحبہ نے اس کے پھولے گال تھپتپائے اور پرس کا آخری نوٹ بھی اس کے حوالے کر دیا۔
واپسی پر اسی جگہ سے گزر ہوا جہاں ہماری کار پنکچر ہوئی  تھی۔ سڑک پر جگہ بہ جگہ پھٹے ہوئے ٹائر اور کئی  کیل دور سے ہی نظر آ گئے۔
عجیب اتفاق ہے۔۔

اب دوبارہ سڑک پر واپس آ کر ہم دونوں میاں بیوی غور کر رہے تھے کہ ٹو ٹرک والے صاحبزادے اور ٹائر کی دوکان کے کاؤنٹر پر کھڑے اس برخوردار کی شکلیں کیوں آپس میں اتنی ملتی جلتی تھیں؟
پھر ہمیں خیال آیا کہ پھولوں والی قطامہ بھی کہیں ان کی دادی ہی نہ ہو ۔

بیگم کو ریستوان والی پٹاخہ حرافہ بھی عین مین اسی شکل کی نظر آئی  تھی حالانکہ اس افریقن امریکن بی بی کے سنہرے بال دراصل مصنوعی وگ تھی اور بلاوے کے جلتے چراغ لیے آنکھوں میں نیلے کنکٹ لینز۔۔

بیگم صاحبہ نے اپنا قطعی فیصلہ بھی جھٹ پٹ سنا دیا کہ ہو نہ ہو اس قصبے کا نام ‘منہ کالا بے شرم’ بھی انہی قتالہ عالم کے نام نامی پر رکھا گیا ہے۔

یہ بھی تو ایک عجیب اتفاق ہی ہے کہ اس چھوٹے سے قصبے کے سارے رہائشی خوبصورت نیلی آنکھوں والے اور سونے کی رنگت لیے سنہری بالوں والے تھے۔۔۔۔ گالوں کے ڈمپل۔۔۔۔ وہ تو بڑی بی سے لے کر بسکٹ بیچتی چھوٹی بچی تک کے گالوں پر موجود تھے۔
واپسی کا سفر بہت لمبا تھا،
ہم نے اپنی پتلون ٹٹول کر دیکھی،
شکر ہے اس قصبے سے کچھ تو بچ نکلا،

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش ہمیں دو جمع دو کی گنتی کبھی تو بر وقت یاد آ جاتی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply