فیض و اقبال دو یادداشتیں۔۔رشید یوسفزئی

ضیائی دور کے آغاز میں عرصہ حیات تنگ کیا گیا تو 1978 میں حضرت فیض فلسطینی کاز کے مقصد کی خاطر، روس و مغرب کی بجائے بیروت منتقل ہوئے۔ بیروت ایشیا اور عرب دنیا کا پیرس و لندن، الحمرا سٹریٹ۔  جہاں عرب ممالک کیا دنیا کے شاعر و ادیب اور انٹلیکچولز و فنکار جمع ہوتے۔  الحمرا سٹریٹ کی رونقیں فیض کے  وجود سے اور منور ہوئیں ۔ خلیل حاوی اور “بطاقۃ الھویہ ۔ سجل انا عربئ” کے محمود درویش آفتاب فیض کے مدار میں طواف کرتے۔ نزار قبانی، حسن البیاتی اور بدر الشاکر الثیاب اور نجیب محفوظ اور محمد حسین ہیکل بیروت جاتے تو دیدار فیض کیے  بغیر واپسی گناہ کبیرہ سمجھتے۔

جنہوں نے جوانی میں فیض کو بیروت کی  حمرا سٹریٹ میں جلوہ افروز ہوتے دیکھا اور سنا تھا وہ آج بھی ان کا ذکر انتہائی محبت و احترام سے کرتے ہیں۔ کل پرسوں بیروت کا حسرت ناک ذکر کرتے ہوئے ایک بیروتی-لندنی نے لکھا ہے:
Although he was deeply secular, Faiz was no atheist۔ He was spiritual in the practice of his religion; Islamic imagery  and allegories permeated his writings۔
ایک دنیا کے دلوں میں ان کا رعب، محبت وا حترام تھا۔ ایک بار اپنے مخصوص گہرے انداز میں سگریٹ کے کش لگا رہے تھے۔ ایک پروفیسر دنوں سے سوچ رہے تھے کہ کبھی موقع ملے تو ان سے مذہب بارے سوال کریں۔ فیض کی  خاکسارانہ طبیعت کے باجود لوگوں کے دلوں میں انکا احترام اور رعب ایسا تھا کہ کسی کو جرات نہیں ہو رہی تھی۔ پروفیسر نے ہمت باندھی۔ جاکے سلام کیا ،پوچھا سر اجازت ہو تو ایک سوال پوچھوں ،جو کئی  دنوں سے دل میں ہے۔ آپ کا مذہب کیا ہے؟

فیض مسکرائے۔۔۔ دھیمے دل لبھانے والے لہجے میں جواب دیا، “میں مولانا روم کے مذہب پر ہوں ” ۔ سوال کرنے والا چلا گیا مگر اب ایک اور الجھن پیدا ہوئی ۔ مولانا  روم کا مذہب کونسا تھا؟

بیروت امریکن یونیورسٹی، جہاں عنفوان شباب میں راقم کو بھی تہذیبوں کے درمیان گفتگو پر ایک لیکچر کا موقع ملا۔  بیروت امریکن یونیورسٹی کی لائبریری میں انسائیکلوپیڈیاز اور مذاہب کی  ڈکشنریاں کھنگالنے لگا کہ مولانا  روم کا مذہب معلوم کرے۔ کچھ ہاتھ نہ آیا۔ چار و ناچار واپس فیض ہی کے پاس لوٹنا پڑا۔ وہی جگہ، وہی پوز۔۔۔ کہا سر، “کل آپ نے کہا آپ  مولانا  روم کے مذہب پر ہیں۔ یہ مولانا  روم کس کے مذہب پر تھے؟” فیض نے اسی لہجے میں جواب دیا، “وہ میرے مذہب پر تھے “۔

بیروت سے تین زبانوں میں شائع ہونے والا مجلہ لوٹس عربی دنیا میں قابل قدر مقام رکھتا تھا۔ عربی اور انگریزی زبان و ادب پر یکساں عبور کی  وجہ سے فیض اسی رسالے کے اوّلین غیر عربی ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ جون 1982 میں اسرائیل نے بیروت پر حملہ کیا  اور وہ قیامت ڈھائی کہ اس دور کے لبنان کے سب سے بڑے شاعر خلیل حاوی نے اپنے شہر کی حالت زار دیکھنے کی برداشت نہ رکھتے ہوئے خودکشی  کرلی۔

مقامی شعراء ادباء، سیاست دان ،سرمایہ کار ،سب بیروت سے نکل گئے۔ بالآخر مجبور ہوکے فیض بھی کراچی آئے  لیکن تب جب ان کی  رہائش پذیر عمارت کو بھی گولہ و بارود لگے۔

بعض لوگوں کی فطرت خبیث ہوتی ہے۔ حافظ شیرازی نے ایک جگہ فرمایا ہے “ہر کہ بے ہنر افتد نظر بعیب کند” جس میں خود کوئی کمال نہ ہو اس کو دوسروں میں عیب ہی نظر آتے ہیں۔  اس واقعے پر طنز کرتے ہوئے بی بی سی سیر بین کے نیوز کاسٹر رضا علی عابدی نے  2006/7 میں لکھا:
“جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو  آنی جانی ہے اس جان  کی تو کوئی بات نہیں
کا شاعر بیروت پر پہلا گولہ پڑھتے ہی کراچی بھاگ آیا تھا۔”

ہم بھی جوانی کے جوش میں تھے۔ عابدی کو لکھا میڈیا کی دنیا میں سب سے حقارت سے جس بندے کو دیکھا جاتا ہے وہ نیوز کاسٹر ہوتا ہے۔ سٹوڈیو میں نیوز کاسٹر کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو پشتون شادیوں میں نائی کی۔  سوچ رہا تھا بی بی سی کا نیوز کاسٹر کچھ معیار کا بندہ ہوگا، لیکن وہاں بھی یہ حالت۔ ۔ جس بیچارے کو یہ سمجھ نہ آتا ہو کہ شاعر اور دہشت گردی کرنے والے بیروت کے شیعہ ایرانی کرائے کے ٹٹوؤں میں فرق ہوتا ہے اس کو نیوزکاسٹری دینا نیوز کاسٹر کی بھی توہین ہے۔

ایرانیوں کو ایرانی شعر و ادب پر بہت ناز ہے مگر ایران سے باہر کسی فارسی شاعر کو بمشکل تسلیم کرتے ہیں۔ سبک ہندی کے شعرا فیضی و عرفی و نظیری ایرانیوں کے  ہاں کبھی ایرانی شعرا کے ہمسر نہیں۔

جس طرح انگریزی میں Queen’s English اور King’s English کا تصور ہے اسی طرح فارسی میں شہنشاہ ایران کی فارسی کو فارسی کا معیار سمجھا جاتا۔ شہنشاہِ ایران رضا پہلوی اس لحاظ کافی حساس تھے۔ شاید اسی وجہ سے فارسی زبان کے عظیم سکالر ڈاکٹر پرویز ناتل خالری کو وزیر ثقافت بنایا۔

شاہ کے اکتیس محلات میں کوہ دماوند کے دامن میں واقع کاخ نیاوران۔ Nayawraan Palace سب سے زیادہ پُرشکوہ اور وسیع ہے۔ شاہ کی پہلی بیوی مصر کی شاہ فاروق کی بہن تھی۔ وہ چلی گئی اور ملکہ فرح دیبا آئی، تو شاہ نے کاخ نیاوران کو مستقل مقر بنالیا۔ ذاتی و روزمرہ استعمال کی  تمام اشیاء یہاں لائے۔

2004  کو ایرانی حکومت کی  دعوت پر ایران جا رہا تھا تو ڈاکٹر ظہور احمد اعوان نے کاخ نیاوران دیکھنے کی خصوصی تاکید کی۔ وہاں گیا۔۔ ملکہ کے کمرے میں فرش پر ایک ببر شیر کا سر اور چمڑا دیکھا جس کو taxidermist نے کمال سے محفوظ کیا تھا۔ حیرت تھی کہ رات کو ملکہ اس سے خوفزدہ نہ ہوتی!

اس سے بھی زیادہ تعجب  خیز امر شہنشاہ کے کمرے میں ملا ۔ شاہی کمرے میں  داخل ہوا تو دیکھا شاہی سرہانے “کلیات اقبال لاہوری” پڑ ی ہے، جو شہنشاہ رات کو پڑھتے اسی لئے مستقل سرہانے ہی رکھا کرتے۔

ساتھ گئے ایرانی کلچرل اتاشی، سکالر اور اس وقت میرے گائیڈ علی رضا خوشامدی سے پوچھا “کیا ایران کے ہزاروں شعراء پر فخر کرنے والے شہنشاہ بطور عادت صرف اقبال پڑھتے تھے؟”

جواب ملا ہاں “بطور شاعر شہنشاہ کا فیورٹ شاعر اقبال لاہوری ہی تھے۔”  شہنشاہ ایران اقبال کے خیالات سے ذرہ برابر متفق نہ ہوں گے۔ اقبال کے الفاظ اور شعری سحر کے عمر بھر اسیر رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہبی، نیشنلسٹس، لبرلز ،اشتراکیوں سے عاجزانہ عرض ہے  ،آپ کا معیار بہت بلند ہے۔۔۔ متفق! لیکن  ہمارے اقبال کو شاعر ہی رہنے دیں۔  شاعری الفاظ، الہام دل اور جنون کی چیز ہے۔ بطور شاعر اقبال بے مثال۔۔۔ بطور صاحب الہام بے ہمال۔
جو لوگ فن کو عبادت سے کم سمجھتے ہیں
میں ان کے سامنے تیری  مثال رکھتا ہوں
ہزار سازشیں کرتے رہیں  یہ شب زادے
میں تیری  صبح سخن کا خیال رکھتا ہوں!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply