• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ناموسِ رسالت کے نام پر توہینِ رسالت ﷺ۔۔محمد وقاص رشید

ناموسِ رسالت کے نام پر توہینِ رسالت ﷺ۔۔محمد وقاص رشید

ناموسِ رسالت کے نام پر توہینِ رسالت ﷺ۔۔محمد وقاص رشید/اس پوری کائنات میں خالق ایک ہے”خدا” ۔اس بِنا پر وہ سب سے بڑی عزت و تکریم والا ہے۔ باقی سب کچھ اسکی مخلوق ہے۔  پوری کائنات اسکی مخلوقات کا مجموعہ ہے، ان تمام مخلوقات میں سے شرفِ خلیفہ ءِ خدا انسان کے سر سجا اور وہ اس بِنا پر اشرف المخلوقات کہلایا۔ یہ خدا کی طرف سے انسان کو دی گئی بنیادی عزت ہے۔ پھر خدا نے ان تمام انسانوں میں سے ایک کو باقی تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنا کر انہیں اشرفِ اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا ،یہ خدا کے آخری پیغمبر ﷺ  کی ناموس و حرمت ہے۔
؎ بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر

خدا نے اپنی کتاب میں تین باتیں کہیں؛
1-ہم نےآپ ﷺکو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا
2-تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی سیرت بہترین نمونہ ہے
3-ہم نے آپ ﷺکے ذکر کو بلند کر دیا

طالب علم کی نگاہ میں اگر ان کے مفاہیم کو یکجا کیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والا علمی مرکب ناموسِ رسالت ﷺ  کا بنیادی تصور ہے۔
“رحمت”  چار حروف کا مجموعہ ہے ۔رسول خداﷺ  کی سیرت کی روشنی میں طالب علم کو رحمت کے چار حروف کی یہ توجیہہ ملتی ہے ۔ ر سے رحم ، ح سے حلم ، م سے محبت اور ت سے تعظیم۔
یعنی رسول اللہ ﷺ  کو خدا نے انسانیت کے لیے رحمدلی ،حلیمی ،محبت اور تعظیم کا علمی و عملی درس دینے والا پیغمبر بنا کر بھیجا تاکہ باقی کے تمام انسان قیامت تک ان سے یہ سبق سیکھ سکیں اور اسی لیے انسانیت کو یہ درس بدرجہ کمال دینے پر آپ ﷺکا انعام یہ ہے کہ آپﷺ کے ذکر کو بلند کر دیا گیا۔  یہ خدا کی طرف سے ناموسِ رسالت ﷺ ہے۔

نبی کریم ﷺ  تشریف لائے تو اوپر بیان کردہ فلسفہءِ ناموس رسالت آپ ﷺپر اتنا واضح تر تھا کہ سیرت طیبہ آپ کے رحمت للعالمین ہونے کے ثبوتوں سے بھری پڑی ہے۔  انسانی تاریخ نے اپنے مقصد میں اس درجہ مخلص رہبر نہیں دیکھا۔ ورفعنا لک ذکرک کی سند یونہی نہیں ملتی،کہ خود رحمت للعالمین بنا کر بھیجنے والے خدا کو ایک موقع پر یہ باور کرانا پڑا کہ آپ  ﷺنے اپنی رحمدلی کی وجہ سے منافقین کو بھی اجازت دے دی جہاد پر نہ جانے کی بغیر انکی منافقت واضح کیے۔ اپنی پہچان کا عالم دنیا میں کسی بھی انسان پر ایسا نہیں کہ رحمت للعالمین بنا کر بھیجنے والا خدا طائف میں لہو لہان حالت میں شدید اذیت کی کیفیت میں اذیت دینے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بابت پوچھے تو آگے سے اس کیفیت میں بھی دعا اور خیر اندیشی ہو۔  قرآن پاک میں ایک مقام پر خدا نے رسول اللہ کی اپنے مقصد سے دردمندی کی حد تک لگاؤ کی تحسین فرمائی۔ ثمامہ جو کفار کی فوج کا بہت بہادر اور جانباز سپاہی تھا، جنگ کے بعد قیدی بنا کر لایا گیا آپ نے ایک بار اپنی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنے کو کہا۔۔  جواب میں اس نے شدید گستاخانہ کلمات کہے۔ ۔ صحابہ کی تلواریں نیام سے باہر آئیں ۔ آپﷺ  کو اپنے رحمت للعالمین کے مقام کا ایسا پاس تھا کہ سب کو حکم دیا کہ اسے آزاد کر دو اور عزت سے رخصت کرو ۔ واپس پلٹا کہ اپنا اسیر کر کے اب آزاد کر رہے ہیں ۔ اور یوں ثمامہ سے حضرت ثمامہ بن گیا۔  فتح مکہ کے موقع پر یہ ذاتی تشخص اپنے عروج پر پہنچا، جب تاریخِ انسانی نے دیکھا کہ اپنے گھر بار سے اذیتیں دے کر ہجرت پر مجبور کی گئی شخصیت گیارہ سال بعد واپسی پر ایک فاتح کے طور پر اپنے علاقے میں داخل ہوتی ہے  لیکن زمینی فتح سے زیادہ دلوں اور روحوں کے جغرافیے سر کرتے فاتح عالم نے ثابت کیا کہ وہ رحمت للعالمین ہیں۔  انہیں خدا کی تفویض کردہ ناموسِ رسالتﷺ  کا پاس رکھنا تھا۔ بدترین دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان اور یہیں تک نہیں بلکہ اسلحہ خدا کے دین سے جنگ بندی کی صورت امان عطا کی جائے گی اور یہ اعلان کہ انکی عبادت گاہوں کی حفاظت اسلام کرے گا۔۔ ۔اللہ اللہ۔

آج کوئی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لے گا کہتے ہوئے  پوری کائنات کی عظمت و رفعت رحمت للعالمین کے قدموں میں سمٹ آئی تھی۔  کتنا فخر ہو گا اس لمحے خدا کے ہاں کہ اس نے جسے محبوب کا درجہ دیا اس نے محبت کا حق ادا کر دیا۔  پورا عالم چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا یہ دیکھو اسے عشق کہتے ہیں ۔ یہ ہے محبت و عقیدت کی انتہا، کہ خاتم النبیین ﷺ  کو خدا سے کتنی محبت تھی کتنا عشق تھا کہ جب آپ کے پاس اختیار ہو دوسروں سے انتقام لینے کا وہ آپکے مفتوح ہو جائیں۔ تو آپ ذاتی پپرخاش سے مقصدیت کو بالا تر رکھتے ہوئے اپنے عشق کی تکمیل کریں، اپنی محبت کا حق ادا کریں ۔ یہ ثابت کریں کہ میرٹ   کے خدا نے آپ کو رحمت للعالمین کے منصب کے لیے چنا۔  آپ حبیبِ خدا ہیں اور محبت اپنی ذات کی نفی ہوتی ہے۔  عشق ،معشوق کے رنگ میں رنگے جانے کا نام ہے۔ قسم ہے زمانے کی،وقت کی پوری تاریخ میں خالص ترین وہ لمحہ تھااس لمحے کی عظمت کو سلام جس لمحے فرشتہ جبرائیل نے خدا کی طرف سے یہ آیت رسول اللہ ﷺ کو سنائی ہو گی کہ “وما ارسلنک الا رحمت للعالمین ” ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ درودو سلام ان پر جنہوں نے زندگی کا اک ایک لمحہ اس پیغام کو امر کرنے میں صرف کیا۔ خدا نے اسی طریقت کو تو ایک معیار ایک کسوٹی بنا کر دنیا کے تمام انسانوں کو اس ہر عمل کرنے کا حکم دیا۔۔۔ یعنی ناموسِ رسالت ص، رحمت للعالمین کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔

وقت گزرتا گیا اس نے لگ بھگ چودہ صدیاں اپنی لپیٹ میں لے لیں۔ دینِ خدا یعنی سیرتِ رحمت للعالمینﷺ  پر عملدرآمد کی خاطر پاکستان قائم ہوا اور اسے معرضِ وجود میں آئے    سات دہائیوں سے زیادہ بیت گئیں ، روح کی تطہیر کے ایک آفاقی نظام کو ہم نے چند ظاہری نمودو نمائش کی چیزوں میں قید کر کے فلسفہ رحمت للعالمین کو تو نظر انداز کیا ہی تھا۔  لیکن کسے خبر تھی کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم بھی ہم اس ہٹ دھرمی سے کر جائیں گے،جس کا مظاہرہ ہم نے حال ہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

طالب علم نے اوپر سیرتِ رحمت للعالمین کی روشنی میں خدا کی قائم کردہ ناموسِ رسالت ﷺ  کا فلسفہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہی اس لیے کہ ہم خود کو اس آئینے میں دیکھ سکیں۔  اپنے عشق و محبت کو انکے عشق و محبت کی کسوٹی پر پرکھ سکیں۔  اپنی ناموسِ رسالت کو انکی ناموسِ رسالت  ﷺ  کے تشخص کے سانچے میں رکھ کر مشاہدہ کر سکیں،  کیونکہ خدا کا یہی حکم ہے۔ ” لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ “۔

کیا ہم یہ معاذاللہ تصور کرنے کا بھی تصور کر سکتے ہیں کہ۔۔ثمامہ کا سر پھٹا ہوتا وہ قریب المرگ ہوتا اور اسے اور مار مار کر کہا جا رہا ہوتا کہ،لبیک یا رسول اللہ؟؟۔جب نہیں ،یقیناً  کسی طور نہیں تو ۔۔تو یہاں اپنے ہی ملک کے کلمہ گو مسلمان محافظ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ایسا کیوں۔ ؟کیا ہم اسے ممکنات میں سے محض ایک ادنیٰ  درجے کی ممکنات میں سے  بھی تصور کر سکتے ہیں۔کافروں ،مشرکوں کی املاک جلائی جارہی ہیں، توڑ پھوڑ ہورہی ہے اور ساتھ رحمت للعالمین  کے نعرے لگ رہے ہیں۔ لازماً  نہیں تو پھر انکے نام پر بننے والی دھرتی میں کیسے ؟ ۔کیا ہم میں سے کوئی چشمِ تصور سے اس منظر کو دیکھنے کا سوچ بھی سکتا ہے۔؟ عین کفرو اسلام کی جنگ کے ہنگام عام لوگوں نہتوں بزرگوں اور بچوں کو تکلیف نہ دینے کا حکم دینے والے قابلِ تقلید پیغمبر معاذاللہ رستے بند کر کے عام لوگوں کو دیہاڑی داروں کو بیماروں کو طالب علموں کو عورتوں بچوں بزرگوں کو کئی کئی دن تک نا حق اذیت دیں۔  لا ریب نہیں۔ ۔ تو پھر یہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیا ایسے اسلام کی خدمت ہو پائے گی ۔ ؟ اور رسول اللہﷺ  کے بارے تو مسلمان ذہنیت کی استعداد ہی اجازت دینے سے قاصر ہے انکے کسی عاشق کسی صحابی کسی پیروکار کسی بھی ساتھی سے ہی اس طرح کی توقع کی جا سکے کہ وہ ناموسِ رسالت ﷺ  کو ڈھال بنا کر اپنے ذاتی اور سیاسی اغراض و مقاصد پورے کرے۔  کسی طور نہیں، تو سر زمین پاکستان پر ہماری ان آنکھوں نے کیا دیکھا؟ ۔مذہب کا ذاتی مفادات کے لئے استعمال تو کوئی نئی بات نہیں لیکن  دل خون کے آنسو روتا ہے ،دستِ قلم کانپنے لگتا ہے، آنکھوں میں در آنے والی نمی سے موبائل کی سکرین دھندلا جاتی ہے  یہ لکھتے کہ اوپر بیان کردہ عزت و ناموس کے فلسفے کے مطابق کائنات میں خدا کے بعد سب سے بڑی ناموس،ناموسِ رحمت للعالمین کی پہلے مسلمانوں ہی کے قتل و غارت ،ظلم و ستم ،جبرو استبداد اور انتشار کے ذریعے خلاف ورزی کرنا اور پھر ستم در ستم کہ آخر میں یہ پتا چلنا کہ ناموسِ رسالت ﷺ کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا ،اپنی سیاست کا چولہا جلانے کے لیے، اس سے بڑی توہینِ رحمت للعالمین اور کیا ہو گی؟۔ اس سے زیادہ ناموسِ رسالت کی خلاف ورزی اور کیا ہو گی۔ ؟

ہمیں یہ سوال خود سے جیتے جی پوچھ لینا چاہیے ،ورنہ خدا نے تو پوچھنا ہی ہے ۔قابلِ مذمت خاکے بنانے والوں سے تو علیحدہ سے ناموسِ رحمت للعالمینﷺ  کے بارے میں شاید سوال ہو ہی نہ۔ ۔ لیکن ہم انکے امتیوں سے ضرور پوچھا جائے گا ہم نے عشق و محبت رحمت للعالمین سے کیوں نہیں سیکھے؟ جو خدا کے حبیب تھے۔۔۔خدا کو ان سے محبت تھی اور انہیں خدا سے۔
رب العالمین سے جن کے عشق و محبت کا ثبوت رحمت للعالمین ہونا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر! بہت سے جھوٹوں کی طرح ایک اور جھوٹ سنتے سنتے پیارے پاکستان سے آدھی عمر طالب علم کی بھی ہو گئی کہ “خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا”۔  پاکستان بننے سے لے کر آج تک تیسری نسل کا خون ہے جو رائیگاں جا رہا ہے،بے دردی سے مار دیے گئے پولیس والوں کی خدا مغفرت کرے ۔ہاں ہر خون کا بدلہ روزِ انصاف ضرور لیا جائے،کیونکہ وہاں قصاص میں زندگی رکھنے والے خدا کا فیصلہ ہو گا کسی ایسے ملاں صاحب کا نہیں جن کے بقول یہ قضیہ جنگِ جمل کے مترادف تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply