گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(12)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

دنیا سمجھتی ہے کہ بیٹا اور بیوہ بہو، ماں باپ کی آنکھوں کے ستارے ہیں۔ بوڑھا کیسے دوسروں سے کہتا ہے،’’میرے گھر کی لکشمی ہے! بیوہ ہوئی تو کیا، وہ میری جان کے پیچھے ہے! اس کی خدمتوں کا بدلہ کیا اس کی زندگی میں میں چکا سکتا ہوں؟ پچھلے جنم کی وہ میری بیٹی ہے، اگلے جنم میں، میں اس کی بیٹی بن کر اس کی خدمت کروں گا، تبھی قرض سے نجات پائوںگا؟‘‘ اور ماں؟ ’’ اسے میں اپنی آنکھوں کی پتلی کی طرح رکھوں گی! میرے لئے تو یہ میرا مانک ہی ہے؟ بڑی بہو ایک دن گھر کی مالکن بنے گی! اسے تلسی کی طرح سب اپنے سر پر رکھیں گے!‘‘ لیکن کوئی بھولے گوپی سے تو پوچھے کہ وہ اس کے لئے کیا ہیں؟ اوہ، ان کی آنکھوں کے شعلوں نے کیوں نہیں اسے وہیں جلاکر بھسم کر دیا، کیوں نہیں بڑھ کر بھابھی کو جلا دیا، کیوں نہیں پھیل کر سارے گھر کو جلا دیا؟ سب جھنجھٹ ہی صاف ہو جاتا۔ پھر بوڑھابوڑھی بیٹھ کر مسان جگاتے!

گوپی کا سارا تن من پھنک رہا تھا۔ اس کے جی میں آتا تھا کہ ابھی سب کو نوچ ناچ کر رکھ دے اور بھابھی کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکل جائے۔ کئی بار چوپال سے گھر میں جانے کو اس کے پاؤں بڑھے اور پیچھے ہٹے! کئی بار اس نے دانت بھینچ بھینچ کرکچھ سوچا، لیکن اتنی ہمت اس میں کہاں تھی کہ ماں باپ کی چھاتی پر پیر رکھ کر وہ چلا جائے۔ اس نے کب سوچا تھا کہ آخر اسے ایسا بھی کرنا پڑے گا؟ وہ تو سوچتا تھا کہ ماں باپ کا اکیلا لاڈلا جیسے ہی منہ کھولے گا ۔۔۔۔

وہ مجبورہوکرغصے میں پاگل سا باہر نکل پڑا۔ اسے ڈر لگا کہ سچ مچ وہ کہیں کچھ کر نہ بیٹھے!

اسکی اب تک کی بندھی امید ٹوٹ گئی تھی۔ اتنے دنوں اپنے دل سے لڑکر اس نے اس سے جو معاہدہ کیا تھا، وہ بیکار ثابت ہو گیا۔ پِتا کی ایک بات نے ہی اس کے اب تک کے کھڑے کئے گئے محل کو ٹھوکر مار کر گرا دیا۔ ایک نئی راہ پر چل کر اپنی منزل کے قریب وہ پہنچا ہی تھا کہ اس کی ٹانگیں توڑ دی گئیں۔ آج وہ جتنا دکھی تھا، اس سے کہیں زیادہ پریشان تھا۔ اپنے ماں باپ پر۔ چلی آرہی کھوکھلی رِیت،سماج کا بدبودار رواج، سڑی گلی رسم، ذات برادری کی ایک جھوٹی عزت کے تنگ دل پجاری ماں باپ، اپنے خونی جبڑوں میں ایک پھول سی نازک، گائے سی بھولی ، روگی سی کمزور، لاچار سی اپنی حفاظت میں بے بس، قیدی سی غلام، صبح کے آخری ستارے سی اکیلی، ایک جوان عورت کو دباکر چبا ڈالنا چاہتے ہیں۔ اوہ! انہی آنکھوں سے وہ کیسے بے رحمی کا یہ سفاکانہ منظر دیکھتا رہے گا؟

وہ بوکھلایا سا کٹے ہوئے کھیتوں کھلیانوں میں پراگندہ ذہن اور پریشان دل کیلئے رات گئے تک گھومتا رہا۔ اسے اس وقت صرف ایک مٹرو ہی ایسا آدمی دکھائی دیتا تھا، جس کی گود میں سر ڈال کر وہ ذرا شانتی محسوس کرتا۔ شاید وہی اب کچھ کرے۔ بھابھی کی جانب سے تو اسے تسلی مل ہی گئی۔ اس کے جی میں آیا، ابھی دوڑکر مٹرو کے پاس پہنچ جائے، لیکن گھر کاسوچ کر کہ جانے آج بھابھی پر کیا بیتے، وہ واپس لوٹ آیا۔

وہ کھیتوں سے گھر کی طرف چلا۔ چاروں جانب سناٹا چھایا تھا، کالی رات نے سب کچھ ڈھانک لیا تھا۔

چور کی طرح وہ گھرکے دالان سے کھٹولا نکالنے کو گھسا تو ماں کی کڑکدار آواز سن کر چوکھٹ پر ٹھٹھک گیا۔

ماں چوٹ کھائی شیرنی کی طرح گرج رہی تھی،’’کلموہی! تجھے شرم نہ آئی دیور پر ڈورے ڈالتے۔ میں تو سمجھتی تھی کہ ساوتری سی ستی ہے بہو۔ کیا کیا ڈھونگ رچے تھے، پوجاپاٹھ،دھیان بھکتی، خدمت گذاریاں! مجھے کیا معلوم تھا کہ اس پاکھنڈ کی آڑ میں تو میری ناک کاٹنے کی تیاری کر رہی ہے! ڈائن! تجھے لاج نہ آئی یہ سب پاپ کرتے؟ یہی کرنا تھا، توتُو کیوں نہ نکل گئی کسی گنہگار کے ساتھ؟ توُ منہ کالا کرتی، میرا بیٹا تو بچ جاتا تیرے جال سے! کتنے ہی آئے رشتہ لے کر اور واپس لوٹ آ گئے۔ ہم کہیں کیا بات ہے کہ وہ کسی پر کان ہی نہیں دھرتا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اندرہی اندر تُو بے شرمی کا ناٹک رچ رہی ہے۔ خیر منا کہ بوڑھا معذور ہو گیا ہے، نہیں تو تیری آج بوٹی بوٹی کاٹ کر پھینک دیتا! تو چکھتی مزا اپنی کرنی کا! جا کہیں ڈوب کر مر جا کلموہی ۔۔۔‘‘

گوپی اور زیادہ نہ سن سکا۔ اس کا دماغ پھٹنے لگا۔ اسے لگا کہ اگر وہ ایک لمحہ بھی وہاں کھڑا رہ گیا، تو کچھ ایسا شدید کام کر ڈالے گا، جس کا پھل نہایت ہی شدید ہو جائے گا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا سا بھاگ کر گھر کے قریب کنویں کی منڈیر پر دونوں ہاتھ سے اپناپھٹتا ہواسر دبائے پڑ گیا۔ اس کے دل میںدہائی مچی تھی۔

بھابھی نے آج تک ایسی باتیں نہ سنی تھیں۔ آج زندگی کے گزرے ہوئے دن اس کی آنکھوں کے سامنے ایسے ہی ناچ اٹھے، جیسے کسی مرنے والے کے سامنے۔ ماں باپ، بھائی بہن کا لاڈ، مانک کی محبت، ساس سسر، دیور کا پیار۔ ادھر، بیوہ ہونے کے بعد ضرور کچھ پریشان ہو کر وہ ساس سے اُلجھی تھی۔ لیکن اس طرح کی بات کوئی کہے، اس کا موقع اس نے کسی کو کبھی نہیں دیا تھا۔ آج بھی اس کی کوئی غلطی نہ تھی۔ پھر ساس جو ایسی باتیں بغیر کچھ جانے بوجھے،بنا سوچے سمجھے اسے سنانے لگی، تو اس کے دل کی کیا حالت ہوئی، یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا زخمی دل فریاد کر اٹھا۔ اس اچانک ہوئے بے رحمانہ حملے سے وہ ایسی سُن ہو گئی کہ نہ کچھ کہہ سکی، نہ رو سکی، نہ ہی ایک آہ ہی بھر سکی۔ دماغ بھنا رہا تھا، شعور پر نا قابل برداشت اذیت کا خاموش نشہ سا چھا گیا، انگ انگ میںجیسے کلبلا ہٹ ہو رہی تھی۔ جہاں شعور اورلاشعور ایک دوسرے سے ملتے ہیں، ایسی کیفیت میں وہ بت بنی بیٹھی رہ گئی۔ ساس بڑبڑاتی رہی۔ لیکن اب اسے جیسے کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ اسکا شل ہوچکے دل و دماغ کی گہرائیوں میں ساس کی ایک ہی بات گونج رہی تھی،’’جا کہیں ڈوب مر،کلموہی! جا ۔۔۔‘‘

کبھی پہلے بھی مر جانے کی بات اس کے دل میں اٹھی تھی، لیکن ایک امید، ایک سہارے نے اس کے ہاتھ تھام لیے تھے۔ وہ امید ناممکن ہی تھی تو کیا، پھر بھی امید تھی، لیکن آج؟ آج وہ بھی ٹوٹ گئی۔ جس ستارے پر نظر لگائے وہ آج تک زندہ تھی، وہی ٹوٹ کر گر پڑا۔ اب، صرف تاریکی ہے، تاریکی ہے،دشوار، سخت، شدید!

بڑبڑاتے بڑبڑاتے ساس بستر پر پڑ گئی اوراسی طرح تھک کر سو گئی۔ اسے کھانے پینے، بوڑھے کی دوا دارو، بیٹے کی کھوج خبر، یہاں تک کہ گھر کا بیرونی دروازہ بند کرنے کابھی غصے کی وجہ سے خیال نہ رہا۔

اندھیری رات پل پل گاڑھی ہوتی گئی۔ گھر کا سناٹا گہرا ہوتا گیا۔ ماحول بھائیں بھائیں کرنے لگا۔ ویرانی کو بھی جیسے نیند آ گئی۔ سانسیں بھی جیسے تھم گئی ہوں۔

پاتال کی لامتناہی گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے بھابھی کے شعور میں ایک حرکت ہوئی۔ مدہوشی میں لاش کی طرح وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کوئی لفظ نہیں، کوئی خیال نہیں۔ اسکے بیہوش پاؤں اٹھے۔ یہ گھر کے باہر کی سیڑھی ہے ،جس پر بھابھی نے اس گھر میں آنے کے بعد کبھی پاؤں نہ رکھا تھا۔ لیکن آج وہ نہیں ہے۔ آج ایک لاش ہے جو باہر جا رہی ہے۔ اور اسے تو اس پل بھی علم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ ایک بیہوشی بھرا شعور ہے، جو اسے لئے جا رہا ہے۔

اس کنوئیں کی منڈیر کی سیڑھیاں ہیں۔ دو قدم اور ۔۔۔اور ۔۔۔پھر ۔۔۔

’’ کون؟‘‘ آنکھوں پھاڑتا ہوا گوپی اب تک جاگ گیا تھا۔

بیہوشی کو اچانک ہوش آ گیا۔ کانپتی بھابھی کنویں کے دہانے کی جانب دوڑی ہی تھی کہ گوپی نے اسے پکڑ لیا۔ ’’ کون ہے؟ بھابھی تم؟‘‘ بھابھی بیہوش ہو کر اس بانہوں میں جھول گئی۔ یہی ہونے والا تھا، یہی ہونے والا تھا! گوپی کی بزدلی کا انجام یہی ہونے والا تھا! اب؟ وقت نہیں! جلدی! جلدی! سوچنے کا وقت کہاں، نادان!

اور گوپی بھابھی کو اپنی بانہوں میں اٹھائے بھاگ چلا۔ اندھیرا، کوئی راستہ نہیں۔ لیکن گوپی بھاگا جا رہا ہے۔ راستہ دیکھنے سمجھنے کا یہ وقت نہیں۔ اس وقت تو بھابھی کو ان چنڈالوں سے کہیں دور لے جانا ہے، وہ بس یہی جانتا ہے، یہی!

چودہ

پو پھٹنے سے پہلے ہی گوپی لوٹ کر کنویں کی منڈیر پرآگیا۔ ابھی وہ خود کو مستحکم کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ماں کے چیخنے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی،’’ہاے رام! بڑی بہو گھر میں نہیں ہے!‘‘ لیکن وہ آنکھیں موندے ایسے پڑا رہا، جیسے نیند میں بے خبر ہو۔

آہستہ آہستہ محلے کے عورتیںمرد اسکے دروازے پر جمع ہو گئے۔ گوپی کو جگایا گیا۔ وہ ایک قاتل کی طرح خاموش بنا رہا۔ لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر بھیڑ ہٹائی اور ہدایت کی کہ سب چپ رہیں، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، ورنہ بدنامی ہوگی سو تو ہوگی ہی، اوپر سے کہیںلینے کے دینے بھی پڑ نہ جائیں۔

لیکن اس طرح کی وارداتیں چھپائے کہیں چھپتیں ہیں؟ بہتوں کو اس طرح کی سنگین خبریں پھیلانے میں ایک عجیب طرح کا مزا ملتا۔ سو، گھڑی آدھ گھڑی گزرتے داروغہ آن دھمکا۔

داروغہ چلا گیا۔ گوپی چوپال میں اکیلا بیٹھا سوچ میں ڈوبا تھا۔ ماں کے رونے کی آواز سن کر اس کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے؟ اسی نے تو اسے ڈوب مرنے کے لئے کہا تھا۔ اب یہ ڈھونگ کیوں دکھا رہی ہے؟ اس کے جی میں آتا تھا کہ جاکر اسے خوب آڑے ہاتھوں لے اور کہے کہ اب تو ناک بچ گئی! خوشیاں مناؤ! اپنی ذات برادری کی عزت کا ڈھول پیٹو! وہ اپنے باپ سے بھی جھگڑنا چاہتا تھا۔ اب تو عزت بڑھ گئی؟ کلیجہ ٹھنڈا ہوا؟ قاتلوں! اس معصوم کے قتل کا گناہ تاحیات تمہارے سر پر رہے گا۔ تم اپنی برادری کو ہار بنا کر گلے میں پہنے رہو، رسم و رواج کی خوب مالا جپو!

لیکن رات کا واقعہ اس کے دل و دماغ پر اتنا اور اس طرح چھایا تھا، کہ وہ اٹھ نہ سکا۔ سوچنے سمجھنے پر اسے لگتا تھا کہ وہ خود بھی ماں باپ سے کسی طرح کم مجرم نہیں تھا۔ اس کا بھی اس میں اتنا ہی ہاتھ تھا، جتنا انکا۔ اگر ہمت کر کے وہ ماں باپ کا مقابلہ کر سکتا، سرعام بھابھی کا ہاتھ پکڑ لیتا، تو بھابھی کیلئے ایسا کرنے کی نوبت کیوں آتی؟ یہی خیال اسے بری طرح کچلے ہوئے تھا۔ اس کی زبان بند تھی۔

آج وہی بات پھر اس کے دل میں بار بار اٹھ رہی تھی کہ سچ ہی اس سماج کی بیوہ لکڑی کا وہ کندا ہے ،جسے اس کے شوہر کی چتا کی آگ ایک بار جو لگا دی جاتی ہے، وہ جلتی رہتی ہے، اس وقت تک جلتی رہتی ہے ، جب تک وہ جل کر راکھ نہ ہو جائے اور اسکے راکھ ہو جانے سے پہلے اسے بجھانے کسی کو حق نہیں۔ کیا راکھ ہو جانے سے پہلے اس نے بھابھی کو بچا لینے کی جو کوشش کی، وہ اس کی سرکشی بھری سعی تھی؟ کیا اس کی سچی ہمدرد کوششوں کا یہی اختتام ہونا تھا؟ آخر اس میں باقی ہی کیا رہ گیا تھا۔ بھابھی کے راکھ جانے میں کسر ہی کتنی تھی؟ یہ تو اتفاق ہی تھا نہ، جو بچ گئی، ورنہ، ورنہ ۔۔۔اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اوہ! یہ کیا ہونے والا تھا! اے بھگوان! تیرا لاکھ لاکھ شکر، جو ۔۔۔

اور یہ سوال بار باراس کے دماغ میں اٹھ پڑتے، ایسا کیوں ہوا؟ کیوں، کیوں؟

اور اس کے ہی ضمیر کی آواز اس کے جواب میں گونجنے لگتی،’’ہاں، تم سچے تھے،تمہارے دل بھی سچا تھا، تم نے کوشش بھی کی ضرور! لیکن اس کوشش کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے جس جرات کی ضرورت تھی، وہ تم میں زیادہ نہ تھی۔ اسی جرات کے فقدان نے ہی بھابھی کو راکھ ہو جانے کیلئے مجبور کر دیا تھا۔ جرات سے مبرا اس طرح کی کوششوں کا یہی آخر ہوتا ہے۔ یہ آگ کو اور بھڑکا دیتی ہیں۔ یہ فوری طور پر بھسم دیتی ہیں۔ مورکھ! اب بھی سمجھ جا، اب بھی سنبھل جا! یہ بچوں کا کھیل نہیں، یہ جذباتیت کے بیکار سے جوش کے بس کا روگ نہیں! یہ آگ میں پھاندکر آگ بجھانے جیسا ہے، یہ زندگی پر کھیل کر زندگی کو بچانا ہے، یہ ہزاروں سالوں سے لاکھوں بیواؤں کا خون پی کر توانا ہوئے رسم و رواج کے بھیانک شیطانی قوت سے اکیلے لڑکر اسے زیر کرنا ہے، یہ سنسان جنگل سے ایک نیا راستہ نکالنا ہے! کوئی مذاق نہیں، کوئی کھیل نہیں!‘‘

اور زندگی میں کبھی بھی ہار نہ ماننے والے گوپی کو لگا کہ جیسے اسکی جرات اور طاقت کو یہ دوسری للکار ہے، جس کے سامنے اگر اس نے سر جھکا دیا، تو اس میںبھابھی جل کر راکھ ہو جائے گی۔ پہلی للکار جوکھو کی تھی اور آج یہ دوسری ہے۔ اور گوپی کو محسوس ہوا کہ آج پھر وہی خون اس کی رگوں میں دوڑنے لگا ہے، جس کی طاقت کے سامنے وہ کسی کو کچھ نہ سمجھتا تھا۔

کنویں میں رسی ڈالی گئی، تال پوکھر کو چھانا گیا۔ اور جب کچھ پتہ نہ چلا، تو طرح طرح کی افواہیں ہوا میں اڑائی گئیں، طرح طرح کی کہانیاں رچی گئیں۔ عورتوں نے بھابھی میں کتنے ہی عیوب نکال ڈالے، بوڑھے مردوں نے زمانے کو کوس کوس مارا۔ یاروں نے باتیںخوب بھگاریںاور خوب مزے لوٹے۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ گوپی کے سامنے زبان کھولتا۔ پھر اپنی چادر کے چھید کو چھپاکردوسرے کی چادر کے چھید میں پاؤں ڈال کر کہاں تک پھاڑتے؟ پتھر گرنے سے پانی کی سطح پر جو ہلچل مچتی ہے، وہ بھلاکتنی دیر ٹھہرتی ہے؟

دن گزرتے گئے۔ دنیا معمول کے مطابق چلتی رہی۔ اور ایک رات جب گاؤں میں سناٹاہو گیا تھا۔ گوپی کے دروازے پر ایک بھاری بھرکم گوجی دھم سے بج اٹھی۔

بوڑھے نے، جس کی نیند آج کل پہلے کی بہو والی خدمت گذاری نہ پاکر ہرن ہو گئی تھی، یوں ہی مندی آنکھیں کھول کر ٹوکا،’’کون؟‘‘

مہمان آہستہ سے ہنسا۔ پھر بوڑھے کی جانب بڑھتا ہوا بولا،’’جاگ رہے ہو، بابوجی؟‘‘

’’ کون؟ مٹرو ہے کیا؟ ارے بیٹا، میری نیند تو اُسی دن اڑ گئی، جس دن سے بہو چلی گئی۔ اب تو لاش ڈھو رہا ہوں۔ کون اس کے برابر ہماری سیوا کرے گی؟ بوڑھی تو ذرا دیر میں جھلاکر بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ اب تو بھگوان اٹھا لیں، یہی مانگتا رہتا ہوں۔ آئو بیٹھو۔ بہت دن پر آئے! کیا کیا ہو گیا، اسی درمیان۔ سوچا تھا، اب دن لوٹیں گے، لیکن کرم میں تو جانے اب کیا کیا سہنا باقی ہے۔‘‘

دیوار سے گوجی ٹکاکر، پیتانے بیٹھ کر مٹرو بولا،’’سب ٹھیک ہو جائے گا، بابوجی۔ آپ فکر نہ کریں! اس گھر کو بسانے کے لیے ہی تو میں اتنے دنوں رات دن ایک کیے رہا۔ سوچتا تھا کہ جب تک کام نہ بن جائے، کون سامنہ لے کر آپ کے یہاں آؤں۔ زبان دی تھی، تو اسے پورا کئے بغیر چین کہاں؟ مٹرو کی زندگی اسی ایک بات سے تو پامال رہتی ہے۔ اپنے مزاج کاکیا کروں؟ گنگا میا کے پانی، مٹی اور ہوا کے سوا زندگی کا کوئی سکھ نہ جانا۔ ہاں، بس حق اور انصاف کے سامنے کسی کو میں نے کبھی کچھ نہ سمجھا۔ کئی بار منہ کی کھا کر بھی زمیں داروں کی اینٹھ نہیں جاتی۔ منہ کا لگا ہوا آسانی سے نہیں چھوٹتا، بابوجی! پشتوں حرام کا دِیّر سے جمع کیا ہے۔ اب نہیں ملتا، تو دانت کٹکٹاتے ہیں۔ سنا ہے،قانون گو کو پڑتال کرنے کا حکم آیا ہے۔ ابھی تو چاروں جانب پانی ہی پانی ہے، وہ کاہے کی پڑتال کرے گا؟ بات اگلے سال پر گئی۔ اس وقت تک ہمیں بھی تیاری کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ جان دے دیں گے بابوجی، لیکن زمیں داروں کا وہاں پاؤں نہ جمنے دیں گے۔ سالوں یہ لڑائی چلے گی۔ گنگا میا کی کرپا سے ہماری جیت ہوگی۔ حق اور انصاف ہمارے ساتھ ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھاندلی، زور،ظلم کی گاڑی، بہت دنوں تک نہیں چلتی۔ اب مٹرو اکیلا نہیں، دِیّر اور ترواہی کے ہزاروں کسان اس کے ساتھ ہیں۔ اپنی پیاری زمین پر جان دینے والوں سے ان کی زمین چھین لینے کی طاقت کس میں ہے؟ ۔۔۔انہی مسائل میں پھنسا رہا بابوجی، نہیں تو کبھی کا سب ٹھیک ہو گیا ہوتا۔ ادھر گنگا میا بھی پھول اٹھی ہیں۔ پانچ دن پہلے ہی تو اپنی کٹیا پار لے گیا ہوں۔ اس پار تو کتے کی طرح زمیندار میری مہک سونگھتے رہتے ہیں۔ اب تم کہو، یہاں کی کوئی خیر خبربہت دنوں سے نہیں ملی؟ ۔۔۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply