آج کا اخبار (خیال خام)۔۔محمد نور الامین

آج کا اخبار (خیال خام)۔۔محمد نور الامین/  ٹیلی ویژن نیوز چینل متعارف ہوئے تو رفتہ رفتہ خبروں کی پیشکش کے پہلے اندازو اطوار اور پھر الفاظ بھی بد ل دئیے گئے، اوّل اوّل تو ان پیشہ وروں کو موقع دیا گیا جنہیں زبان وبیان پر عبور حاصل تھا، کالم نگار، اخبارات کے رپورٹرز اور ایڈیٹرزبھی کسی طور اس نئی دنیا میں ایڈجسٹ ہو گئے۔تاہم2006میں سب سے پہلے پاکستان والے مکے بازکی ہدایت پر پہلے وومن پروٹیکشن بل آیا اور پھر اسے آزمانے کے لیے گلیمر کو جلوہ گری کے میدان میں اتار دیاگیا۔طوفان بدتمیزی ہے ،جو آج تک تھم نہ پایا، اور اس طوفان میں خبر اور صحافت کی وہ درگت بنی ہے کہ غور سے دیکھنے پر بھی شکل پہچانی نہ جاوے ہے۔پہلے ناظرین کی توجہ اور مارکیٹنگ کے لیے نو آموزمگر د ل نشیں، ناتجربہ کار مگر ناز وادا کے استعمال سے واقف ان پری پیکرکو دعوت ِ اعلان دی گئی جنہیں نیوز اینکرز کے نام سے دنیا جانتی ہے۔ بعد ازاں ٹیلی ویژن میڈیا میں مقابلہ شروع ہوا ریٹنگ کے حصول کا، جو اب تک کسی حتمی انجام تک نہیں پہنچ سکا مگر خبر کی ہئیت اور پاکیزگی جانے کب اس بازار صحافت میں لٹی کان و کان خبر نہیں ہوئی، اور اب اخبارات بھی اسی ڈگرپر ہیں۔معاشی بدحالی، کورونا کی وباء اور حکومت کی طرف سے صحافت اور آزادی ء اظہارپر قدغن لگائے جانے کے بہانے بنا کر جس طرح کا اسلوب اخباری مالکان نے اختیار کیا ،اس پر الگ سے تحقیق سے زیادہ تفتیش کی ضرورت ہے، کہ رپورٹر اور ایڈیٹرز کو ملازمت سے نکال کر پریس ریلیز شائع کرنے کا کام شروع کر دیا ہے، لیکن نام اب بھی صحافت کاہی استعمال کرتے ہیں، اب جوکچھ خبروں کے نام پر شائع کیاجا رہا ہے اسے صحافت قرار دینا معیوب لگتاہے۔

آج ہی کا اخبار اٹھائیے، نظر دوڑائیے کہ شہ سرخیوں میں کہیں عوامی مسائل کو جگہ دی گئی ہو تو نوٹ کیجیے، معروضی انتظامی امور، تعلیم و صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی، اناج کی کاشت سے خرید و فروخت تک کی داستان یا کسان کی پانی، بجلی، کھاد، ڈیزل اور بیج کی بڑھتی قیمتوں پر پریشانی اور آڑھتی کے ہاتھوں لُٹنے کے واقعات کی خبر ملے تو اس پر دائرہ لگا لیجیے، کہ اب اخبارات میں بھی ان کی جگہ کم ہے۔ ایجوکیشن بورڈز کے نتائج، جامعات میں تحقیق کے معیار، سکولوں میں سہولیات کی فراہمی، کم سنی میں مزدوری کرتے بچوں کے ماند چہرے، سیوریج اور پینے کے پانی کا سنگم، ہسپتالوں میں ادویات کی قلت اورپرائیویٹ مارکیٹ میں ان کے بڑھتے داموں سے متعلق خبر کو فریم کروانے کی کوشش کیجیے، کہ آپ ایسا خوش قسمت زمانے میں نہ ہو گا جسے ایسی خبر دیکھنے کوملی۔ افراد باہم معذوری، اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہری، مزدوری کی تلاش میں صبح کوشام کرتے کروڑوں پاکستانی، فیکٹریوں کا زہریلا دھواں نگلتے اور کیمیکل زدہ پانی پینے پر مجبور لاکھوں دیہات، قابل کاشت زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کے قیام، نہروں میں سیوریج کے پانی کا نکاس،ویسٹ مینجمنٹ کے کچرے کو تلف کرنے سے متعلق منصوبہ بندی کی خبریں تو چاہتے ہوئے بھی آپ کو آج کے کسی اخبار میں اوّل تو ملیں گی نہیں، اس لیے تردد مت کیجیے گا، البتہ احسن اقبال کے ادویات کی قلت پربیان، زرتاج گل کی ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کی پریس ریلیز اور وزیر اعظم کے اربوں درخت والے بیانات پر مسکرائیے گا ضرور مگر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ بیانات میڈیا ایڈوائزرز نے اسی وقت لکھ لیے تھے، جب اخبارات کاظہور ہوا اور وہی محنت آج تک انہیں پھل دے رہی ہے۔

اب آئیے کہ اخبارات میں شائع کیا ہو رہا ہے تو اس میں سر فہرست صفحہ اوّل کو دیکھیں،کہ اردو اخبارات کی شہ سرخیوں میں روز کی بنیاد پر افغانستان سے متعلق وزیر اعظم یا آرمی چیف کابیان اب روایت بن چکا، بالکل جس طرح آئی ایس آئی چیف سے متعلق وزیر اعظم کے اختیارکی روایت اختیار کی گئی۔اسی طرح انگریزی اخبارات کے ماتھے پر آئی ایم ایف سے مذاکرات یا بیرونی امداد اورملکی مالیاتی حالات کی دگرگوں حالت کا تذکرہ لازمی ہے۔لوئر ہاف میں چار پانچ وزراء کے للکارتے یا کھلکھلاتے بیانات، وزیر اعظم کے لنگر خانوں، پناگاہوں کی ایک آدھ تصویر اور کچھ میٹنگز کی تصویری کہانیاں صفحہ اوّل کی زیب و زینت ہوتی ہیں۔ بیک پیج پرحکومتی پارٹی کے بیانات کے جوابات اپوزیشن کے بیانات کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں کہ انہیں صفحہ اوّ ل پر جگہ دینا خود کو مقدس اداروں کی نظر میں گرانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اندرونی صفحات پر علاقائی رہنماؤں کے بیانات پر بات ختم ہے، جبکہ علاقائی مسائل کا احاطہ کرنے کی بجائے تعلیمی، سفری،اور صحت کی سروسز فراہم کرنے والی غیر سرکاری کمپنیوں کے اشتہارات خبروں کی صورت میں شائع کیے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

رنگین صفحات یعنی روزانہ شائع ہونے والے تعلیم و تربیت اور رہنمائی کے خصوصی صفحات سوشل میڈیائی مواد اور ان کے استعمال سے بھرے ہوئے ہیں یا اکثر اخبارات نے بند کر دئیے ہیں۔کھیلوں کے صفحات بقیہ جات کی نذر ہوچکے جبکہ کامرس پیج کی شاید اس عوام کو ضرورت نہیں رہی۔ایڈیٹوریل کو مختصریا محدود کرتے ہوئے دو سے ایک صفحے میں سمو دیا گیاہے، اکثر اخبارات میں ایڈیٹوریل (اداریہ) لکھنے کی روایت بھی باقی نہیں رہی اور اس صفحے پر کچھ کالم نگاروں کے سطحی خیالات کو کالم کی صورت اب بھی شائع کیا جاتا ہے۔ انگریزی اخباروں میں اب بھی حالات حاضرہ کے کچھ موضوعات پر مضمون شامل کیے جاتے ہیں لیکن اردو اخبارات میں بالعموم کالم بھی سیاسی جماعتوں یا شخصیات کے موقف یا نمائندگی کی صورت اختیارکر گئے ہیں۔ لوگوں کی سیاسی و سماجی تربیت، ذہن سازی اور آگاہی کا جوکام کالم نویس کرتے تھے انہیں اب ان موضوعات پر یا تو بہت کم جگہ ملتی ہے یا پھر ویب سائٹس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایڈیٹرکے نام خط انگریزی اخباروں میں شائع ہوتے ہیں لیکن اردو اخبارات نے اس لت سے تقریباً چھٹکارا حاصل کر لیاہے۔ایسے میں شائع ہونے والی سرخیوں اور بیانات کو خبرکا نام دینا،آزادی ء اظہار اور اختلاف رائے کی اشاعت کے اصولوں سے منحرف ہونا حتی ٰ کہ خبر یا شائع ہونے والے بیانات اور تصویروں کو معاشی فائدے کے ترازومیں تولنااگر صحافت ہے تو پھر صحافت کا مستقبل بہت روشن ہے، ورنہ غورکرنے اور تدبیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply