جس طرح زندگی ایک قوت ہے جس کے ذریعے جسم حسی و اختیاری حرکات کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اسی طرح سے عقل بھی ایک فطری قوت ہے جس کے ذریعے جسم اشیاء کے ادراک کے لیے تیار ہوتا ہے۔
جانور اپنی سوچ کی کمی کی وجہ سے عقل سے شرماتے ہیں سب سے بڑے جسم والا جانور بھی جب انسان کو دیکھ لیتا ہے تو وہ گھبرا کر بھاگ جاتا ہے کیونکہ انسان کے پاس فطری قوتِ عقل ہے جو اس جانور پر قابو پالے گا۔عام انسان کی نظر میں وہ شخص عقل مند مانا جاتا ہے جو ان کی عقل کے مخالف ( یعنی جس کا گمان نہ ہو ) کوئی کام کریں ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فطری قوت ( یعنی عقل) میں برابر کا حصہ دیا گیا ہے پر کچھ لوگ اس پر زیادہ قابو پانے کی وجہ سے دوسرے لوگوں میں اپنے قول و فعل اور عمل سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔
احادیث میں بھی عقل کی اہمیت کا ذکر مختلف انداز میں ملتا ہے ، درج ذیل ہیں۔
حدیث کا مفہوم ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ،اسے دین کا فہم عطا فرمادیتا ہے۔
ہم سب کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو اگر ہم اپنے اسی مضمون سے وفا کریں یعنی جیسا اس مضمون کو پڑھنے کا حق ہے ایسا ہی پڑھیں تو ہی مضمون ہمیں کامیابیوں کے قریب کر دے گا، باقی اور مضمون بھی اپنی مثال آپ ہے مگر ایک انسان کو اس کا دین مکمل کرتا ہے ۔
حدیث کا مفہوم ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
دو آدمیوں کے سوا کسی پر رشک کرنا جائز نہیں ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ اسے حق کے راستے میں خرچ کرتا ہو اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے دانائی عطا فرمائی اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور اسے لوگوں کو سکھاتا ہو۔
جو لوگ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں مگر جو شخص اللہ کی راہ میں جو کچھ دیتا ہے وہ خود اپنی حالت پر غور کریں کہ وہ اپنے نیک افعال میں خاص رب العالمین کی رضا چاہتا ہے؟ یا نیک افعال میں لوگوں کی رضا مراد ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں