تعمیری ادب پر کانفرنس۔۔آغرؔ ندیم سحر  

میں اس وقت جب یہ کالم لکھنے میں مصروف ہوں‘منڈی بہاء الدین(پھالیہ) میں ”تعمیری ادب“پر دو روزہ”قومی اہلِ قلم کانفرنس“ جاری ہے جس میں ملک بھر سے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں اور دانشوروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ کانفرنس میں شریک مندوبین ”تعمیری ادب“کے بارے اپنے تجربات اورتجاویز پیش کریں گے‘کانفرنس کا مقصد شاعروں اور ادیبوں کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ حقیقی ادب وہی ہے جو ”ادب برائے زندگی“کے نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا۔کسی زمانے میں اس بحث کو اسلامی ادب بھی کہا جاتا رہا‘بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلامی ادب ہی تعمیری ادب ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ لادینیت کی یلغار کے سامنے اسلامی اقدار پر نوجوانوں کی تعمیر و تشکیل کی جائے۔نئی نسل میڈیائی‘مغربی اور ڈرامائی یلغار سے باہر نکل کر سوچنے کی تبلیغ کی جائے‘اس دنیا سے متعارف کروایا جائے جو مشرقی تہذیب و ثقافت کی حامی ہو۔اس کانفرنس کا مقصد واضح ہے کہ ہم فکر و عمل اور ماضی کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں‘حال پر نظر رکھیں اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں۔اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں اسلام بیداری کی ایک لہر چلی ہے‘ہر کوئی اسلام کے بارے بنیادی معلومات اکٹھی کرنے میں مصروف ہے‘ایسے میں ادیبوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح و ترقی میں اپنا منفرد کردار ادا کریں اور ایسا ادب تخلیق کریں جو جمالیاتی سطح پر بھی کارآمد ہوں اور جس میں مشرقی اقدار و روایات کا بول بالا ہو۔

ہمارا ادب اپنی ابتداء سے ہی دینی شعور اور اخلاقی ضوابط کا حامل رہا ہے۔ڈپٹی نذیر احمد‘راشد الخیری‘سرسید احمد خان‘آزاد‘شبلی و حالی‘داغ و اقبال اور حسرت و جگر کے یہاں گہرے فنی شعور کے ساتھ اخلاقی و دینی اصولوں کی تبلیغ بھی نظر آتی ہے۔اگرچہ اس دور کے ادب کواصطلاح میں ”تعمیری ادب“تو نہیں کہا جاتا تاہم وہ تخریبی‘خدا بیزار‘غیر اخلاقی اور لامرکزی قسم کا ادب نہیں ہے۔اب یہاں سوال ہے کہ کیا ادبی تحریکات یا رجحانات میں کوئی ایسی تحریک بھی رہی ہے جسے تعمیری کی بجائے تخریبی ادب کے نام سے پکارا جا سکتا ہے؟اس حوالے سے راقم کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ اردو میں سرسید تحریک‘ادب لطیف‘ترقی پسند تحریک‘اصلاح پسندی کی تحریک‘ جدیدیت اور اس نوع کی بعض اور تحریکات یا رجحانات کو ہم آسانی سے”غیر تعمیری ادبی تحریک“ کا نام نہیں دے سکتے۔ہر تحریک کے محرک اور ہر رجحان کے رجحان ساز کی نظر میں اپنی تحریک یا اپنے ترجحان کے متعلق کوئی نہ کوئی مثبت جواز ضرور رہا ہے اور یہی جواز ادبی تحریکوں کے فروغ یا ان تحریکات سے لکھنے والوں کی وابستگی کی گنجائش یا امکان پیدا کرتا رہا ہے۔جن لوگوں کو”نقوش“ اور بعض دوسرے موقرادبی جرائد میں چھپنے والوں وہ بحثیں یاد ہیں جو پاکستانی ادب‘اسلامی ادب اور تعمیری ادب کے حوالے سے اٹھائی جاتی رہی ہیں‘ ان لوگوں کے دل و دماغ میں اتنی وسعت ضرور ہوگی کہ وہ اپنے نقطہ نظر سے اتفاق یا اختلاف کی پرواکیے بغیر تعمیری ادبی تحریک کا پس منظر رکھنے والے مضامین کا مطالعہ سنجیدگی سے کریں۔

تعمیر ی ادب کی بات کرتے ہوئے دھیان ترقی پسند ادب کی طرف جاتا ہے یا اسلامی ادب کی طرف‘ترقی پسند تحریک سے وابستہ دانشور بھی اس بات پر زور دیتے رہے کہ جو ادب ہماری مشرقی اقدار و روایات سے خالی ہے‘جس کے اثرات مثبت کی بجائے منفی پڑ رہے ہیں‘ایسے ادب سے کنارہ ہی بہتر ہے۔ایسا ادب کس کام کا جس کے ذریعے ہم آنے والوں نسلوں کی تربیت اور ذہن سازی نہ کر سکیں‘ادب محض لفظوں کی جگالی تو نہیں ہو سکتا۔ایسا ادب جو ہماری زندگی کا حاطہ نہیں کر سکتے‘جو ہمارے مسائل نہیں بیان کر سکتا‘جس ادب کو ہماری بھوک اور معاشی‘نسلی اور ذہنی غلامی سے کوئی واسطہ نہیں‘اسے ادب نہیں کہا جا سکتا۔یہی وہ دور تھا جب ایک طرف ”ادب برائے زندگی“کی بحث جاری تھی دوسری طرف ”ادب برائے ادب“کی‘دوسرے طبقے کے نقطہ نظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھاکیونکہ ایسا ادب جو پابندیوں میں لکھا جائے‘اسے ادب نہیں کہا جا سکتا‘جینوئن ادیب پر کسی طرح کی پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ ایسے اصولوں پر ادب تخلیق کرے،بلکہ ادیب اور قلم کار تو آزاد ہوتا ہے‘اسے اختیار ہے کہ وہ جو محسوس کرے‘دیکھے‘سوچے بس وہی لکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے خوشی ہے کہ ایک طویل عرصے بعد یہ دبی ہوئی بحث دوبارہ شروع ہوئی اور میرے رائٹسٹ ونگ کے دوست اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کے لیے پھالیہ میں (غزالی ہاؤس) اکٹھے ہوئے۔مجھے مزید خوشی ہوتی اگراس کانفرنس میں مندوبین کی فہرست سازی میں یہ شرط نہ رکھی جاتی کہ صرف دائیں بازو کے لکھاری شریک ہوں۔ہمیں بائیں بازو کے لکھاریوں اور دانشوروں کی کے اعتراضات بھی سننے چاہیں تاکہ جہاں ضرورت ہو‘ہم اپنی بھی اصلاح کر سکیں۔دونوں طرف کے دانشور مل بیٹھتے تو زیادہ اچھے اور پرمغز مقالات سننے کو ملتے۔میں محمد ضیغم مغیرہ‘ڈاکٹر انیس احمد‘احمد حاطب صدیقی اور ڈاکٹر افتخار کھوکھرکو مباک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے دوسری دفعہ ایک کامیاب کانفرنس کا انعقاد کیا اور اہلِ شہر سمیت ملک بھر سے لکھنے والوں کو ایک ایسے موضوع پر سوچنے کی دعوت دی‘جس کے بارے ہمارے تخلیق کار سوچنا چھوڑ چکے۔کانفرنس میں کل آٹھ سیشنز تھے جس میں تیس سے زائد اسکالرز نے گفتگو کی اور کئی نئے پہلوؤں پر سوچنے کی دعوت دی۔امید ہے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply