کینسر (21) ۔ زہریلی فضا/وہاراامباکر

دو دسمبر 1943 کو اٹلی میں باری کے قریب امریکی بحری جہازوں پر جرمن طیاروں نے بمباری کی۔ جہازوں کو آگ لگ گئی۔ ان میں سے ایک جہاز، جان ہاروے، میں ستر ٹن مسٹرڈ گیس موجود تھی۔ ہاروے کے پھٹتے ساتھ ہی اس کا یہ زہریلا مواد بھی پھٹ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جرمن حملہ ایک غیرمتوقع اور خوفناک کامیابی تھا۔ باری کے رہائشیوں اور مچھیروں نے شکایت کی کہ انہیں سمندر سے آنے والی ہوا میں جلے ہوئے لہسن اور مولی کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ امریکی ملاحوں کو سمندر سے نکالا گیا تو وہ تکلیف سے چیخ رہے تھے اور ان کی آنکھیں سوج کر بند ہو چکی تھیں۔ بچائے جانے والے 617 ملاحوں میں سے 83 کا انتقال پہلے ہفتے میں ہو گیا۔ گیس کے اثرات باری کی بندرگاہ تک آ گئے۔ اگلے چند مہینوں میں ایک ہزار مرد و خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ واقعہ اتحادی افواج کے لئے سبکی کا باعث تھا۔ طبی ماہرین کو بلوایا گیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ جو لوگ بمباری میں بچ گئے تھے لیکن بعد میں نہیں، ان کے خون سے سفید خلیے ختم ہو گئے تھے اور ہڈی کا گودا کم رہ گیا تھا۔ گیس نے خاص طور پر اس کو نشانہ بنایا تھا۔
اس واقعے سے گیسوں کے اثرات کی تفتیش شروع ہو گئی۔ اس کیلئے ایک خفیہ یونٹ بنایا گیا جو کیمیکل وار فئیر یونٹ تھا۔ تحقیق کے معاہدے کئی اداروں کو دئے گئے۔ نائیٹروجن مسٹرڈ کا معاہدہ دو سائنسدانوں کو ملا جو ییل یونیورسٹی کے لوئی گوڈمین اور الفریڈ گلمین تھے۔
انہیں گیس کی تباہ کاریوں میں خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن گیس کا سفید خلیوں کے خلاف عمل ان کے لئے دلچسپی کا باعث تھا۔ ان کا سوال تھا کہ کیا اس اثر کے ذریعے کینسر کے سفید خلیوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟
انہوں نے اس کی سٹڈی چوہوں اور خرگوشوں پر شروع کی۔ نتائج حوصلہ افزا تھے۔ جس کے بعد اس کو انسانوں میں لے جایا گیا۔ ان کی توجہ لمف گلینڈ کے کینسر (لمفوما) پر تھی۔ پہلا تجربہ ایک اڑتالیس سالہ شخص پر کیا گیا۔ اور اس کے پھولے ہوئے گلینڈ غائب ہو گئے۔ کیموتھراپی سے کینسر کو پیچھے دھکیل دینے کا یہ پہلا کیس تھا۔
کئی اور تجربات میں بھی ایسی کامیابی نظر آتی رہی لیکن یہ عارضی کامیابی تھی۔ کینسر واپس آ جاتا تھا۔ گوڈمین اور گلمین نے 1946 میں اپنا پیپر شائع کیا۔ ٰ(یہ فاربر کے پیپر سے چند ماہ قبل تھا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں سے چند سو میل دور نیویارک کی ویلکم کی لیبارٹری میں بائیوکیمسٹ جارج ہچنگز اپنے طریقے سے کینسر کے خلیے مارنے پر تحقیق کر رہے تھے۔ کئی سالوں تک انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔ انہوں نے ایک نوجوان اسسٹنٹ کو ملازم رکھا جو گرٹروڈ ایلیون تھیں۔ کیمسٹری میں ماسٹرز کے بعد انہیں کہیں ملازمت نہیں ملی تھی اور وہ ایک سپرمارکیٹ میں کام کر رہی تھیں۔ ان کا کام اچار کی تیزابیت اور مائیونیز بنانے والی انڈے کی زردی کا رنگ چیک کرنا تھا۔
اچار کی دنیا سے نکل کر ایلیون نے سنتھیٹک کیمسٹری میں چھلانگ لگا دی، جہاں کامیابی اور نوبل انعام ان کا انتظار کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہچنگز کو ایسے دغاباز مالیکیول کی تلاش تھی جس کو خلیے نگل لیں لیکن وہ انہیں مار دے۔ ایلیون نے اس میں اپنے زاویے کا اضافہ کیا۔ ان کی توجہ صرف پیورینز پر تھی۔ یہ ایک بند زنجیر کے نامیاتی کیمیکل ہیں۔
ایلیون کے پاس قسم قسم کے مالیکیول تھے۔ انتہائی زہریلے، عجیب بو والے، غیرمستحکم یا غیرمفید یا پھر دونوں۔ لیکن 1951 میں ایلیوں نے ایک مالیکیول تلاش کر لیا جو 6MP تھا۔
اگرچہ اس کے جانوروں پر کئے گئے ابتدائی ٹیسٹ کامیاب نہیں رہے تھے (یہ کتوں پر تجربات میں مہلک ہے)۔ لیکن تجربات ختم نہیں کئے گئے۔ پیٹری ڈش میں حوصلہ افزا نتائج کے بعد اس کو انسانی مریضوں پر ٹیسٹ کے لئے منتخب کر لیا گیا۔
جوزف برکانیل اور میری لوئی مرفی نے اس کے کلینکل ٹرائل لیکیومیا کے شکار بچوں پر شروع کئے۔
نتائج حیران کن تھے۔ 6MP نے بہت ہی برق رفتاری سے کینسر مارنا شروع کر دیا۔ تیزرفتاری سی لیوکیمیا کے خلیوں کی سطح گرنے لگی۔ اور پھر یہ چند ہی روز میں خون سے اور ہڈی کے گودے سے غائب ہو گئے۔
کیمیائی ہتھیاروں کے زہر نے کینسر کے خلاف کام کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بوسٹن کی طرح ہی، یہ صحت یابی بہت دیر نہیں رہی۔ فاربر کے اینٹی فولیٹ کی طرح ہی چند ہفتوں بعد کینسر واپس آ چکا تھا۔ یہ کینسر کے علاج کی عارضی جھلک تھی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply