امام محمد باقر علیہ السلام(2،آخری قسط)۔۔شبیر

 

علمی تحریک

سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور تفسیر قرآن کے سلسلہ میں نقل حدیث کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علما میں سے شہاب زہری، مکحول، ہشام بن عروہ وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں خوارج، مرجئہ، کیسانیہ اور غالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
امام باقرؑ نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادقؑ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور علم دین، سنت، علوم قرآن سیرت اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ امام حسن اور امام حسین کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔[28]
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف اذان، تقیہ، نماز میت وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقرؑ کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک شیعیان آل رسولؐ کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ فقہ، تفسیر اور اخلاق پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔[29]
امام باقرؑ نے اصحاب قیاس کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔[30] اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیتؑ کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا: “خوارج نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔[31]
امام باقرؑ کی علمی شہرت ـ نہ صرف حجاز میں بلکہ ـ حتی کہ عراق اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔[32]
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امامؑ کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:

تفسیر

امامؑ نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقرؑ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں بھی اشارہ کیا ہے۔ [33]
امامؑ قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ محکمات کو متشابہات اور ناسخ و منسوخ سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیتؑ کے سوا کے پاس بھی نہيں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے”۔[34]

حدیث

امام باقرؑ نے احادیث نبوی کو خاص شکل میں توجہ اور اہمیت دی تھی حتی کہ جابر بن یزید جعفی نے آپ سے رسول اللہؐ کی ستر ہزار حدیثیں نقل کی ہیں؛ جیسا کہ ابان بن تغلب اور دوسرے شاگردوں نے اس عظیم ورثے میں سے بڑے مجموعے نقل کئے ہیں۔
امامؑ نے صرف نقل حدیث اور ترویج حدیث ہی پر اکتفا نہيں کیا بلکہ اپنے اصحاب کو فہمِ حدیث اور ان کے معانی کے سمجھنے کے اہتمام کرنے کی پر بھی ترغیب دلائی ہے۔ مثلا آپ نے فرمایا ہے:

ہمارے پیروکاروں کے مراتب کو احادیث اہل بیت نقل کرنے اور ان کی معرفت و ادراک کی سطح دیکھ کر پہچانو، اور معرفت در حقیقت روایت کو پہچاننے کا نام ہے اور یہی درایۃالحدیث ہے، اور روایت کی درایت و فہم کے ذریعے مؤمن ایمان کے اعلی درجات پر فائز ہوجاتا ہے۔[35]

کلام

امام باقرؑ کے زمانے میں مناسب مواقع فراہم ہوئے، حکمرانوں کی طرف سے دباؤ اور نگرانی میں کمی آئی اور یوں مختلف عقائد و افکار کے ظاہر و نمایاں ہونے کے اسباب فراہم ہوئے اور یہی آزاد فضا بھی معاشرے میں انحرافی افکار کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔ ان حالات میں امامؑ کو درست اور حقیقی شیعہ عقائد کی تشریح، باطل عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ متعلقہ شبہات و اعتراضات کا جواب بھی دینا پڑ رہا تھا؛ چنانچہ آپؑ ان امور کے تناظر میں ہی کلامی (و اعتقادی) مباحث کا اہتمام کرتے تھے؛ “ذات پرودگار کی حقیقت کے ادراک سے عقل انسانی کی عاجزی” [36] اور “واجب الوجود کی ازلیت”[37] وغیرہ ان ہی مباحث میں سے ہیں۔

امامؑ کی دیگر مواریث بھی ہم تک پہنچی ہیں جیسے فقہی میراث[38] اور تاریخی میراث [39] وغیرہ۔

امامؑ کے مناظرات

امام باقرؑ کی علمی سرگرمیون میں مختلف موضوعات پر مختلف افراد کے ساتھ مناظرات بھی شامل تھے۔ آپ کے بعض مناظرات کی فہرست کچھ یوں ہے:

اسرائیلیات کے خلاف جدوجہد

اس زمانے میں اسلامی معاشرے کے اندر سرگرم اور معاشرتی تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے گروہوں میں سے ایک گروہ یہودیوں کا گروہ تھا۔ بعض یہودی احبار جو بظاہر مسلمان ہوگئے تھے اور بعض وہ جو اپنے دین پر ثابت قدم تھے، اسلامی معاشروں میں پھیل گئے تھے اور مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے کی علمی مرجعیت کے حامل تھے۔ یہود اور اسلامی معاشرے میں ان کے القائات اور تبلیغات کے خلاف علمی جدوجہد اور انبیاء کے بارے میں یہودیوں کی بنائی ہوئی جھوٹی حدیثوں اور انبیاء کا چہرہ مخدوش کرنے والے مسائل کی تردید امام محمد باقرؑ کی علمی تحریک میں خاص طور پر نمایاں ہے۔ یہاں ہم بعض نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

زرارہ نقل کرتے ہیں: میں امام باقرؑ کی خدمت میں بیٹھا تھا اور امامؑ نے، جو کعبہ کی طرف رخ کرکے بیٹھے تھے، کہا: “بیت اللہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے”۔ اسی حال میں عاصم بن عمر نامی شخص بھی امامؑ کے پاس آیا اور کہا: “کعب الاحبار کہتا ہے: إنّ الكعبة تَسْجُدُ لبیت المقدس فی كلِّ غَداة (ترجمہ: “کعبہ ہر صبح بیت المقدس کی طرف سجدہ کرتا ہے”۔

امام نے فرمایا: کعب الاحبار کے اس قول کے بارے میں تمہاری اپنی رائے کیا ہے؟

عاصم نے کہا: کعب کی بات صحیح ہے۔

امام باقرؑ نے فرمایا: “كذبتَ و كذبَ كعب الأحبار معك”۔ (ترجمہ: تم بھی جھوٹ بول رہے ہو اور کعب الاحبار بھی جھوٹ بول رہا ہے)۔ اس کے بعد امامؑ شدید غضب کی حالت میں فرمایا: “ما خَلَقَ اللهُ عَزَّوَجلَّ بُقْعَةً فِى الاَرْضِ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْها۔۔۔ (ترجمہ: خداوند متعال نے زمین پر کوئی بھی بقعہ (یعنی ممتاز قطعۂ ارضی) پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک اس کعبہ سے زیادہ محبوب ہو)۔[40]

اصحاب اور شاگرد

امام محمد باقرؑ کے زمانے میں معاشرے کے سیاسی حالات کچھ اس طرح سے بدل گئے کہ آپ کو ایک عظيم علمی مجمع تشکیل دینے کا موقع میسر آیا اور آپ نے شریعت کی اقدار کے پابند بے شمار عالم و دانشمند افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔
اسی بنا پر جب ہم صدر اول کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں امام باقرؑ کی علمی حیات میں آپ کے بہت سے شاگردوں اور عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیات نظر آتی ہیں۔

اس کے باوجود یہ تصور کرنا درست نہیں ہے کہ امام محمد باقرؑ کو ان رکاوٹوں اور ممانعتوں سے آسودہ خاطر تھے جو حکمرانوں کی طرف سے اہل بیتؑ پر مسلط کی جاتی رہی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام باقرؑ کی زندگی کا ماحول شدت سے تقیہ کا ماحول تھا۔ کیونکہ غیر صالح حکومتوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی معاشرتی صورت حال میں تقیہ ترک کرنا علمی فعالیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور اور دین کے اصولی معارف و تعلیمات کی ترویج سے دور رہنے، کے مترادف تھا۔

زمانے کے حالات نے امام باقرؑ نیز امام صادقؑ کو مناسب امکان فراہم کئے جو دوسرے ائمہ طاہرینؑ کو فراہم نہیں ہوئے۔ یہ مناسب حالات اموی حکومت کی بنیادیں سست ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔ اس زمانے کے سیاسی نظام کا اندرونی بحران حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں کی طرح خاندان رسالت پر دباؤ ڈالنے اور انہیں گوشہ نشینی پر مجبور کرنے کا امکان فراہم نہ تھا۔ ان مناسب حالات میں امام باقرؑ اور امام صادقؑ کو زیادہ سے زيادہ فقہی، تفسیری اور اخلاقی نظریات فقہ و حدیث کی کتب میں اپنے نفیس اور عمدہ ورثے کے طور پر چھوڑنے کا موقع ملا۔
ایسے ہی حالات میں محمد بن مسلم امام محمد باقرؑ سے 30 ہزار حدیثیں[41] نقل کرنے میں کامیاب ہوئے اور جابر جعفی جیسی شخصیت نے 70 ہزار حدیثیں نقل کیں۔[42]

شیعہ علماء کے نزدیک اسلام کے صدر اول کے فقیہ ترین فقہاء چھ افراد تھے اور وہ سب امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے؛ ان فقہاء کے نام کچھ یوں ہيں:

  1. زرارۃ ابن اعین
  2. معروف بن خربوذ
  3. ابوبصیر اَسَدی
  4. فضیل بن یسار
  5. محمد بن مسلم
  6. برید بن معاویہ عجلی۔[43]

شیخ طوسی نے اپنی کتاب اختیار معرفۃ الرجال میں تحریر کیا ہے کہ امام باقرؑ کے ان شاگردوں کی تعداد 462 تھی جنہوں نے آپ سے حدیث نقل کی ہے۔ آپ کے ان شاگردوں میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

امام محمد باقرؑ کے بعض اصحاب اور شاگردوں کی وثاقت اور اعتبار پر امامیہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے اور بعض دیگر کو اپنے گہرے شیعہ رجحانات کی بنا پر اہل سنت کے رجال میں جگہ نہيں دی گئی ہے بلکہ صرف امامیہ کے نزدیک قابل اعتماد اور ثقہ اور معتبر ہیں۔

علما کے اقوال

امام محمد باقرؑ نہ صرف شیعوں کی نظر میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اہل سنت کے نزدیک بھی بے مثل اور منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ ذیل میں بعض علما کے اقوال کے نمونے پیش کئے جارہے ہیں:

ابن حجر ہيتمي رقمطراز ہے: ابو جعفر محمد باقر،[44] نے اس قدر علوم کے پوشیدہ خزانے، احکام کے حقائق اور حکمتوں و لطائف کو آشکار کیا ہے کہ آپ کا یہ کردار سوائے بے بصیرت اور بد سگال عناصر کے، کسی پر بھی پوشیدہ نہيں رہا ہے اسی بنا پر آپ کو باقر العلم (علوم کو شقّ و شکافتہ والا)، علوم کو جمع کرنے والا اور علم و دانش کا پرچم بلند کرنے والا، کہا گیا ہے۔ آپ نے اپنی عمر طاعت رب میں گذاری اور عارفین کے مقامات و مراتب میں اس مقام پر فائز ہوئے جس کی توصیف سے بولنے والوں کی زبان قاصر ہے۔ آپ سے سلوک اور معارف میں بہت سے کلمات نقل ہوئے ہیں۔[45]

عبداللہ بن عطا عہد باقری کی نمایاں علمی شخصیت کا کہنا ہے: میں نے کہیں بھی علماء کو اس قدر چھوٹا نہيں پایا جتنا کہ میں نے انہيں ابو جعفر [امام باقرؑ] کی بارگاہ میں چھوٹا پایا۔[46]

Advertisements
julia rana solicitors london

الذہبی امام باقرؑ کے بارے میں رقمطراز ہے: ابو جعفرؑ ان شخصیات میں ہے جنہوں نے علم و عمل، سیادت آقائی اور شرف نیز وثاقت و متانت کو اپنی ذات میں یکجا کر دیا تھا اور خلافت کی اہلیت رکھتے تھے۔[47]

نوٹ

  1. اوپر جائیں مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں (بحار الأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الهداة ج 3،‌ ص 123؛ المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283۔) حضرت علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحار الأنوار ج36 ص337، (کفایۃالأثر ص 157۔) ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔

حوالہ جات

  1.  شیخ مفید، الارشاد، ص508۔ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار ج 46 ص215۔
  2.  شیخ مفید، ایضا، ص508۔
  3. ا کفایۃ الاثر، صص144-145۔
  4.  رجوع کریں، یہی مقالے میں دلائل امامت کے پاورقی حاشیہ نمبر 24۔
  5.  یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص289۔
  6. ں طبری، دلائل الامامۃ، ص216۔
  7. ا مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص345۔
  8.  اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمہ، ج2 ص133۔
  9. اوپر جائیں طبری، دلائل الإمامہ، ص۲۱۵؛ طبرسی، إعلام الورى، ج‏۱، ص۴۹۸۔
  10.  مجلسی، بحار، ج46، ص212۔
  11.  مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۸؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰۔
  12.  نوبختی، فرق الشیعۃ، ۱۴۰۴ق، ص۶۱۔ ا
  13.  ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۸۳ش، ص۲۸۶۔
  14.  یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۸ش، ج۲، ص۲۸۹۔
  15.  اخبار الدولہ عباسیہ،‌ ۱۳۹۱ق، ص۴۱۲۔
  16. اوپر جائیں مصباح کفعمی، 691۔
  17. اوپر جائیں دلائل الامامہ، ص216؛ مناقب ابن شہر آشوب ج ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply