دیوی۔۔عارف خٹک

اس کو ہمارے فلیٹ میں آئے ہوئے ایک ماہ ہوگیا ہوگا۔ مجھے بھی لگ بھگ ایک ماہ ہوچکا تھا۔ دبئی کی  ایک پرانی بلڈنگ میں ہم مرد و عورتیں سب مشترکہ طور پر رہتے تھے۔ جہاں ایک کمرے میں عارضی طور چھوٹے چھوٹے ڈربے بنائے گئے تھے۔ جس کا کرایہ ایک ہزار درہم سے لیکر پندرہ سو درہم تک  ہوتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ بائیس سالہ چھوٹے سے  قد کی گہری سانولی رنگت کی لڑکی تھی۔ اس لڑکی میں سب سے پُرکشش اس کی آنکھیں تھیں۔ پہلی نظر میں دیکھ کر اس کی آنکھیں سامنے والے پر ایسا سحر طاری کردیتی تھی جیسے کوئی بنگالی جادوگر  آپ کو اپنے  سحر میں جکڑ  لے۔ آپ کو پوری دنیا میں بس وہی آنکھیں یاد رہتی ہیں۔ اس آنکھوں کی سحرانگیزی آپ کو سب کچھ بھلا دینے پر مجبور کردیتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے اندر ایک مسکراہٹ ہچکولے لیتی  محسوس ہوتی تھی۔ چہرے پر بلا کی معصومیت کہ بے اختیار اس پر پیار آجائے۔ وہ اپنی  کسی سہیلی کیساتھ ایک تنگ سی  پارٹیشن میں رہتی تھی۔
یہاں رہنے والے سب ایک دوسرے سے بے خبر رہتے تھے۔ صبح ڈیوٹی پر جانا رات گئے واپس آنا۔ کسی کا کسی سے کوئی سروکار نہیں کہ ساتھ میں کوئی حاجی مولوی یا طوائف رہتی ہیں۔ سب خود میں گم اپنے وقت کے ایک ایک لمحے میں پیسہ جوڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ شاید سب کا ایک پیشہ تھا سب طوائف تھے۔ خود سے بے خبر جس کی نظر میں صرف اہمیت پیسے کی ہوتی ہے۔ جس کی  عزت نفس ہی پیسہ ہوتا ہے۔ جو صرف یہ سوچ کر پیسہ کماتے ہیں کہ پردیس میں کون جانتا ہے جو کل گاؤں یا دیس جاکر طعنے ماریں گے۔
رات دس بجے کسی نے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھولا تو سامنے وہی خوبصورت جادوگرنی کھڑی معصوم نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں اس کی آنکھوں میں کھو سا گیا۔ اس نے شرماتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ مسلے۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مخاطب ہوئی۔
“مجھے چولہا جلانا نہیں آتا۔ آپ جلا کر دیں گے؟”۔
معصومیت سے اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ میں ایک ٹرانس کی کیفیت میں اس کے ساتھ ملحقہ کچن میں چلا گیا۔
میں نے چولہا جلا کر دیا۔ وہ ممنون نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔ اس کا تعلق ہندوستان کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تھا۔ پھر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں شرمندگی سے کہنے لگی۔
“لائف میں کبھی ہم نے چولہا نہیں جلایا۔ اماں نے کچن میں جانے نہیں دیا۔ ویسے آپ کیا کرتے ہیں؟”۔
وہ جیسے ایک سانس میں سب کچھ جاننا چاہ رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں تیزی تھی۔ اس کی  حرکات میں ایک عجیب سی  بیتابی تھی۔ وہ جیسے ایک ایک لمحے میں سب کچھ جلدی جلدی کرنا چاہ رہی تھی۔
“میں ڈاکٹر ہوں۔ یہاں ایک مقامی کمپنی میں پراڈکٹ ریسرچ سے منسلک ہوں۔” اس نے جلدی سے میری بات کاٹ دی۔
“اوہ مائی گاڈ آپ کے پاس بہت پیسہ ہوگا تو یہاں اس گند میں کیا کرتا ہے؟”۔ اس کی معصوم خوبصورت آنکھیں مزید حیرت سے پھیل گئیں۔
“دراصل میری حیثیت اس بات کی اجازت۔”
اس نے میری بات ایک دفعہ پھر اچک لی۔
“آپ ڈاکٹر ہو۔ تنخواہ اچھی ہوگی ناں۔۔ کیوں خود کھانا پکاتے ہو۔ کپڑے دھوتے ہو؟۔”۔
وہ مجھ پر جیسے چڑھی جارہی تھی۔ گویا ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا اپنے کپڑے دھونا، کھانا بنانا اور یہاں رہنا جرم تھا۔
میں مسکرا کر رہ گیا۔
“میرا نام شملا ہے”۔
اس نے اپنا ہاتھ جلدی سے آگے بڑھا کر اپنا تعارف کرا دیا۔ “جاب لیس ہوں۔ اماں سنگل مدر ہے سو یہاں نوکری ڈھونڈنے آئی ہوں۔ کوئی نوکری ہو تو بتانا پلیز”۔
ایک سانس میں اتنی باتیں کرکے وہ گویا تھک گئی۔ میں نے بیوی بچوں کا سوچ کر اپنے پراگندہ خیالات اپنے ذہن سے جھٹک دیئے۔
کبھی کبھار مجھے وہ نظر آجاتی تھی وہ دوڑ کر میرے پاس آجاتی تھی۔
“ڈاکٹر کھانا کھائے گا میرے ساتھ”؟”۔
میں منع کردیتا۔ کہ میں ڈائٹ پر ہوں۔
وہ۔واپس دوڑ کر اردگرد ماحول کو جھنجھنا جاتیں۔
گزشتہ ہفتہ،چار دن میں دبئی سے باہر تھا۔ کل رات جب فلیٹ کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا۔ تو خلاف معمول ایک پراسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ایسا   لگ رہا تھا جیسے ماحول کسی انجانی سوگواری میں ڈوب گیا ہو۔ میں غیر ارادی طور پر  کچن میں گیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ چولہے کے پاس سر جھکائے کھڑی تھی۔ بالکل ڈھیلی ڈھالی۔ اس نے آہستہ سے میری طرف دیکھا۔ میں دہل کر رہ گیا۔ اس کی خوبصورت انکھوں کی چمک بالکل ماند پڑ چکی تھی۔
“کیا ہوا شملا؟۔”
میری اپنی آواز میرے لئے اجنبی تھی۔ میرے دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔
“آج رات انڈیا جارہی ہوں”۔
اس نے گویا دھماکہ کردیا۔ میں نے تھوڑے توقف کے بعد پوچھا “خیریت تو ہے؟ اماں ٹھیک ہے؟ ابھی تو آئی ہو۔ میں نے اپنے دفتر میں تیرے لئے نوکری بھی دیکھی ہے”۔
آج گویا میں بھی شملا کی طرح بے تاب ہوا جارہا تھا میں بھی جلدی جلدی سب کچھ جاننا اور بتانا چاہ رہا تھا۔
“ڈاکٹر۔۔ وہ کل رات سے دو بار خون کی ۔۔۔ الٹیاں آئی ہیں۔ ادھر کا ڈاکٹر لوگ بولتا تم واپس جاؤ انڈیا۔ ادھر آپریٹ کرنا جہاں بچپن میں دل کے سوراخ کا آپریٹ ہوا تھا”۔
مجھ پر گویا پہاڑ گر پڑا۔
سامنے جلتے چولہےکو دیکھ کر کتنی دیر تک یہی سوچتا رہا کہ ‘یہ سب ہو کیا رہا ہے؟’۔
بالآخر اس نے مسکراتے ہوئے مجھے میرے خیالوں کی دنیا سے واپس کھینچ نکالا ۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اس کا سانولا ہاتھ برف کی مانند  ٹھنڈا تھا
“ڈاکٹر تم بہت ۔۔ یاد آؤگے”۔
میں نے خالی نظروں سے اس کی خوبصورت میں آنکھوں جھانکا۔ اس کی معصوم خوبصورت آنکھوں میں گویا ایک دریا ٹھاٹھیں مارتا ہوا باہر نکلنے کو بیتاب تھا۔ کہ باہر نکل کر سب کچھ تہس نہس کردے۔
اچانک میں نے اس کو کس کر اپنے گلے سے لگایا۔ اپنے ہونٹ  اس کے بالوں پر رکھ دیئے۔
“تم کبھی نہیں مرسکتی شملا۔ دیویاں کبھی نہیں مرتیں۔ تم دیوی کا ایک روپ ہو شملا”۔
میرے لہجے میں ایک یقین تھا
“دیویاں مرنے کیلئے نہیں پیدا ہوتیں بلکہ دیویاں امر ہوتی ہیں”۔
اس کے منحنی وجود میں گویا بھونچال سا آگیا۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply