شیخ نتھو کا اقبال۔۔محسن علی خان

یہ تیسرا بچہ تھا، جو پیدائش کے کچھ دنوں بعد پہلے دو بچوں کی طرح وفات پا گیا۔ جس مالک کی عطا تھی اسی نے واپس بلا لیا، انسان کیا کر سکتا ہے، مایوس نہیں ہونا چاہیے، رشتہ داروں نے تسلی دی۔ اگلے برس پھر چاند سا بیٹا ہوا۔ پھر وفات پا گیا۔ پانچویں کی پیدائش ہوئی تو خوشی بھی تھی اور وہی ڈر جو پہلے چار بیٹوں نے دل میں بسا دیا تھا۔ کچھ دن گزر گئے تو چہروں پر خوشی آنی شروع ہوئی۔ یہ بچ جاۓ بس یہی دعا تھی سب کی۔ لیکن سب دُعائیں قبول تو نہیں ہونی اس دنیا میں، کچھ آخرت میں حساب کے لئے بھی رکھی جاتی ہیں۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پانچواں بیٹا بھی واپس آسمان پر چلا گیا۔ چھٹا بیٹا پیدا ہوتے ہی واپس جانے کی جلدی میں تھا۔ ساتواں کچھ دن آنکھیں آسمان کی طرف کر کے ہنستا رہا۔ پھر اپنے چھ بھائیوں کے ساتھ کھیلنے آسمان پر چلا گیا۔ آٹھواں، نواں، دسواں بیٹا بھی صرف اپنا چہرہ دکھانے کے لئے آۓ اور چلے گئے۔

آج پھر اداسی کا دن تھا، آج پھر بیٹا ہوا تھا، مالک تو بیٹی ہی دے دیتا، کیا پتہ وہ بچ جاتی، تو نے پھر بیٹا دے دیا۔ رشتہ دار اکھٹے ہوۓ، انتظار کرنے لگے۔ پھر باپ نے بچہ گود میں اُٹھایا اور دفنانے چل نکلے۔ لگاتار گیارہ بیٹوں کی وفات ہوئی۔ تمام منتیں مرادیں بھی ختم ہو گئیں۔ اب دُعا کے لئے الفاظ بھی نہیں ملتے تھے۔ ایک آخری منت تھی وہ بھی مانگ لی، اس بار بیٹی چاہیے۔

مبارک ہو، ایک اور بیٹا ہوا ہے۔ گھر میں یہ سنتے ہی سکتہ طاری ہو گیا۔ بچے نے آسمان کی طرف دیکھا، ماں ڈر سے سہم گئی۔سب گھر والوں نے بھی نظر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا کہ ابھی گیارہ بھائی آئیں گے اور اس کو بھی لے جائیں گے۔ ماں نے فوراً اپنے بیٹے کی ناک میں نتھ پہنا دی۔ یہ تو لڑکی ہے۔ ماں نے بلند آواز میں کہا۔ تاکہ بدی کی طاقتیں لڑکی سمجھ کر جان بخشی کر دیں۔ نظر بد سے بچ جاۓ۔ اگر کوئی کالا جادو ہے تو اس بار اس کا وار نہ چل سکے۔

مدینے والے کا صدقہ ہے اس لئے نام نُور محمد رکھا ہے۔ والد نے کہا۔ نتھ کتنی خوبصورت لگ رہی ہے، یہ تو میرا شیخ نتھو ہے ماں نے کہا۔ عرش والا اس کی لمبی زندگی کرے، اس کا اقبال بُلند ہو۔

اس بار سب دُعائیں قبول ہوئیں، بارہویں بیٹے شیخ نُور محمد نے لمبی زندگی پائی اور اپنی والدہ کی دُعا کے مطابق اقبال بُلند ہوا۔ اور پوری دنیا میں آج بھی جگمگا رہا ہے۔ شیخ نتھو کا اقبال۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال۔

اقبال کے چاہنے والوں میں ایک حجازی عرب تھے۔ وہ ایک خوش الحان قاری تھے، وہ جب بھی آتے تو اقبال ان سے قرآن کی تلاوت کی فرمائش کرتے۔ وہ پڑھتے جاتے اور اقبال کی آنکھوں سے موتی گرتے رہتے۔ جب تلاوت ختم ہوتی تو تکیہ آنسوؤں سے تر ہوتا۔ عشق نبی ﷺ میں اس قدر ڈوبے ہوۓ تھے کہ آپ ﷺ کا نام سُنتے ہی آنکھیں بھر آیا کرتی تھیں۔ ایک بار اپنے بیٹے جاوید اقبال سے مسدس حالی پڑھنے کو کہا۔ جب جاوید اقبال اس بند پر پہنچے
” وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ”
تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے۔ اسی طرح جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت میں اقبال کی جزیرہ عرب سے محبت کے بارے میں ایک واقعہ لکھا ہے۔

اپنے بحری سفر کے دوران والد بوجہ قرنطینہ اور گرمی عدن کی سیر نہ کر سکے تھے، لیکن ساحل عرب سے قربت کے تصور نے جہاز میں بیٹھے ہوۓ جو ذوق و شوق اس وقت ان کے دل میں پیدا کر دیا تھا۔

” اے عرب کی مقدس سر زمین! تجھ کو مبارک ہو، تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا فُسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ اے پاک سر زمین! تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے ساۓ نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازتِ آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذرّوں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحراؤں میں لُٹ جاؤں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دُھوپ میں جلتا ہوا اور پاؤں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا، اس پاک سرزمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں اذان بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اقبال کا خواب صرف ایک خطہ کے باسیوں کے لئے نہیں تھا۔ امت کے اتحاد کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی خوشبو پوری دنیا میں پہنچی۔ یہ خوبصورت ستارہ ۹ نومبر کو طلوع ہو کر تاقیامت آسمان پر جگمگاتا رہے گا۔
؎ حرز جاں کن گفتئہ خیرالبشر
ہست شیطاں از جماعت دور تر
(رسول اللہ ﷺ کے اس قول کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھو کہ شیطان تنہا شخص کو آسانی سے مغلوب کر لیتا ہے مگر جماعت سے ہمیشہ دُور بھاگتا ہے۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply