کوئی مقدس گائےنہیں، حکم دیں ایکشن لیں گے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے سانحہ اے پی ایس کیس کے ذمہ داروں اور غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس قاضی امین بینچ میں شامل ہیں۔

وزیراعظم عمران خان عدالتی حکم پرسپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔

عدالت نے استفسار کیا جی بتائیں خان صاحب، اب تک کیا کارروائی ہوئی؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول بہت دردناک تھا، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا۔

سال2014 میں جب سانحہ ہوا خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کیخلاف کارروائی ہو۔

وزیراعظم نے جواب دیا کہ والدین نے جن کا نام دیا کوئی مقدس گائے نہیں۔آپ حکم کریں ایکشن لیں گے۔

ججز نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارے وزیراعظم ہیں، ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں۔

عدالت نے کہا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے کیا کیا؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں؟

اس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت شہدا کے والدین کا موقف بھی سنے، جس کی بھی غفلت ثابت ہو اس کیخلاف کارروائی کی جائے، تعین کیا جائے کہ کس کی کیا کوتاہی تھی، حکومت دو ہفتوں کے اندر رپورٹ جمع کروائے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے مزید وقت کی استدعا کی جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول کرتے ہوئے وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ چار ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے آئین کی کتاب اٹھالی اور ریمارکس دیئے کہ یہ آئین کی کتاب ہے اور ہر شہری کو سکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشرف دور میں مخالفت کی تھی کہ امریکی جنگ میں نہیں کودنا چاہیئے، ہم نے 80 ہزار جانوں کی قربانیاں دی ہیں، اے پی ایس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، عوام شدید صدمہ میں تھی، عوام دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کے پشت پر کھڑی تھی۔

آج جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ بتائیں کیا وزیراعظم نے گزشتہ سماعت کا عدالتی حکم پڑھا ہے یا نہیں؟

گزشتہ سماعت میں عدالت نے وزیراعظم کو حکم دیا تھا کہ بتائیں سینئرز اور اعلیٰ عہدیداروں کیخلاف کیا کارروائی کی گئی؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے۔ایسے نہیں چلے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں۔ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ میں دفتر چھوڑ دونگا کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا قبائلی علاقوں میں آپریشن کا رد عمل آئے گا۔ سب سے نازک اور آسان ہدف اسکول کے بچے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ اے پی ایس واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی۔ یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے، چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کرچلتے بنے۔ کیس میں رہ جانے والے معاملات پر آپ نے آگاہ کرنا تھا۔

وکیل والدین امان اللہ کنرانی نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مزاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں۔ ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ہے یہاں سیاسی باتیں نہ کریں۔

چیف جسٹس نےکہا ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے۔ دعوی بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ انٹیلیجنس پر اتنا خرچ ہورہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کیخلاف مقدمہ درج ہوا؟

اٹارنی جنرل نے بتایا سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت چار ہفتوں کیلئے ملتوی شروع کر دی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ ہم نیوز

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply