میثاقِ معیشت کی ضرورت۔۔محمد اسد شاہ

میثاقِ معیشت کی ضرورت۔۔محمد اسد شاہ/مہنگائی ہمارے ملک میں یوں تو ہمیشہ بڑھتی ہی ہے، لیکن جس رفتار سے موجودہ حکومت میں مہنگائی نے چھلانگیں لگائی ہیں ، یہ بے مثال بھی ہے اور خوف ناک بھی ۔ ایک انوکھی روایت یہ بھی قائم ہوئی کہ تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد تین سال تک تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اصافہ نہیں ہوا ۔ چوتھے سال کے آغاز میں معمولی اضافہ کیا گیا ۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں مہنگائی میں جس قدر خوف ناک اضافہ ہوا ، اور یہ سلسلہ ہنوذ  جس طرح جاری ہے ، اس کے مقابل تنخواہوں میں اضافے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی کے لیے زندگی ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے ۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں تین سو فی صد تک بڑھانے کے بعد چوتھے سال میں آ کر تنخواہوں میں دس فیصد اضافے (اور پچیس فیصد عارضی الاؤنس) نے سرکاری ملازمین کو کیا راحت پہنچائی ہو گی ۔ گزشتہ تین سال ایک عام آدمی نے کس طرح کاٹے ہیں ، کسی شاعر نے کہا تھا؛
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے ۔

اگر آپ اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو گزشتہ تین سالوں میں خود کشیوں کی خبروں کی تعداد آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی ۔ افراد نہیں ، بلکہ پورے پورے گھرانوں نے اجتماعی خودکشیاں کیں ۔ مثلاً فیصل آباد میں ایک مزدور اور اس کی بیوی اپنے چار بچوں کو لے کر نہر کے کنارے پہنچے ۔ انھوں نے باری باری اپنے بچوں کو نہر میں پھینکا اور پھر خود بھی نہر میں کود گئے ۔ ہوا یہ کہ وہ گھرانہ کئی دنوں سے پیٹ بھر کھانا بھی نہ کھا سکا تھا ۔ ننھی بچی کے لیے ماں کی چھاتیوں میں دودھ تک نہ رہا ۔ اوپر سے مالک مکان گزشتہ چار ماہ کا کرایہ مانگ رہا تھا اور آئندہ ماہ سے کرایہ بڑھانے کا تقاضا بھی کر رہا تھا ۔

یہ ایک نہیں ، بلکہ اس طرح کی بہت سی خبریں گزشتہ تین سالوں کے اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں ۔ یہ خبریں پورے معاشرے ، بلکہ پورے نظام کے منہ پر طمانچہ ہیں ۔ سرکاری ملازمین کا حال بھی تقریباً ایسا ہی ہے ۔ نجی اداروں اور کمپنیوں کے ملازمین کا تو ویسے بھی کوئی پرسان حال نہیں ۔ ڈھور ڈنگروں کی طرح ان کے افسران اور مالکان ان سے کام لیتے ہیں اور تنخواہ بھی معمولی ۔
اس مہنگائی کا احساس مڈل کلاس تک کے ہر فرد اور گھر کے ہر بچے کو ہے ۔ لیکن متمول طبقہ جب تک اس پریشانی کو محسوس نہیں کرے گا ، اس کا مداوا مشکل ہے ۔ حکومت خود بھی کبھی کبھار اس مہنگائی کے وجود کو تسلیم کرتی ہے ۔ میں نے “کبھی کبھار” کے الفاظ اس لیے استعمال کیے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم ایک دن تو مہنگائی پر فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں اور اگلے ہی دن فخر سے بتاتے ہیں کہ “پاکستان سستا ترین ملک ہے۔” کبھی کہتے ہیں؛ “پاکستان میں مہنگائی دنیا میں سب سے کم ہے ۔” جب کہ اعداد و شمار اور ٹھوس حقائق وزیراعظم کے ان دعوؤں  کی مکمل نفی کرتے ہیں ۔ پاکستان مہنگائی کے اعتبار سے اس وقت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے ۔ یعنی صرف تین ممالک ایسے ہیں جہاں مہنگائی پاکستان سے زیادہ ہے ۔ یہ ممالک جنگوں سے تباہ حال افغانستان ، شام اور لبنان ہیں ۔ جب کہ دنیا بھر کے باقی تمام ممالک پاکستان کی نسبت سستے ہیں ۔ مہنگائی کی پیمائش کے لیے موجودہ وزیراعظم نے صرف پٹرول کی قیمت کو بنیاد بنا کر دعوے کیے ۔ جب کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پٹرول کی قیمت کے مقابل عوام کی فی کس آمدنی کتنی ہے ۔ فی کس آمدنی جتنی کم ہو گی ، مہنگائی اس قدر زیادہ تکلیف دہ ہو گی ۔

چنانچہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستان کے پڑوسی ممالک میں صرف افغانستان کے حالات مشکل ہیں اور اس کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ گزشتہ چالیس سالہ جنگیں اور قتل و غارت کے اثرات ہیں اور دوسرا امریکہ نے افغان حکومت کے اثاثے قبضہ کر رکھے ہیں ۔ ورنہ ہمارے پڑوس میں چین، بھارت ، ایران ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، نیپال تک میں فی کس آمدنی ہمارے ملک کی نسبت بہتر ہے ۔ اور ان میں مہنگائی کی وہ صورت نہیں جو ہمارے ہاں ہے ۔ اسی طرح کووڈ کے بعد بھی یورپ ، امریکا ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، اٹلی ، مصر ، ترکی ، فرانس ، جرمنی ، جاپان سمیت دنیا بھر کے ممالک پاکستان کی نسبت بہت سستے ہیں ۔ موجودہ وزیراعظم اور ان کے وزراء کووڈ کو بھی مہنگائی کی ایک وجہ ظاہر کرتے ہیں ۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انھیں کووڈ کے نام پر دنیا بھر سے جو اربوں ڈالرز کی امداد ملی وہ کہاں گئی ۔

اسی طرح وزیراعظم نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عالمی سطح پر ہؤا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت 4 ڈالر فی بیرل کم ہو گئی ہے ۔ اسی طرح برنٹ آئل مارکیٹ میں تیل کی قیمت 80.54 ڈالر فی بیرل ہے ۔ ڈبلیو ٹی آئی منڈی میں خام تیل کی قیمت 78.81 ڈالر فی بیرل ہے۔ویسے وزیراعظم کے دعوؤں  کے بھی کہا کہنے ۔ ان کے مطابق شروع میں مہنگائی  سابقہ حکومتوں کی وجہ سے تھی ۔ پھر وہ بتاتے رہے کہ مہنگائی  کسی مافیا کی وجہ سے ہوئی ۔پھر یہ بتایا کہ مہنگائی  کرونا کی وجہ سے ہوئی ۔ کرونا کم ہوا تو دعویٰ کیا کہ مہنگائی  تو ہے ہی نہیں اور پاکستان تو دنیا کا سستا ترین ملک ہے ۔ اب دعویٰ ہے کہ عالمی صورت حال کے پیشِ نظر مہنگائی ہے ۔

افسوس ناک صورت یہ بھی ہے کہ عوامی سیاسی جماعتوں میں بھی اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہو رہا ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز ، پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن ، پختون خوا  ملی عوامی پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، ق لیگ اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کے ہاں بھی اب تک کوئی ایسا اجلاس سننے میں نہیں آیا جس میں معاشی ماہرین نے مہنگائی کی اس خوف ناک لہر کا تجزیہ کیا ہو یا اس کے تدارک کے لیے کوئی تجاویز سوچی ہوں ۔ ایک دو بار یہ خبریں پڑھیں کہ لندن میں سابق وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار اور مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کے مابین ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں ملکی معاشی حالات پر گفتگو ہوئی اور اس کے بعد ڈار صاحب نے اخبارات کو ایک تفصیلی مضمون بھجوایا جو بعض قومی اخبارات میں شائع بھی ہوا ۔ عوام مہنگائی کے اس عفریت سے نجات پانے کے لیے کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر کیا وجہ ہے کہ محترمہ مریم نواز ، مولانا فضل الرحمٰن یا بلاول زرداری اس معاملے پر کھل کر کوئی تحریک چلانے اور عوامی بیداری کے لیے آگے نہیں آ رہے ۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے قائد چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو مدت پوری کرنے کا پورا موقع دیا جائے ، تا کہ خان صاحب کو مسیحا بنا کر پیش کرنے والوں کے پاس مظلوم بننے کا کوئی جواز نہ رہے ۔ لیکن عوام کو مہنگائی سے نجات کا کوئی راستہ تو دکھایا جائے ۔ ضرورت تو اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک کی خوف ناک معاشی تباہی کا جائزہ لیں ۔ اس کے تدارک کے لیے لائحہ عمل بنائیں ۔ جس طرح 2006 میں میاں صاحب ، بے نظیر بھٹو اور بعض دیگر قائدین نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے ، اسی طرح اب ایک “میثاقِ معیشت” بھی کیا جائے ۔ موجودہ حکومت میں شامل بعض اہم شخصیات اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کو قطعاً تیار نہیں ، کیوں کہ ان کی تربیت میں جمہوری رویوں کا شدید فقدان ہے ۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کو خود مل بیٹھنے سے کس نے روک رکھا ہے ! اگر اب بھی میثاقِ معیشت نہیں ہو گا ، تو خدانخواستہ ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply