• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا ہم خدا کے وجود کا سرا ڈھونڈ پائیں گے؟۔۔عبدالستار

کیا ہم خدا کے وجود کا سرا ڈھونڈ پائیں گے؟۔۔عبدالستار

کائنات کی معلوم تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسان آغاز سے ہی خدا کا سِرا ڈھونڈنے میں سرگرداں رہا ہے ۔ شروع میں وہ کسی بھی طاقتور چیز ” یعنی پہاڑ، سمندر، آسمان ،چاند ،سورج ،درندے یا آسمانی بجلی وغیرہ” کو دیکھتا تھا تو اسے محسوس ہوتا تھا کہ جو چیز بھی اس سے زیادہ طاقتور ہے وہی خدا ، بھگوان یا دیوتا ہےاوروہ اسی کے آگے ماتھا ٹیکنے لگ پڑتا تھا۔polytheism یعنی کثیرالخدا کے تصورات سے نکل کر انسانmonotheism یعنی ایک خدا کے تصور پر آ کرٹِک گیا ،تقریباً دنیا میں 4200 مذاہب پائے جاتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی خدا، بھگوان یا دیوتا پر اپنا یقین ٹکائے بیٹھے ہیں۔ مگر وہ اس خدا کا empirical proof یعنی تجرباتی و مشاہداتی ثبوت دینے سے قاصر ہیں۔

منکرین خدا موجود رہےہیں مگر وہ انکارِ خدا اپنے محدود علم کی بنیاد پر کرتے تھے کیونکہ اس وقت ذرائع علم بہت محدود تھے اور سائنس بھی معرض وجود میں نہیں آئی تھی ۔چارلس ڈارون کی تھیوری آف ایوولوشن کےبعد پاپائیت کا وجود خطرے میں پڑنے لگااور خدا کے وجود پر سوالات کی بوچھاڑ ہونے لگی، کیونکہ مذاہب عالم کا یہ دعویٰ تھا کہ اس کائنات کو چلانے کے پیچھے کوئی بڑی ہستی موجود ہے اس طاقت کے بغیر یہ اتنی بڑی کائنات وجود میں نہیں آسکتی مگر تھیوری آف ایوولوشن کے بعد مذہبی اور فلسفی فکر کا یہ کہنا تھا کہ ہم خدا کے وجود کا اپنی پانچ حسیات(دیکھنا ،سننا ،چکھنا ،چھونا)کے ذریعے سے سراغ نہیں لگا سکتے یعنی مذاہب عالم نے اپنےIntellectual gap یعنی فکری خلا کو خدا کے وجود کا سہارا لے کر بھرنے کی کوشش کی مگر سائنٹیفیک انکوائری آج بھی مصروف عمل ہے اور اس کائناتی راز کو پانےمیں سر گرداں ہے جس کو ڈھونڈنے میں بڑوں بڑوں نے اپنی زندگیاں تیاگ دیں جن میں ” صوفی ،سنت اور سادھو” بھی شامل ہیں ۔

ان صاحبِ  نظر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ دانائی کُل میں ہی وہ سب راز پنہاں ہیں جس کے ذریعے سے اس حیرت کدہ یعنی کائناتی راز کا آخری دروازہ کھلے گا ،اسی حیرت کو تلاش کرنے کے راستے میں سرگرداں کچھ لوگ atheist ( خدا کی ذات کا مکمل انکار کرنے والے) کچھ agnostic( خدائی معلومات کو ناکافی سمجھنے والے یعنی ماننے اور نہ ماننے کے درمیان جھولنے والے) اور کچھ skeptic (تشکیکی رویہ رکھنے والے بن جاتے ہیں) یہ سب مختلف راستے ضرور ہیں مگر منزل سب کی ایک ہے۔

اب مذاہبِ  عالم کا یہ دعویٰ ہے کہ انسانی حسیات اور سائنسی انکوائری سے خدا کے وجود کو ڈسکور نہیں کیا جا سکتا ، اس تصور کو یوں سمجھنے کی کوشش کیجیے ، ہم ایک کائنات کا حصہ ہیں اور جو کچھ بھی ہے وہ اسی کائنات کے اندر موجود ہے اس سے باہر کچھ بھی نہیں ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کائنات کے خالق کو بھی اسی کائنات میں موجود ہونا چاہیے جب ہم اپنی پانچ حسیات اور سائنسی انکوائری کے ذریعے سے خدا کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو نہیں ڈھونڈ پاتے تو مذاہب کا جواب یہ ہے کہ ان مشاہداتی سرگرمیوں سے اس  کا سِرا ڈھونڈنا ناممکن ہے اور وہ اتنی بات کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ وہ یہ کہہ کر مکت ہوجاتے ہیں کہ انسانی دماغ میں خدا کا تصور پہلے سے ہی فکس ہوتا ہے،

تو سوال یہ ہے کہ کیا انسانی دماغ اس یونیورس کا پارٹ نہیں ہے؟

کوئی بھی چیز جو انسان سوچتا ہے وہ اسی کائنات کی ہی by product یعنی ضمنی پیداوار ہے اور اس طرح سے ہمارا دماغ بھی اسی کائنات کی ضمنی پیداوار ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ہماری پانچ حسیات اور سائنسی تحقیق بھی اسی کائنات کا پارٹ ہے ۔ آخر میں یہ بات آجاتی ہے کہ خدا کائنات سے باہر رہتا ہے تو سوال یہ ہے کہ جب آپ اس کائناتی بارڈر کو عبور ہی نہیں کر سکتے تو پھر اس خدائی دعویٰ  کی کیا حیثیت بنتی ہے؟

جب آپ کے اختیار میں کچھ نہیں ہے تو پھر ان دعوؤں کی کوئی حیثیت باقی نہیں بچتی ،

اب رہا یہ سوال کہ کیا سائنس خدا کے وجود کو تلاش کر پائے گی تو یہ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر یہ بات طے ہے کہ سائنس جو کچھ بھی کھو جے گی وہ سب کچھ آبزرو ایبل حقائق پر مبنی ہوگا کیونکہ سائنس آئے روز ہماری پانچ حسیات کی صلاحیتوں کی طاقت کو بڑھا رہی ہے اور آج ہم چھوٹے سے چھوٹا جرثومہ بھی دوربین و خورد بین کے ذریعے بہت قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ انسانی دسترس سے صدیوں پہلے جو بہت دور تھا وہ اب بہت قریب آ چکا ہے بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خدائی وجود کے بارے میں پاسکل ویجر کا تصور انتہائی رومانٹک ہے جب تک خدا کا وجود نہیں ملتا اس وقت تک پاسکل ویجر کے تصور سے دل بہلایا جا سکتا ہے ۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ Blaise pascal سترھویں صدی کا ایک فلسفی تھا جس نے یہ کہا تھا کہ

“ایک ریشنل بندے کو خدا کی موجودگی کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہیے اور اس پر یقین رکھنا چاہیے ،اگر خدا کا کوئی وجود نہ ہوا تو ہمیں محدود سطح پر کچھ چیزیں کھونا پڑیں گی جیسا کہ خوشی اور پُر تعیش زندگی ۔اس کے برعکس اگر خدا کا وجود ہوا تو ہمیں لا متناہی فوائد حاصل ہوں گے جیسا کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اور جنت اور ہم اس لا محدود نقصان سے بچ جائیں گے جو خدا سے انکاری بھگتیں گے۔”

میں پاسکل ویجر کے اس تصور میں انسانی فکر کی بے بسی کو دیکھتا ہوں مگر یہ علمی خلاءایک نہ ایک دن ضرور بھرے گا کیونکہ پرانے وقتوں میں اس تصور کے متعلق بہت بڑا تصوراتی انبار تھا ارتقائی سفر سے جو جتا یہ انسانintelligent designer کے تصور سے نکل کر سائنس کی تجرباتی دنیا میں داخل ہو چکا ہے اب ناقابل تصدیق باتوں کا دائرہ سمٹنے لگا ہے اور امکانات کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے، انسانی فکر کی یہ سائنسی چھلنی بہت کچھ چھان چکی ہے اور اپنے مشاہداتی اور قابل تصدیق معلومات کے ذریعے سے انسان کے فکری خلاء کو بھرنے کی کوشش کر رہی ہے ،اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سچ کے سائیڈ افیکٹس بھی ضرور ہوتے ہیں جب روائتی تصورات پر مبنی سائیکل ٹوٹتا ہے تو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جاتا ہے انسانی تصورات کی یہی کہانی ہوتی ہے اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مرزا غالب کچھ اس طرح کہہ گئے ہیں

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply