خوابوں کی دنیا(1)۔۔ابو جون رضا

ہر شخص خواب دیکھتا ہے۔ لوگ جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ کچھ خواب دکھائے جاتے ہیں جن کی تعبیر سیاست دانوں کو ووٹ کی شکل میں ملتی ہے۔ عوام جتنا خواب خرگوش کے مزے لے اتنا ہی سیاست دانوں کے مستقبل کے لیے معاملات سود مند ثابت ہوتے ہیں۔

خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو

خواب ذہنی فعل کا نام ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کا خیال ہے کہ خواب مستقبل سے آگاہ نہیں کرتے بلکہ انسان کی ناآسودہ خواہشات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ یہ ناآسودہ خواہشات ہی ہیں جن کو خواب میں انسان پورا ہوتے دیکھتا ہے۔

خواب دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک خواب کا تعلق انفرادی طور پر انسان کی شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے۔ جس میں ذاتی زندگی کا کوئی پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

ایک خواب اجتماعی نوعیت کا خواب ہے۔ جس کا تعلق بعض اوقات معاشرے سے ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے حضرت یوسف کے زندان میں قید کے دور میں مصر کے بادشاہ کے خواب کا ذکر کیا ہے۔ جس نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔حضرت یوسف علیہ السّلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی فراوانی خوب ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ایک دانہ بھی باہر سے نہیں آئے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا ہو گا۔

(سورۃ یوسف – آیت نمبر 43)

یہ مستقبل کی پیش بینی تھی جو حضرت یوسف کی زبان سے جاری ہوئی اور بادشاہ کا تعلق کیونکہ معاشرے سے اور رعایا سے تھا تو اس کو تمثیل کے ذریعے مستقبل کی آفت سے خبردار کیا گیا تھا۔ گائے قدیم دور میں سال کی علامت سمجھی جاتی تھی اور اس کے فربہ ہونے سے مراد خوشحالی کے سال تھے۔ جبکہ سات سوکھی گائیں سختی اور قحط کے سالوں کی آمد کی طرف اشارہ کر رہی تھیں اور ان سالوں کا تعلق سات ہری بالیوں اور پھر سات سوکھی بالیوں سے لطیف انداز میں کیا گیا تھا۔ یعنی پہلے سات سال غلہ کی فروانی ہوگی اور اس بعد کے سات سال قحط کی وجہ سے پیداوار ناپید ہوگی۔ یہ تعبیر اتنی منطقی تھی کہ بادشاہ نے فورا اس کو قبول کیا۔

قدیم انسان خوابوں کو اشارات سمجھا کرتا تھا مگر آج سائنس یہ بتاتی ہے کہ بہت سے خواب طبعی وجوہات کا نتیجہ ہوتے ہیں جن میں سوتے وقت جسمانی حالت کا پُرسکون نہ ہونا یا پیٹ بھر کر کھانا کھا کر فوراً  سوجانا، بدخوابی کی وجہ ہوسکتا ہے۔

بعض ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ لاشعوری طور پر ہم اپنے آبا و اجداد کی طرح سوچتے ہیں اور ممکن ہے کہ ہمارے والدین کی ذہنی نفسیات میں بیٹھا ہوا کوئی پرانا خوف موروثی طور پر ہمیں منتقل ہوا ہو اور ہم ایسے خواب بار بار دیکھتے ہوں جن کا ہماری ظاہری زندگی سے کوئی تعلق نہ ہوتا ہو۔

بعض اوقات ذہن میں بیٹھا ہوا کوئی خوف بھی خواب میں حقیقت کا روپ دھارتا ہوا نظر آتا ہے جیسے ہماری یہاں کی خواتین خواب میں اپنے شوہروں کی دوسری شادی ہوتے بہت دیکھتی ہیں۔ اب یہ پتا نہیں حقیقت میں کوئی خوف ہوتا ہے جو ان کے ذہن کے نہاں خانوں میں موجود ہوتا ہے یا پھر وہ برابر میں سوئے ہوئے شوہر کے دماغ سے کنیکشن جوڑ لیتی ہیں جو مزے سے دوسری شادی کے سہانے سپنے دیکھ رہا ہوتا ہے۔

چینی لوگوں کا کسی ملاپ اور بڑی فرحت انگیز ملاقات کے بعد عام مقولہ ہوتا ہے کہ ” اچھا جناب، بہت بڑا جشن جس کا پنڈال سینکڑوں میل میں پھیلا ہوتا ہو، اس کا انجام اور اس کی انتہاء بھی کہیں نہ کہیں ضرور ہوتی ہے”۔

گویا زندگی کا یہ جشن سوتے جاگتے کا جشن خواب ہے اور شاید یہی اس کا اصل حسن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوذ  جو جاگے ہیں خواب میں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply