گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(13)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

’’ کیا کہیں بیٹا، گھر میں ایک کرنے دھرنے والی تھی، وہ بھی ۔۔۔‘‘

’’ وہ تو سن چکا ہو، بابوجی ۔۔۔‘‘

’’ کیا بتاؤں، مٹرو بیٹا، ایسی لائق تھی وہ کہ اس کی یاد آتی ہے، تو کلیجہ پھٹ لگتا ہے۔ اب میں نہیں جیوںگا۔‘‘کہتے کہتے وہ رو پڑے۔

’’ بابوجی، آپ اس طرح اپنا جی ہلکا نہ کرو۔ تمہارے چرنوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں بابوجی، کہ میں گوپی کو ایسی بہو لا دوں گا، جو اکیلے ہی آپکی بڑی بہو اور چھوٹی بہو، دونوں کی جگہ بھر دے گی۔ آپ فکر نہ کریں؟‘‘

’’ لیکن گوپی تیار ہو تو، بیٹا! وہ تو ہم سے بہت ناراض ہے۔ بولتا بھی نہیں۔ اب تم سے کیا چھپائوں، وہ اپنی بھابھی کے ساتھ گھر بسانا چاہتا تھا۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا تھا؟ جانے اس دن پگلی بوڑھی نے بہو کو کیا کہہ ڈالا کہ وہ گھر سے نکل گئی۔ ادھر یہ ہم ناراض ہوکر گھلتا جا رہا ہے! ہمیں کیا معلوم تھا بیٹا، کہ اس طرح اس کا دل لگا تھا۔ معلوم ہوتا تو ہم کاہے کو کچھ کہتے؟ ماں باپ کیلئے کیا بیٹے سے بڑھ کر برادری ہے؟ وہ بھی دو چار ہوتے تو ایک بات ہوتی۔ یہاں تو اسی کے سہارے ہماری زندگی ہے۔ برادری والے کیا ہمیں کھانا دیںگے؟ لیکن ہمیں کیا معلوم تھا؟ اب کتنا افسوس ہو رہا ہے! ارے، میری تو بیٹی ہی نکل گئی۔ اس کے برابر کون میری خدمت کرے گا؟ لیکن اب کیا ہی کیا جا سکتا ہے، بیٹا! تم اسے سمجھائو، اب تو ہوش سنبھالے۔‘‘

’’ سمجھائوںگا بابوجی۔ میری بات وہ نہیں ٹال سکتا۔ مجھے اپنے مانک بھیا کی طرح وہ سمجھتا ہے۔ آپ فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔کہاں پڑا ہے وہ۔‘‘اٹھتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ ارے بیٹا ذرا دیر اور بیٹھ۔ مجھے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ کہاں ۔۔۔‘‘

مٹرو آہستہ سے ہنس کر بولا،’’اپنے گھر کی لڑکی ہے، بابوجی! یوں سمجھ لو کہ میری چھوٹی سالی ہی ہے۔ پنڈت سے جانچوا لیا ہے۔ گننا بننا سب ٹھیک ہے۔ روپ رنگ میں بالکل گوپی کی بھابھی ہی کی طرح ہے۔ ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ خصوصیات میں بھی اسی کی طرح۔ خدمت تو اتنا کرتی ہے، بابوجی، کہ تم سے کیا کہوں؟ تم دیکھنا نہ! تم تو سمجھو گے کہ بڑی بہو ہی دوسرا روپ دھار کر آ گئی! تم بھی کیا سمجھو گے کہ میں کیسا ماہر ہوں۔ جب سے گوپی کی بھابھی کو دیکھا تھا، گوپی کے قابل کوئی لڑکی ہی نظر پر نہ چڑھتی تھی۔ کم کیسے آتی گھر میں؟ یہ تو اتفاق کہو کہ بالکل ویسی ہی لڑکی گھر میں ہی نکل آئی۔ وہ لوگ رنڈوے سے اس کی شادی کرنے کو تیار ہی نہ ہوتے تھے۔ سچ بھی ہے، ویسی روپ والی، گُنوں والی لڑکی کی شادی کوئی رنڈوے سے کیسے کرے؟ وہ تو مٹرو کی بات تھی کہ مانی گئی۔ مٹرو کی بات کوئی نہیں ٹالتا بابوجی۔ لیکن ہاں گھر کی ہوئی تو کیا؟ میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو بھی جہیز وہ مانگیں گے، دینا پڑے گا۔ سو بابوجی، کسی بات کا لحاظ نہ کرنا۔ جو مانگنا ہے، کہہ دو ۔۔۔‘‘

’’ ارے، ہمیں اس سے کیا مطلب ہے؟ تو ُگوپی سے ہی یہ سب طے کر لینا ہمیں کیا بیٹا؟ جس میں سب خوش، اس میں ہم خوش۔ گھر بس جائے، بس یہی بھگوان سے بنتی ہے۔ اچھا تو جا، صحن میں گوپی ہوگا اس سے باتیں کر لے۔ اور بیٹا، جتنی جلدی ہو، سب کر ڈال۔ دیر اب نہیں سہی جاتی! اے بھگوان ۔۔۔‘‘

’’ سو تو سب تیاری ہی کر کے آیا ہوں بابوجی،‘‘اتناکہہ کر مٹرو اٹھا اور گوجی میں بندھی گٹھری کھول کر بوڑھے کے ہاتھ میں تھماتا ہوا بولا،’’یہ مٹھائی، دھوتی اور پانچ سو روپے تلک کے ہیں ۔۔۔‘‘

’’ ہیں ہیں، ارے اتنی جلدی کیسے ہوگا یہ سب؟ پر۔۔۔پروہت، بر۔۔۔برادری ۔۔۔‘‘

’’وہ تم سب کرتے رہنا بابوجی۔ میرا تو جانتے ہو، رات کا ہی مہمان ہوں! پھر گنگا میا جوشیلی ہوگئی ہیں۔ پار وار کا معاملہ ہے۔ کون بار بار آنے جانے کا خطرے اٹھائے گا؟ پھر تم یہ سب لے لو گے تو گوپی پر دباؤ ڈالنے کی ایک جگہ بھی نکل آئے گی۔ میرا کام کچھ آسان ہو جائے گا۔ یوں، کام تو تمہارا ہی ہے۔ اب گوپی کو بھی ٹیکالگا دوں۔ جے گنگا جی!‘‘ اور وہ اٹھ پڑا۔

گوپی صحن میں کھٹولے پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔ مٹرو نے پہنچ کر ایک زور کی دھول جمائی اور اسکا ہاتھ پکڑ کراٹھاتا ہوا بولا،’’کیوں بے، میں تو تیری شادی کے چکر میں اتنی رات کو چڑھتی ہوئی ندی پار کرکے آیا ہوں اور تو یہاں خراٹے مار رہا ہے؟ آنے دے بہو کو، پھر دیکھوں گا کہ کیسے خراٹے لیتا ہے؟‘‘

ہڑبڑا ہوا گوپی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور آہستہ سے بولا،’’چوپال میں چلو، مٹرو بھیا۔‘‘

’’ اور یہاں کیا ہوا ہے بے؟ ۔۔۔او، شرم آتی ہو گی! ابے، تُونے تو،عورتوں کو بھی مات کر دیا؟‘‘

گوپی اس کا ہاتھ کھینچ کر اندر لے گیا۔ اس کے ہاتھ سے گوجی لے کر دیوار سے ٹکاکر بولا،’’میری ۔۔۔‘‘

’’ ابھی چپ رہ، مجھے اپنا کام کر لینے دے!‘‘ کہہ کر اس نے بائیں ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کا انگوٹھا رگڑا اور کچھ منتر سا بڑبڑاتا ہوا گوپی کے ماتھے پر تلک سا لگانے لگا، تو گوپی بولا،’’اسے توُ نے کوئی کھیل سمجھ رکھا ہے؟‘‘

مٹرو دفعتا ً ہنسی چھپاتا ہوا سنجیدہ ہو اٹھا۔ بولا ’’ کھیل تُو کہتا ہے؟ بہادروں کے لئے مشکل سے مشکل کام بھی کھیل ہے اور بزدلوں کیلئے آسان سے آسان کام بھی مشکل ہے! تو یہ بات کس سے کہہ رہا ہے، کچھ خیال ہے؟ مٹرو نے اپنی زندگی میں کسی کام کو کبھی بھی مشکل نہ سمجھا۔ اس نے مشکلوں سے ہمیشہ ہی کھیلاہے اور کھیل کھیل میں ہی سب کچھ سر کر لیا ہے۔ تو اس طرح کی بات پھر زبان پر نہ لانا! دنیا میں مجھے کسی بات کی طرف سے چڑھ ہے تو وہ بزدلی سے ہے اور جس دن میں نے سمجھ لیا کہ توُ بزدل ہے، اسی دن تجھے اور تیری بھابھی کوکاٹ کر گنگا میا کی بھینٹ چڑھا دوں گا! سمجھ لوں گا کہ ایک بھائی تھا، مر گیا، ایک بہن تھی، نہ رہی!‘‘ اس کا گلا بھرا گیا اور اس نے سر جھکا لیا۔

گوپی اس کی گود میں سر ڈال کر سسک پڑا۔ مٹرو اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا،’’پاگل، میرے رہتے تجھے کون سی بات مشکل لگتی ہے؟ اٹھ، میری بات سن! وقت زیادہ نہیں ہے۔ رات ہی رات مجھے واپس جانا ہے!‘‘ اور اس نے گوپی کو اٹھاکر اس کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہا،’’سیسون گھاٹ کے سامنے میری نائو لگی رہتی ہے۔ وہاں تو ُکہے گا، تو میری کٹیا تک پہنچا دیا جائے گا۔ میں اپنے آدمیوں سے کہہ رکھوںگا۔ تجھے کوئی دقت نہ ہوگی۔ میں نے بابوجی کو تلک دے دیا۔ کل پیلی دھوتی پہننا، برادری میں مٹھائی بٹوا دینا۔ اور شادی کی تاریخ کی خبر میرے آدمیوں کو دلوا دینا۔ سب قاعدے سے ہو۔ دولہا بن کر میرے یہاں آنا۔ بارات، بارات بھرنہ لانا، لانا تو چھوٹی لانا۔ گنگا میا غصے میں ہیں۔ ٹھیک ہے، جیسا مناسب سمجھنا، کرنا۔ میری بہن کی شادی ہے۔خود کو بیچ دینے میں بھی مجھے کوئی عذر نہ ہوگا۔ گنگا میا پھر جھولی بھر دیں گی۔ اسکے دربار میں کسی چیز کی کمی نہیں، سمجھا؟ من میں کوئی ویسی بات نہ لانا۔ یہ نہ بھولنا کہ توُ مٹرو کا بھائی ہے۔ ایسا کرنا کہ مٹرو کی عزت بڑھے۔ مٹرو کی عزت بہادر ہی بڑھا سکتا ہے۔ اچھا، تو خیال رکھنا میری باتوں کا! سیسون گھاٹ! اب چلوں؟‘‘

’’ میری بھابھی کیسی ہے؟‘‘ محبت سے سرشارگوپی بول پڑا۔

مٹرو ہنسا! بولا،’’ابے اب بھی وہ تیری بھابھی ہی ہے؟ دلہن کیوں نہیں کہتا؟ اچھی ہے، بالکل اچھی ہے! گنگا میا کی ہوا جہاں تن میں لگی کہ تینوں تپ مٹ جاتے ہیں۔ وہ تو اب ایسی ہری ہو گئی ہے، کہ دیکھو تو جیا لہرا اٹھے۔ اس دوران کبھی موقع ملے تو آ جانا۔‘‘کہہ کر اس نے گوپی کا ماتھا چوم لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

گوپی نے اس پاؤں پکڑ لیے۔ مٹرو بولا،’’ہاں، ابھی سے سیکھ لے، کہ بڑے سالے کا احترام کیسے کیا جاتا ہے!‘‘

’’ بھیا!‘‘ گوپی نے شرماکر سر جھکا لیا۔ مٹرو نے اسے اٹھا کربازوئوں میں بھر لیا۔

پندرہ

منہ اندھیرے ہی بلرا سانی پانی کرکے آیا تو، بوڑھے نے اسے بلا کر کہا،’’بھاگ کر جاکر پروہت جی کو بلا لا۔ کہنا، ساتھ ہی چلیں، دیر نہ کریں۔‘‘

’’ کیوں مالک، کوئی مہمان آئے ہیں کا؟ چھوٹے مالک کا بیاہ ۔۔۔‘‘

’’ ہاں، ہاں رے، سب ٹھیک ہو گیا ، تُو جلدی سے بلا تو لا!‘‘

بلرا چلا، تو اس کے قدموں میں وہ پھرتی نہ تھی، جو ایسی خوشی کے موقع پر ہوا کرتی ہے۔ چھوٹی مالکن جس د ن سے لاپتہ ہوئی تھیں، اسے بہت دکھ ہوا تھا۔ گوپی کے آ جانے کے بعد اسے چھوٹی مالکن کو دیکھنے کا موقع نہ ملا تھا۔ گوپی ہی بھوسا وغیرہ نکالتا تھا۔ اس کے جی میں کتنی بار آیا کہ چھوٹے مالک سے وہ اپنے من کی بات کہے۔ کئی بار اکیلے میں بات اس کے منہ میں بھی آئی تھی، اور گوپی نے اسے کچھ کہتا دیکھ کر پوچھا بھی تھا۔ لیکن وہ ٹال گیا تھا، اسکی ہمت نہ پڑی تھی۔ چھوٹی مالکن عورت تھی، اس سے کہہ دینا آسان تھا۔ لیکن یہ بات گوپی کے ساتھ نہ تھی۔ کہیں ناراض ہوکر ایک آدھ تھپڑ جما دیا تو؟ کشتری کا غصہ کیا ہوتا ہے، اس سے اس کا کتنی ہی بارپالا پڑا تھا۔ آخر جب چھوٹی مالکن کے بھاگ جانے کی بات اسے معلوم ہوئی تھی، تو اس کے منہ سے یہی نکلا تھا،’’چ ۔۔۔چ کیسے ظالم ہیں یہ لوگ! آخر بیچاری کو بھگاکر ہی دم لیا!‘‘

اسے اس معصوم ،چھوٹی سی مالکن کی یاد بہت آتی تھی۔ بیچاری جانے کہاں، کیسے ہوگی۔ کون جانے، کسی پوکھر کے اندرہی ہو۔ اس کی یہ سوچ ایک بھولے بھالے دل والے کی تھی۔ آخر چھوٹی مالکن سے اس کا ناطہ ہی کیا تھا؟ پھر بھی اس کیلئے جتنا سچاغم اسے ہوا تھا، شاید ہی کسی کو ہوا ہو۔

پھر کتنی جلدی یہ لوگ اسے بھول گئے! جیسے کوئی بات نہ ہوئی ہو۔ کتنے دن ہوئے ابھی اسے گئے؟ اور یہاں جھٹ سے بیاہ ٹھن گیا! خوشی منائی جائیں گی۔ باجے بجیںگے۔ کتنی خود غرض ہے یہ دنیا!اپنے سکھ کے آگے دوسرے کے دکھ کی یہاں کسے پرواہ ہے؟

بلرا جب پروہت کو ساتھ لیے لوٹا تو دروازے پر ہنگامہ مچا تھا۔ بلاوے پر برادری کے لوگ جمع تو ہوئے تھے، لیکن بغیر سب کچھ جانے سمجھے وہ شامل ہونے سے انکارکر رہے تھے۔ کہاں کی لڑکی ہے، اس کے ماں باپ کا خون کیسا ہے، ہڈی کیسی ہے؟ وہ رات کو بریچھے کے لوازمات دے کر کیوں چلا گیا؟ کیوں نہیں رکا؟ اس طرح کہیں کسی کا تلک چڑھتا ہے؟

گوپی ایک طرف خاموش کھڑا تھا۔ بوڑھے ہی دیوار کے سہارے بیٹھے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ پنڈت جی کو انہوں نے دیکھا، تو بلا کر پاس پڑی چارپائی پر بٹھا کر ان سے کہا،’’ پنڈت جی ، کیا میں اندھا ہوں؟ اپنے خون خاندان کی فکر مجھے نہیں ہے؟ آج یہ مجھے یاد دلانے آئے ہیں۔ موقعے کی بات ہے۔ مٹرو سنگھ نہ رک سکا۔ لڑکی اسکی سالی ہے۔ کئی بار کہہ چکا، سمجھا چکا، منت کر چکا، لیکن ان لوگوں کی اینٹھ ہی نہیں جاتی۔ اپاہج ہوکر پڑا ہوں، تو یہ رعب جمانا چاہتے ہیں۔ آج یہ بھول گئے کہ ہم کون ہیں؟‘‘

’’ برادری کے معاملات میں سب برابر ہیں! آنکھ سے دیکھ کر تو مکھی نہیں نگلی جائے گی! پنڈت جی ، آپ ہی کہئے، شادی ہے کہ کوئی مذاق ؟‘‘ ایک بولا۔

پنڈت جی جانتے تھے کہ کدھر کی حمایت کرنا اس موقعے پر فائدہ مند ہے۔ انہوں نے کھانس کر، سنجیدہ ہو کر کہا،’’آپ کا کہا ٹھیک ہے۔ لیکن بھائی، ہر موقعے کے نزاکت کا قانون بھی بھگوان نے بنایا ہے۔ آپ لوگ تو جانتے ہیں کہ موقعے پر اگر دولہا بیمار پڑ جائے، بارات کے ساتھ نہ جا سکے، تو لوٹے کے ساتھ بھی لڑکی کی شادی کرا دی جاتی ہے۔ موقعے کی نزاکت تو دیکھنی ہی پڑتی ہے۔ کسی وجہ سے مٹرو سنگھ نہ رک سکے، تو کیا اسی لیے یہ موقع نکل جانے دیا جائے گا؟ نہیں، ایسی بات تو دستور کے خلاف ہوگی۔ میری رائے تو یہی ہے۔ پنچوں کی اب جو مرضی ہو۔‘‘

برادری والوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ ایک بوڑھا بولا،’’ پنڈت جی آپ نے جو موقع کی بات کہی، وہ ٹھیک ہے۔ لیکن یہ موقع تو کچھ ویسا نہیں۔ یہ ٹالاجاسکتا۔لگن تو کہیں پھاگن میں ہی پڑے گا۔ چار پانچ مہینے ابھی ہیں۔‘‘

’’ کیسے ٹالاجا سکتا ہے؟ یہ دھوتی، مٹھائی، روپیہ کیا لوٹا دوں۔‘‘بوڑھے گرم ہو اٹھے۔

’’ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے۔‘‘ایک دوسرا بول پڑا۔

’’ اور میں نے اسے جو زبان دی ہے؟‘‘ بوڑھے چمک اٹھے۔

’’ ایسی کوئی راجا ہریش چندر کی زبان نہیں ہے!‘‘کسی تیسرے نے طعنہ دیا۔

بوڑھے کے لئے اب برداشت کرنامشکل ہو گیا۔ وہ کانپ اٹھے اور گرج کر بولے،’’یہ بات کس نے منہ سے نکالی ہے۔ ذرا پھر سے تو کہے! اصلی راجپوت باپ کا بیٹا ہوا، تو اس کی زبان نہ کھینچ لوں، تو کہنا؟ ابے گوپیا! تو کھڑا کھڑا میری توہین دیکھ رہا ہے؟ ذرا بتا تو اسے کہ تیرے باپ کو جھوٹا کہنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے!‘‘

برادری میں ایک لمحے میں سناٹا چھا گیا۔ پھر اشتعال سا مچ گیا۔ ’’ یہ زبان کھینچنے والے کون ہوتے ہیں؟ سر آنے پر بات کہی ہی جائے گی۔ یہ ساری برادری کی توہین ہے! اٹھو! اٹھو! ۔۔۔چلو! کوئی گالی سننے یہاں نہیں آیا۔ ٹاٹ پر بیٹھنے والا ہر شخص برابر ہوتا ہے ۔۔۔ان کیا مجال ہے؟ اٹھو! چلو!‘‘

پنڈت جی ’’ ہاں ہاں‘‘ کرتے ہی رہ گئے۔ لیکن دھوتی جھاڑ جھاڑکر، سب کے سب اٹھ کر بوکھلائے ہوئے، آنکھیں دکھاتے وہاں سے چلے ہی گئے۔ اب تک بھری بھری، دروازے پر کھڑی بوڑھی کو بھی جیسے اب غبار نکالنے کا موقع مل گیا۔ ہاتھ نچانچاکر وہ بولی،’’جاؤ جاؤ! تمہارے بغیر ہمارے بیٹا کی شادی نہیں رک جائے گی! پنڈت جی ، پوجا کی تیاری کیجیے۔ ان کے آنکھوں دکھانے سے کیا ہوتا ہے؟ ہوگا کوئی گھُورا کتوار انکی پرواہ کرنے والا! یہ مانک کے باپ کا گھرانا ہے، جو اکیلے ہی ہمیشہ سو پر بھاری رہا ہے! کیا سمجھ رکھا ہے انہوں نے؟‘‘

’’ سچ کہتی ہو، ججمانن، یہ تو سراسر انکی ناانصافی ہے۔ پروہت کی بات بھی انہوں نے نہ مانی۔ اس سے آپ کا کیا بگڑ جائے گا؟ کچھ خرچ ہی بچ جائے گا۔ جس کا کوئی نہیں، اس کا بھگوان ہے، کسی کے بغیر کہیں کسی کا کام اٹکا ہے۔‘‘ اتناکہہ کر پنڈت جی نے تیاری شروع کر دی۔

اس تماشے سے سب سے زیادہ خوشی بلرا کو ہوئی۔ انہی کم بخت برادری والوں کے خوف سے تو چھوٹی مالکن کی وہ حالت ہوئی تھی۔ اس برادری کا ڈر نہ ہوتا تو جتنی بیواؤں کی زندگیاں تباہ ہوئی ہیں،سبھی بچ جاتیں اور ٹھکانہ پا جاتیں! یہ خوشی بالکل ایک مد مقابل کی جیت کی تھی۔ اسے ایسا لگا کہ یہ اسی کی جیت ہوئی!

پنڈت جی کو کھانا کھلاپلا کر،رخصت کرکے گوپی پیلی دھوتی پہنے ہوئے چوپال میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ چلو، یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ بلی کے بھاگ سے چھینکا ہی ٹوٹ گیا۔ راستے کا ایک بڑا پہاڑ آپ ہی ہٹ گیا۔

تبھی بلرا آکر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

گوپی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا،’’بہت خوش ہو؟ کیا بات ہے؟‘‘

’’ مالک، تمہاری برادری والوں کو بھاگتے دیکھ کر آج مجھے بہت خوشی ہوئی!‘‘ ہاتھوں کو ملتے ہوئے بلرا بولا۔

’’ اس میں خوشی کی کیا بات ہے!‘‘ گوپی یوں ہی بولا۔

’’ واہ مالک! اس میں کوئی خوشی کی بات ہی نہیں ہے؟ انہی کے خوف سے تو چھوٹی مالکن نکل گئیں۔ ان کا ڈر نہ ہوتا تو کاہے کو وہ گھر چھوڑتیں؟‘‘ اداس ہوکر بلرا بولا۔

’’ ہاں، یہ تُو ٹھیک ہی کہتا ہے۔‘‘کچھ کھو یاسا گوپی بولا۔

’’ تمہیں بھی برادری والوں کا ڈر تھا مالک؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘

’’ لیکن آج تو ان سے تم نے اپنا سب ناطہ توڑ لیا۔ پہلے ہی ایسا کر لیتے، مالک، تو چھوٹی مالکن کو گھر کیوں چھوڑنا پڑتا؟ پہلے ایسا کیوں نہ کیا، مالک؟‘‘ بھرائے گلے سے بلرا بڑے ہی دردناک لہجے میں بولا۔

گوپی اس کے اس سوال سے گھبرا گیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ نیچ، گنوار بھی ایسی سمجھ کی بات کر سکتا ہے! وہ حیران سا ہوکر اس کا منہ دیکھنے لگا۔

بلرا ہی بولا،’’جانے کہاں کس حالت میں ہوں گی۔ ان سے بڑا موہ لگتا ہے، مالک! ایسی باچھی کی طرح وہ تھیں کہ کیا بتاؤں! ان کی یاد آتی ہے، تو آنکھوں سے لہو ٹپکنے لگتا ہے!‘‘ اور وہ رو پڑا۔

پریشان ہوکر گوپی بولا،’’بھگوان تیرے جیسا دل سب کو دے، تیرے جیسا موہ سب کو دے! توُ دکھ نہ کر، بھگوان سب اچھا ہی کرتے ہیں۔ توُ چپ رہ۔‘‘

’’ مالک۔‘‘سسکتا ہوا بلرا بولا،’’جب چھوٹی مالکن کو دیکھتا تھا،من میں اٹھتا تھا کہ تمہارے ساتھ انکی کیسی اچھی جوڑی ہوتی! مالک، برادری والوں کا ڈر نہ ہوتا، تو تم ان کے ساتھ بیاہ کر لیتے نہ؟‘‘

گوپی کا دل ہل گیا۔ وہ گھبرا سا گیا اور بلرا کا ہاتھ پکڑ کر اس کی آنکھیں پونچھتے ہوئے بولا،’’تو بڑا اچھا آدمی ہے بلرا! جا، صبح سے تُوگھر نہیں گیا۔ تیری عورت کھوج رہی ہوگی۔ مائی سے کھیکا مانگ لے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply