گنگا میّا۔۔بھیرو پرسادگپت(10)۔۔ہندی سے ترجمہ :عامر صدیقی

پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہ چلا۔ سرکارکا دربار بہت دور ہے، جاتے جاتے پکار پہنچے گی، ہوتے ہوتے سماعت ہوگی۔ اس وقت تک کیا دِیّر میں کوئی نشان باقی رہ جائے گا؟ اور پھر کچھ ہوگا، تو دیکھا جائے گا۔ پٹواری کے نقشے میں تو صرف دِیّر لکھا ہے، کاغذ پتر میں بھی دِیّر کسی کے نام نہیں ہے۔ کوئی سرحد کوئی منڈیر تو بن نہیں سکتی، یہاں بنائی بھی جائے، تو کیا گنگا میا رہنے دیں گی؟ سرکار کیا خاک پڑتال کرے گی!

برسات میں مٹرو اور اس کے ساتھی کافی ہوشیاری سے رہے۔ ایک طرح سے اب انکا ایک دَل بن گیا تھا۔ آس پاس کے گاؤں کے کسان ان کے بھائی بند تھے۔ ہر بات کی کھوج خبر لیتے رہتے اور مٹرو کے کان میں پہنچایا کرتے۔ اب مٹرو پر جان دینے والے سینکڑوں تھے۔ یوں بھی مٹرو کو پکڑ لے جانا اب آسان نہ تھا۔

مٹرو رات میں ہی اپنے دس پانچ ساتھیوں کے ساتھ گوپی کے گھر جاتا اور رات رہتے ہی چلا آتا۔سب اس کی مہمان نوازی بڑی امنگ سے کرتے۔ بوڑھے بوڑھی پوچھتے، ’’ گوپی کی شادی کی کہیں بات چلائی؟‘‘

مٹرو کہتا،’’ارے، ہمیں چلانے کی کیا ضرورت؟ درجنوں یوں ہی منہ پھاڑے بیٹھے ہیں۔ اسے آ تو جانے دو۔ پھر ایک ماہ کے اندر ہی شادی کرادوںگا۔ وہ بہو لا دوں گا کہ گاؤں دیکھے گا!‘‘

مٹرو گوپی کو برابر خط لکھتا۔ لیکن اس نے گوپی کو اسکی بیوی کے بارے میں کچھ نہ لکھا تھا۔ کیوں خواہ مخواہ رنج کی خبر لکھے؟ نہ جانے اس کے چلے آنے کے بعد گوپی کی کیسے کٹتی ہے۔ کئی بار سوچا کہ مل آئے۔ لیکن فرصت کہاں؟ پھر گنگا میا کو وہ کیسے چھوڑے، اپنے کسان بھائیوں کو کیسے چھوڑے؟ اسی کے دم سے تو سب دم ہے۔ کہیں اس کی غیر حاضری میں زمیندار کچھ کر بیٹھیں، تو؟

اندر کھانے جاتا، تو بھابھی کے بنائے کھیکا کی تعریف کر کے کہتا،’’تبھی تو گوپی لٹو ہے! میں بھی کہوں، کیا بات ہے؟ اتنا بڑھیا کھیکا جو ایک بار کھا لے گا، وہ کیا گوپی کی بھوجی کو کبھی بھول سکتا ہے؟‘‘

ساس بھی تب کہتی،’’یہ دونوں بہنیں بڑی گن والی تھیں، بیٹا! کرم کو کیا کہوں؟‘‘

بھابھی سنتی اور دل ہی دل نہ جانے کیا سوچتی۔ ایک بار تو موقع نکال کر اس نے خود کو مٹروکو دکھا دیا تھا۔ مٹرو خود بھی اس کو دیکھنے کے لیے متجسس تھا۔ اسے دیکھ کر جیسے سینے پر ایک گھونسا کھا گیا تھا۔ اس نے کب سوچا تھا کہ گوپی کی بھوجی ایسی جوان ہے، ایسا بجلی سا اس کاروپ ہے۔ تبھی سے اس کا دل بھابھی کے لئے ہمدردی سے بھرا ہوا تھا۔ کبھی کبھی بڑی میٹھی میٹھی باتیں وہ یہی ہمدردی دکھانے کیلئے ماں سے بھابھی کے بارے میں کہہ دیتا۔ بھابھی نہال ہو اٹھتی۔

مٹرو کو فکر لگ گئی۔ گوپی کی بھوجی سی خوبصورت بہو گوپی کے لئے کہاں سے تلاش کرکے لے آئے گا؟ اس نے تو آج تک ایسی عورت کہیں نہ دیکھی تھی۔ گوپی اس پر جان دیتا ہے، تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ایسی عورت پر کون جان نہ دے گا؟ اسی طرح اس کی بہن بھی تو ہو گی۔ پھر دوسری سے اس کا دل کیسے بھرے گا؟

اور مٹرو کے من میں بلرا کی ہی طرح بات اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہمیشہ دِیّر میںآزاد رہنے والے مٹرو کے من پر برادری کے رسم و رواج کا اتنا غلبہ نہ چڑھا تھا۔ اس نے آزادی سے ہی زندگی گذاری تھی۔ جومن میں اٹھا، ویسے ہی کیا تھا۔ کبھی کوئی بندھن نہ مانا تھا۔ وہ تو بس اتنا ہی جانتا تھا کہ انسان کے پاس طاقت اور بہادری ہونی چاہئے۔ پھر کون روک سکتا ہے اسے کچھ کرنے سے؟ اس نے تو یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اگر گوپی تیار ہو گیا، تو وہ یہ کر کے ہی دم لے گا۔ بہت ہو گا، گوپی کو اپنا گھر چھوڑ دینا پڑے گا۔ تو اس دِیّر میں ایک کٹیا اوربس جائے گی۔ اسی کی طرح وہ بھی رہیں گے، سہیں گے۔کانچ کی مورت کی جان تو بچ جائے گی!

گیارہ

گوپی اپنی سزا کاٹ کر جب چھوٹا، تو اسے اور قیدیوں کی طرح وہ خوشی نہ ہوئی، جو قید سے چھوٹنے کے وقت ہوتی ہے۔ آج وہ اپنے گھر کی طرف جا رہا ہے۔ آخر اسے آج اپنی اس بیوہ بھابھی کے سامنے جا کر کھڑا ہونا ہی پڑے گا، اسے اس حالت میں، اپنی ان آنکھوں سے دیکھنا ہی پڑے گا، جس کیلئے قریب پانچ سالوں سے بھی وہ مطلوبہ ہمت نہیں بٹور سکا ہے۔

گاؤں میں جب وہ گھسا تو شام کے دھندلے  سائے زمین پر جھکے چلے آ رہے تھے۔ جاڑے کے دن تھے۔ چاروں جانب اب سناٹا چھا گیا تھا۔ تالاب سے ایک آدھ آدمیوں کے ہی کھانسنے کھنکھارنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گھاٹ سُونا تھا۔ گاؤں کے اوپر جمے دھوئیں کا بادل آہستہ آہستہ نیچے سرکاچلا آ رہا تھا۔

آگے بڑھ کر گوپی نے سوچا کہ کسی سے گھر کی خبر پوچھے۔ لیکن پھر ٹھٹک گیا۔ پاس ہی چھوٹا سامندر تھا۔ سوچا، پجاری جی کے پاس ہی کیوں نہ چلے۔ بھگوان کے درشن بھی کر لے، پجاری جی سے خبریں بھی پوچھ لے۔ گوپی کا دل لرز رہا تھا۔ سالوں دور رہنے سے اس کے دل میں یہ بات اٹھ رہی تھی کہ جانے اس دوران کیا کیا ہو گیا ہو۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئی اسے بری خبر نہ سنا دے۔

مندر اسے ویران سا دکھائی دیا۔ حیرانگی ہوئی کہ ایسا کیوں؟ یہ بھگوان کی آرتی کا وقت ہے۔ پھر بھی سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ چبوترے پر کوئی بوڑھا بھک منگا اپنی گٹھری رکھے لِٹّی یعنی ٹکیہ نما روٹی سینکنے کے لئے اُپلے سلگا رہا تھا۔ اس نے گوپی کو کھڑے دیکھا تو پوچھا،’’کا ہے، بھیا؟‘‘

’’مندر بند کیوں ہے؟ پجاری جی نہیں ہیں کیا؟‘‘ گوپی نے اس کے پاس جا کر پوچھا۔

بھک منگا زور سے ہنس پڑا۔ دانت نہ ہونے کی وجہ ڈھیر ساراتھوک اس کے ہونٹوں سے بہہ پڑا۔ وہ بولا،’’تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو کیا؟ ارے،پجاری کو بھاگے ہوئے تو آج تین برس کے قریب ہو گئے۔ گاؤں کی ایک بیوہ کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ اسے لے کر جانے کہاں منہ کالا کر گیا۔‘‘اور وہ پھر زور سے قہقہے لگانے لگا۔

گوپی کے کانپتے ہاتھ اس کے کانوں پر پہنچ گئے۔ اس کا دل زوروں سے دھڑک اٹھا۔ اس سے ایک پل بھی وہاں نہ ٹھہرا گیا۔لامتناہی اندیشے من میں لئے وہ سیدھااپنے گھر کی طرف بڑھا۔ ایک کھٹکا اس کے دل میں کانپ رہا تھا کہ کہیں ۔۔۔

اپنے گھروں کے سامنے چبوترے کے پاس بیٹھے، جن جن لوگوں نے اس غم واندوہ کی مورت کو گزرتے ہوئے دیکھا، وہ خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لئے۔ خاموش نظروں سے کبھی کبھار گوپی ان کے سلام کا جواب دے دیتا۔ اس کی دماغی کیفیت کسی سے کچھ پوچھنے کی نہ تھی اور نہ لوگوں کی۔ لگ رہا تھا، جیسے وہ سب کے سب اپنے کسی پیارے کی لاش جلا کر خاموش اور اداس لوٹ رہے ہوں۔

گھر والوں کو اس وقت تک کسی نے دوڑکر گوپی کے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔ گوپی ابھی اپنے گھر سے کچھ ہی دور تھا کہ اس کے کانوں میں اپنے گھر کی سمت سے زور زور سے چلا کر رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ رواں رواں دکھ سے کانپ اٹھا۔ پیروں میں کپکپی چھوٹنے لگی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ دماغ میں چکر سا آنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ چلنے والے لوگوں سے اس کی یہ حالت پوشیدہ نہ رہی۔ کچھ نے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ ایک کے منہ سے یوں ہی نکل گیا،’’ہوش وحواس کھو بیٹھا بیچارہ! بھیم کی طرح بھائی کے مرنے کا غم ہی کیا کم تھا جو ودھاتا نے اسکی عورت کو بھی چھین لیا!‘‘

گوپی کے کانوں میں اس کی بھنک پڑی تو آنکھیں پھاڑے وہ پوچھ بیٹھا،’’کیا؟‘‘

بہتوں نے ایک ساتھ ہی کہا،’’اب دکھ سے کیا ہوگا، بھیا؟ انکاتمہارا اتنے ہی دن کا تعلق لکھا تھا۔ اب جو رہ گئے ہیں، انہی کوسنبھالو۔ اب انہیں تمہارا ہی تو سہارا رہ گیا ہے۔‘‘

گوپی کو لگا، جیسے ایک بجلی کی طرح جلتا ترشول اسکے دل میں کوندھ کر اسکے تن من کو جلاتاہوا سَن سے نکل گیا۔ وہ ہائے کہہ کر سہارا دینے والوں کے ہاتھوں میں آ گرا۔

اسے گھر لے جا کر لوگوں نے چارپائی پر لٹا دیا اور پانی کے چھینٹے مارکر اسے ہوش میں لانے لگے۔ عورتوں نے روتے روتے، بے حال ہوئیں ماں اور بھابھی کو، اور بڑے بوڑھوں نے بستر پر بلکتے پِتا کو کسی طرح یہ کہہ کر خاموش کرایا کہ اگر بڑے ہوکر تم ہی اس طرح تڑپ تڑپ کر جان دے دو گے، تو گوپی کا کیا ہوگا؟

دکھ کی گھٹا چھائی رہی اس گھر پرمہینوں۔ درد کے آنسو برستے رہے سب کی آنکھوں سے مہینوں۔

دکھ کی جتنی طاقت ہے، اس سے کہیں زیادہ قدرت نے آدمی کو برداشت دی ہے۔ جس طرح دکھ کی کوئی مقررہ حد نہیں، اسی طرح انسان کی برداشت بھی لامتناہی ہے۔ جس دکھ کا تصورکرکے بھی انسان روح کی گہرائی تک کانپ اٹھتا ہے، وہی دکھ جب اچانک اس کے سر پر آن گرتا ہے، تو جانے کہاں سے اس میں اسے برداشت کرنے کی طاقت بھی آ جاتی ہے۔ اسے وہ ہنس کر یا رو کر جھیل ہی لیتا ہے۔ دکھ کی کالی گھٹا کے نیچے بیٹھ کر وہ تڑپتا ہے، روتا ہے۔ رو رو کر ہی وہ دکھ کو بھلا دیتا ہے۔ وہ گھٹا چھٹتی ہے، خوشی کی روشنی چمکتی ہے اور انسان ہنس دیتا ہے۔ وہ یہ بات بھی بھول جاتا ہے کہ کبھی اس پر دکھ کی گھٹا چھائی تھی، کبھی وہ رویا اور تڑپا بھی تھا۔ یہ بات کچھ غیر معمولی انسانوں پر بھلے ہی لاگو نہ ہو، پر عام انسانوں کیلئے سیدھا سادا سچ ہے۔

گوپی، اس کے والدین اور بھابھی عام سے ہی تو انسان تھے۔ درد کے امنڈتے گرجتے سمندر میں سالوں دکھ کے تھپیڑے کھا کر آہستہ آہستہ انہیں لگنے لگا کہ وہ درد اور دکھ کی گرجتی لہریں، اب کچھ میٹھی اور کچھ مدھر یادوں کی دھیمی دھیمی لہریں بن بن انکے پریشان دلوں کو اپنے نرم لمس سے سہلا سہلاکر کچھ امید، کچھ خوشی کے باریک باریک جال بُننے لگی ہیں۔

بھابھی اور دیور، دونوں ایک ہی طرح کی بدقسمتی کے شکار تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کیسے ایک دوسرے کو تسلی دیں۔ بھابھی نے حسبِ معمول خود کو پوجا اور گھر کے کاموں میں الجھا دیا تھا۔ وہ مشین کی طرح سب کچھ کرتی، جیسے وہی سب کرنے کیلئے اس مشین کی ایجاد ہوئی ہو، جیسے یہ مشین ایک ہی رفتار سے، اسی طرح چلتی رہے گی، کام کرتی رہے گی، اس کے قوانین میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔ ہاں، آہستہ آہستہ، جیسے جیسے اس کے پرزے گھستے جائیں گے، اس کی استعداد میں کمی آتی جائے گی، پھر ایک دن اس کے پرزے بکھر جائیں گے،پھر یہ مشین ٹوٹ جائے گی ہمیشہ کیلئے۔

بھابھی اب کہیں زیادہ گھمبیر ، خاموش اور اداس بن گئی تھی۔ گویا اپنی پوجا اور اپنے معمولات کے سوا اس کی زندگی میں کچھ ہو ہی نہیں۔گوپی بھابھی کو دیکھتا اور اس سدا کی سنجیدہ،اداس اور دکھ میں لپٹی ہوئی بیمار سی مورتی کو دیکھ کر سوچتا کہ کیا وہ ایسے ہی اپنی زندگی گزار دے گی؟ کیا وہ واقعی اسے ایسے ہی زندگی گزارنے دے گا؟ دنیا کے گلستاں میں خزاں آتی ہے، پھر بسنت آتی ہے۔ بھابھی کی زندگی میں ایک بار جو خزاں آگئی ہے کیا ہمیشہ قائم رہے گی؟ کیا پھر اس میں بسنت نہ آئے گی؟ کیا پھر ایک بار اس میں بسنت لائی ہی نہیں جا سکتی؟ خزاں میں خاموش ہوئی بلبل کیا ہمیشہ کے لئے ہی چپ ہو جائے گی؟ کیا اس کا چہکنا ایک بار پھر نہ سن سکے گا؟

گوپی اپنے سماج کے رسم و رواج سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان کی برادری کی بیوہ، لکڑی کا وہ کُندا ہے ،جسے اس کے شوہر کی چتا کی آگ ایک بار جو لگ جاتی ہے، تو وہ جل رہتا ہے، اس وقت تک جلتا رہتا ہے، جب تک جل کر راکھ نہیں ہو جاتا۔ اسکے راکھ ہو جانے سے پہلے کسی کو چھونے کی ہمت نہیں ہوتی، بجھانے کی تو بات ہی دور۔ اور گوپی سوچتا کہ کیا اس کی بھابھی بھی اسی طرح جل کر راکھ ہو جائے گی؟ وہ اس میں لگی آگ کو کبھی نہ بجھا سکے گا؟ گوپی کے دل کی آنکھوں کے سامنے یہ سوال ہر لمحہ چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ کی طرح ان سوالات کا جواب ڈھونڈ نکالنے میں ڈوبا سا رہتا ہے۔ بھابھی کے سکھ دکھ کا مقام یوں بھی اس کی زندگی میں کم نہیں رہا ہے، جب بھابھی کی زندگی میں کبھی بھی نہ ختم ہونے والی ویرانی آ گئی ہے، تو اس کا مقام اس کے دل میں مزید بلند ہو گیا ہے۔ وہ ایک طرح سے اپنے بارے میں کچھ نہ سوچتا، بلکہ ہمیشہ بھابھی کے بارے میں سوچا کرتا ہے کہ کیسے وہ اپنی محبوب بھابھی کو پھر ایک بار پہلے ہی کی طرح چہچہاتے ہوئے دیکھے گا۔

دنیا چاہے جس حالت میں رہے، بیٹی والے باپوں کو چین کہاں؟ گوپی کے جیل سے آنے کا پتہ جیسے ہی انہیں چلا، انہوں نے پھر سے دوڑنا بھاگنا شروع کر دیا۔ گوپی کے جیل سے لوٹنے کی ہی تو علت تھی۔ اب شادی پکی کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔ پِتا اسے براہ راست گوپی سے بات کرنے کے لیے کہہ دیتے۔ معذور آدمی ٹھہرے۔ سب کچھ اب گوپی کو ہی تو کرنا دھرنا ہے۔ وہ جیسا مناسب سمجھے، کرے۔

گوپی انہیں دیکھ کر جل بھن جاتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بھابھی کے سامنے وہ کیسے بیاہ رچا سکتا ہے؟ وہ کن آنکھوں سے اسکے خوشی کے تہوار کو دیکھے گی، کن کانوں سے بیاہ کے گیت سنے گی، کس دل سے وہ سب سہہ سکے گی؟ نہیں نہیں گوپی جلے پر اس طرح نمک نہیں چھڑک سکتا! ایسا کرنے سے اس کا دل چھلنی ہو جائے گا۔

اس کے جی میں آتا ہے کہ وہ مہمانوں کو پھٹک کر بتا کر کہہ دے،’’تمہیں شرم نہیں آتی ایسی باتیں مجھ سے کہتے؟ کچھ نہیں تو کم از کم ایک انسان ہونے کے ناطے ہی میرے دل کی حالت تو سمجھنے کی کوشش کرو۔ شادی کی بات کر کے میرے ہرے زخموں پر اس طرح نمک تو نہ چھڑکو۔‘‘ لیکن شائستگی کو مد نظر رکھتے ہوئے، وہ شادی نہ کرنے کی بات کہہ کر انہیں ٹال دیتا ہے۔ انہوں نے الجھانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھتے ہیں،’’آخر ایسا کیوں کہتے ہو؟‘‘

گوپی خاموش رہتا ہے۔ وہ کیسے بتائے کہ ایسا کیوں کہتا ہے؟

’ آخر اس عمر سے ہی تم اس طرح کیسے رہ سکتے ہو؟‘‘ دوسرا سوال پھینکا جاتا ہے۔

گوپی کا دل پوچھنا چاہتا ہے کہ بھابھی کی عمر بھی تو میری ہی برابر ہے، آخر وہ کیسے رہے گی؟ لیکن وہ چپ ہی رہتا ہے۔

تیسرا دائولگایا جاتا ہے،’’ایک نہ ایک دن تم کو گھر بسانا ہی پڑے گا، بیٹا!‘‘

اور گوپی کہنا چاہتا ہے کہ کیا یہی بات بھابھی سے بھی کہی جا سکتی ہے؟ لیکن اس کے منہ سے کوئی لفظ ہی نہیں پھوٹتا۔ اندر ہی اندر ایک غصہ اسے نمودار ہونے لگتا ہے۔

’’ اور نہیں تو کیا؟ کوئی بال بچہ ہوتا، تو ایک بات ہوتی۔‘‘چوتھی بار لاسا لگایا جاتا ہے۔ لڑکا خاموش ہے اسکا مطلب یہ کہ اس پر اثر پڑ رہا ہے۔ شاید مان جائے۔

بھابھی کے بھی تو کوئی بال بچہ نہیں ہے۔ کیا اسے اس کی ضرورت نہیں؟ گوپی کے دل میں ایک خاموش سوال اٹھتا ہے۔ اس کے ہونٹ پھر بھی نہیں ہلتے۔ ناراضگی ابھر رہی ہے۔ نتھنے پھڑکنے لگے ہیں۔

’’ خاندان کا نام و نشان چلانے کے لئے ۔۔۔‘‘

اور گوپی اور زیادہ کچھ سننے کی تاب نہ لا کر گرجتے بادل کی طرح کڑک اٹھتا ہے،’’تمہیں میرے خاندان کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں! تم چلے جاؤ!‘‘

’’ عجیب آدمی ہے! ہم کیسی باتیں کر رہے ہیں اور یہ کیسے بول رہا ہے!‘‘ توہین کا کڑوا گھونٹ پی کر مہمان کہتے،’’دان جہیز کی اگر کوئی بات ہو، تو ۔۔۔‘‘

’’ کچھ نہیں۔ کچھ نہیں! میں شادی نہیں کروں گا! نہیں کروں گا! نہیں کروں گا!‘‘ اور وہ خود ہی وہاں سے اٹھ کر ہٹ جاتا۔

لیکن یہ سلسلہ ٹوٹنے پر نہیں آتا۔ اور اب تو وہ کسی ایسے مہمان کے آنے کی خبر سنتا ہے، تو پاگل سا ہو جاتا ہے۔ اس کے دل کی کشمکش اور بھی شدید ہو اٹھتی ہے۔ وہ جیسے خود سے ہی سے خاموش آواز میں پوچھنے لگتا ہے، کیسے ، کیسے ؟ کیسے اپنی بیوہ بھابھی کی ویران آنکھوں کے سامنے بیاہ کا راس رنگ رچائوں؟ کیسے اپنے دل کے تڑپنے کی پکار نہ سن کر، میں نے ایک معصوم لڑکی کو لا کر اپنی خوشیوں بھری دنیا بسائوں؟ نہیں یہ نہیں ہو سکتا! اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا۔

بارہ

دِیّر میں اس سال خوب ہمک کر ربیع آئی تھی۔ میلوں پکی گندم کی فصل سے جیسے آسمان سرخ ہو اٹھا تھا۔ کٹائی کی خبر پاکر دور دور سے کتنے ہی عورت مرد بَنہار آکر وہاں بس گئے تھے۔ کم از کم پندرہ بیس دن کٹائی چلے گی۔ مٹرو پہلوان خوب بَن دیتا ہے اور کسانوں کو بھی تاکید کر دی ہے کہ بنہاروں کے بن میں کوئی کمی نہ کریں۔ سو، بنہار گٹھری باندھ باندھ کر اناج لے جائیں گے۔

گنگا میا کے کنارے ایک میلے سا لگ گیا ہے۔ بہت سے دکاندار بھی گھاٹھی پسان، ساگ ستّو، بیڑی تمباکو کی چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔ اناج کے بدلے وہ سودا کرتے ہیں۔ پیسہ یہاں کس کے پاس ہے؟ بنہاروں کو روز شام کو بَن ملتا ہے، اسی میں سے خرچ کیلئے وہ تھوڑا سا نکال لیتے ہیں اور ضرورت کی چیزوں سے خریداروں کے یہاں بدل آتے ہیں۔ دن میں تو تمام بنہار ستّو کھاتے ہیں۔ لیکن رات میں روٹی لِٹّی سینکنے کے لئے جب سینکڑوں اوپلوں سے بنے چولہے گنگا میا کے کنارے جل اٹھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے، جیسے آسمان میں دھویں کے بادل چھا گئے ہوں۔

مٹرو یہ سب دیکھتا ہے، توپھولا نہیں سماتا۔ لوگ مٹرو کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ وہ شرما جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں،’’یہ مٹرو پہلوان کا بسایا علاقہ ہے۔ دوسرے کس میں اتنی سوجھ بوجھ اور ہمت و طاقت تھی، جو جنگل کو بھی گلزار کر دیتا؟ پشتوں سے دِیّر پڑا تھا۔ کبھی کہیں کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اب وہی زمین ہے کہ میلہ لگ گیا ہے۔ سینکڑوں کسانوں اور بنہاروں کی روزی کا سہارالگ ہے۔ سب اسے دعائیں دے رہے ہیں۔ پشتوں سے دھاندلی کرکے زمیندار جنگل بیچ کر ہزاروں ہڑپتے رہے۔ مٹرو پہلوان سے پہلے تھا کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا؟ بھائی آدمی ہو تو مٹرو پہلوان کی طرح!شیر ہے، اس پر ہزاروں آدمی کیا یوں ہی جان دے رہے ہیں؟ دلوں پر ایسے ہی انسان راج کرتے ہیں۔ اب ہے زمیں داروں کی مجال کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا دیں۔‘‘

مٹرو سنتا ہے، تو دونوں ہاتھ ندی کی طرف اٹھا کر کہتا ہے،’’یہ سب ہماری گنگا میا کی کرپا ہے! اس کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ لینے والا چاہئے بھیا، لینے والا! ماں کا آنچل کیا کبھی بیٹوں کیلئے خالی ہوتا ہے؟ وہ بھی جگت کی ماں، گنگا میا کا!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

کرشن پکش کا چاند جیسے ہی آسمان میں ظاہر ہوا، مٹرو اور پوجن نے بنہاروں کو ہانک دینا شروع کر دیا۔ دن میں گرمی اور لو کے مارے بنہار پریشان ہو جاتے ہیں، ٹھنڈی صبح کے دو تین گھنٹے میں جتنا کام ہو جاتا ہے، اتنا دن کے آٹھ دس گھنٹوں میں بھی نہیں ہوتا۔ بنہار ندی کے کنارے ٹھنڈی ریت پر گہری نیند میں قطار لگا کر سوتے تھے۔ بڑی پیاری ہوا جنوب سے بہہ رہی تھی۔ چاند میٹھی چاندنی کی بارش کر رہا تھا۔ ندی دھیمے دھیمے کوئی مدھرگیت گنگنا رہی تھی۔ ہانک سنتے ہی بنہار اور بنہارنیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ آلسی کا نام نہیں۔ تھکے جسموں کو ندی کی ہوا جیسے ہی چھوتی ہے، ان میں پھر سے نئی تازگی اور لگن بھرجاتی ہے۔ یہاں کی دو چار گھنٹے کی نیند سے ہی، گاؤں کی رات بھر کی نیند سے زیادہ آرام اورسکون آدمی کو مل جاتا ہے۔

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply