سنگ مزار /گی دَ موپاساں (1)۔۔مترجم : محسن علی خاں

درمیانی عمر کے پانچ دوستوں نے اکھٹے رات کا کھانا کھایا۔ اپنی دنیا میں مگن یہ پانچ دولت مند دوست جن میں سے تین شادی شدہ اور دو کنوارے تھے۔ یہ ہر ماہ رات کے کھانے پر اپنی جوانی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے محفل جماتے جو صبح کے دو بجے تک جاری رہتی۔ گہرے دوست ہونے کے ناطے وہ اِس بیٹھک سے بہت لُطف اندوز ہوتے۔ اُن کے خیال میں یہ اُن کی زندگی کی بہترین شامیں تھیں۔ اُن کی گفتگو دنیا بھر کے ہر موضوع کا احاطہ کرتی تھی۔ خصوصاً پیرس کے باسیوں کی تفریح اور دلچسپی کے متعلق تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ جس میں زیادہ باتیں ویسی ہی پرانی ہوتی تھیں جیسے کہیں بھی حجام کی دُکان پر لوگ صبح کا اخبار پڑھنے کے بعد سارا دن بحث مباحثہ کرتے ہیں۔
ان پانچوں میں سب سے زیادہ زندہ دل جوزف دَ بارڈن تھا۔ وہ غیر شادی شُدہ اور پیرس کا رہنے والا تھا۔ اپنی بھرپور لااُبالی زندگی جی رہا تھا۔ وہ بدکردار اور اخلاق باختہ نہ تھا۔ تنہا اپنی ذات میں مگن، خوش باش نوجوان جو بہ مشکل چالیس سال کا لگتا تھا۔ وہ دنیا شناس آدمی تھا۔ اُس کا دماغ خداداد صلاحیتیوں سے مالا مال تھا لیکن وہ اُسے غور و خوض کے لیے استعمال میں نہیں لاتا تھا۔ علم سے لگاؤ رکھتا تھا لیکن اپنی قابلیت کے جوہر نہیں دکھا پاتا تھا۔ وہ اپنے مشاہدات اور مہم جوئی کے بل بوطے پر مختصر قصے سنانے کا ماہر تھا۔ جو کچھ بھی وہ دیکھتا یا کسی سے بھی ملتا تو اس کی بات میں چھپے فلسفے کو بھی مزاح کے پیراۓ میں بیان کرتا۔ اُس کی یہی خوبیاں اسے معاشرے میں دوسروں کی نسبت زیادہ ممتاز کرتی تھیں۔ رات کے کھانے کے بعد محفل جمنے پر وہ منفرد اور دلچسپ کہانی سناتا تھا۔ باقی دوست بھی اس کی کہانی کے منتظر ہوتے اور اس کے لیے انہیں کوئی خوشامد بھی نہیں کرنی پڑتی تھی۔
جوزف نے سگار سلگایا۔ شراب کا گلاس اپنی پلیٹ کے قریب رکھا۔ کہنیاں میز پر ٹکائیں۔ ماحول تمباکو اور بھاپ اُڑاتی کافی کے امتزاج میں ڈھل رہا تھا۔ اس کے اطمینان سے لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی آرام گاہ میں ہو۔ اُس نے سگار کا ایک لمبا کش کھینچا اور دھویں کے بادلوں کو ہوا میں اڑاتے ہوۓ بولا۔
کچھ عرصہ پہلے میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔
” ہمیں بھی وہ واقعہ سناؤ۔ سب دوستوں نے یک زبان ہو کر کہا۔”
ہاں ضرور، اُس نے مسکراتے ہوۓ واقعہ کا آغاز کیا۔
آپ دوستوں کو تو معلوم ہے کہ میں نے پیرس کا چپہ چپہ ایسے چھان مارا ہے جیسے کتابوں کا شوقین انسان، جو کتابوں کے سٹال پر رکھی تمام کتابیں اُلٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ میں راستے میں آتے جاتے لوگوں کے چہرے پڑھتا ہوں، مقامات کا مشاہدہ کرتا ہوں، ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لیتا ہوں۔
یہ وسط ستمبر کی بات تھی۔ موسم بہت سہانا تھا۔ دوپہر کے وقت میں غیر ارادی طور پر گھومنے کے لیے نکل پڑا۔ ہم میں سے کسی کی ایک مبہم سی خواہش ہوتی ہے کہ کسی حسینہ کے پاس یا کہیں اور جایا جاۓ۔ کوئی اپنے ذہن میں تمام حسیناؤں کے خاکے سوچتا ہے۔ پھر اُن کے دل کش خدوخال کا آپسی مقابلہ کرتا ہے۔ جس کا پلڑا بھاری ہوتا اُسی کو سارا دن یاد رکھتا۔ لیکن جب ہوا مرغوب ہو اور سورج چمک رہا ہو تو یہ یاد مٹنے لگتی ہے۔
ہوا خوش گوار تھی، سورج چمک رہا تھا۔ میں نے سگار سلگایا اور شاہراہ پر خراماں خراماں چلنا شروع کر دیا۔ ایسے ہی چہل قدمی کرتے ہوۓ مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ موماخت کے قبرستان کی طرف جایا جاۓ۔
مجھے قبرستانوں میں جانے کا بہت شوق ہے۔ وہاں جا کر میرا دل اُداس ہو جاتا ہے لیکن مجھے ایسا اطمینان بھی نصیب ہوتا ہے جس کی مجھے بہت تمنا رہتی ہے۔ ویسے بھی وہاں میرے پیارے دوست رہتے ہیں جو مجھے تو ملنے نہیں آسکتے، اس لیے اکثر میں خود ہی اُن سے ملاقات کے لیے چلا جاتا ہوں۔
موماخت کے اس قبرستان میں میری ایک محبوبہ بھی دفن ہے۔ ایسی دلکش حسینہ جس کے حُسن نے میرے دل کی دھڑکنیں چُرا لی تھیں۔ اُس کی یادیں آج بھی اداس کر دیتی ہیں۔ ایک نہ ختم ہونے والی اُداسی۔ میں اُس کی قبر پر اُن خوابوں کی تکمیل کے لیے آتا ہوں، جو ہم نے ایک ساتھ دیکھے تھے۔لیکن زندگی نے اُس سے وفا نہ کی۔
مجھے قبرستان اس لیے بھی پسند ہیں کہ یہ ایسے گنجان آباد شہروں کی مانند ہوتے ہیں، جس کی آبادی اپنی حدود سے بھی باہر تک پھیلی ہوتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ چھوٹے سے قبرستان میں کتنے لوگ دفن ہیں، اس شہر پیرس کی کتنی ہی نسلیں جو اب یہاں مستقل رہائش پزیر ہو گئی ہیں۔ مقدس راہب اپنی چھوٹی چھوٹی خانقاہ نما قبروں میں سو رہے ہیں۔ ان سب کی قبریں پتھر کے ٹکڑے سے بند ہیں اور اُن پر صلیب کا نشان بنا ہواہے۔
ان کے برعکس زندہ لوگ کتنے بڑے بے وقوف ہیں جو ایک زمین کے ٹکڑے کے لیے لڑتے جھگڑتے ہیں۔
عجائب گھروں کی طرح قبرستانوں میں بھی منفرد یادگاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کوئی موازنہ کیے بغیر مجھے اس بات کا اقرار کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ کیونیک کے مزار پر بنے ہوۓ مجسمے نے مجھے یون گوجان کے ہاتھوں بنا ہوا لوئی دَ بریز کا وہ شاہ کار مجسمہ یاد کروا دیا جو روان کیتھیڈرل کے تہہ خانے میں موجود عبادت گاہ میں پڑا ہوا ہے۔ دوستو، تمام جدید اور حقیقت کے قریب تر فن مجسمہ و نقش گری کی ابتدا یہاں سے ہی ہوئی ہے۔ آج تک مرنے والوں کی جتنی بھی یادگاریں بنائی گئی ہیں، وہ سب مسخ شدہ حالت میں ہیں جب کہ اس مردہ آدمی لوئی دَ بریز کا مجسمہ بے جان گوشت کی صورت میں زیادہ حقیقی، ہولناک اور موت کی سختی کو جھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
لیکن موماخت کے قبرستان میں آج بھی بودیں کا مجسمہ قابل تعریف ہے، جس کی شان و شوکت برقرار ہے۔ اسی طرح گوتیر کا اور ہنری مرکر کا مجسمہ جس پر ایک دن میں نے عام سا گُل جادوانی کا گلدستہ دیکھا تھا۔ وہاں کون زرد رنگ کے گُل جادوانی لایا ہو گا؟ ممکن ہے اُس کی محبوبہ ہو، جو کہ بہت بوڑھی ہو گی اور اب قبرستان کے قریب ہی رہائش پزیر ہو گی۔ میلیٹ کا چھوٹا سا مجسمہ جو بے توجہی اور گردوغبار کی وجہ سے خستہ حال تھا۔ میرے پیارے دوستو! یہ سب جوانی کے رنگ ہوتے ہیں۔
میں موماخت کے قبرستان میں تھا۔ میرا وجود غم سے بھر گیا تھا۔ ایسا غم جس کا درد محسوس نہیں ہوتا ہے۔ یہ اُداسی کی ایسی کیفیت تھی جو ہمیں مکمل تندرستی میں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ یہ جگہ دل لگانے کی نہیں ہے، لیکن ابھی یہاں میرا وقت نہیں آیا تھا۔
خشک پتوں کی خوش بُو اور ہوا میں نمی خزاں کے موسم کا احساس دے رہی تھی۔ زرد رنگ میں تھکا ہوا اور کمزور پڑتا سورج بلند ہوتے ہوۓ شاعرانہ ماحول پیدا کر رہا تھا۔ اس قبرستان میں جو کہ انسانی میتوں کا ذائقہ چکھ رہا ہے، تنہائی کا اور بالآخر فنا ہونے کا احساس منڈلا رہا تھا۔
میں آہستہ آہستہ اس شہر خموشاں میں چل رہا تھا۔ میرے دونوں اطراف قبریں تھیں۔ یہاں کے مکین ایک ساتھ رہنے کے باوجود آپس میں میل جول نہیں رکھتے، نہ ہی اخبارات پڑھتے ہیں۔ میں نے کتبوں پر لکھی عبارت پڑھنا شروع کر دی۔ یہ اس دنیا کا سب سے دلچسپ مشغلہ ہے۔ میں اتنا کبھی لبیش اور میلھاک جیسے مزاح نگاروں کی تحریروں پر نہیں ہنسا جتنا ان کتبوں پر لکھی مزاح سے بھرپور تحریریں مجھے ہنساتی ہیں۔
اچھا، تو پال دی کوک کی کتابوں میں لکھے جملوں سے زیادہ زبردست سطریں ہیں۔ سنگ مرمر سے بنے کتبے اور صلیبیں جہاں مرنے والوں کے عزیز و اقارب اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں، اپنی نیک خواہشات اور بہت جلد ملنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ لوگوں نے کتبوں پر بھی کیسی جھوٹی تحریریں درج کی ہوئی ہیں۔
مجھے اس قبرستان کی وہ ویران جگہ سب سے زیادہ پسند ہے جہاں صنوبر اور قد آور سرو کے درخت ہیں۔ وہاں تنہائی کا عالم ہے۔ اس پرانے حصہ میں ان لوگوں کی قبریں ہیں جن کو فوت ہوۓ ایک عرصہ بیت چُکا ہے۔ اب ان کی قبریں دوبارہ استعمال میں لائی جائیں گی۔ انسانی لاشوں سے پروان چڑھتے ہوۓ درخت بھی ترتیب میں کاٹ دیے جائیں گے۔ اُن کی جگہ اب قطاروں میں سنگ مرمر کی قبریں بن جائیں گی۔ جس کے نیچے حال ہی میں مرنے والے دفن ہوں گے۔
اپنے دماغ کو تازگی دینے کے لیے جب میں نے بہت زیادہ چہل قدمی کر لی تو مجھے محسوس ہوا کہ آج کے دن کے لیے یہ کافی ہے۔ اور اب مجھے اپنی محبوبہ کی قبر پر حاضری دے کر حسین یادوں پر مشتمل پُرخلوص خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے۔ اُس کی قبر پر پہنچ کر مجھے اپنا دل بھاری محسوس ہونے لگا۔
آہ، میری جانم۔ وہ بہت دلکش اور محبت کرنے والی تھی۔ روشنی اور زندگی سے بھرپور اور اگر اب کوئی قبر کشائی کرے تو۔۔۔
اس کی قبر پر لگی لوہے کی جالی پر جھکتے ہوۓ میں نے مدھم لہجہ میں اُس سے جدائی کے غم کا اظہار کیا جو کہ مجھے یقین ہے اُس نے نہیں سُنا ہو گا۔ وہاں سے آگے بڑھتے ہوۓ میں نے ساتھ والی قبر پر ایک خاتون کو دیکھا۔ وہ گھٹنوں کے بل جُھکی ہوئی تھی۔ اُس نے کالا لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ بہت غمگین لگ رہی تھی۔ اُس نے باریک نقاب اپنے چہرے سے ہٹا کر سر کے پیچھے کیا ہوا تھا۔ اس کا روشن چہرہ اور خوب صورت بال ایسے لگ رہے تھے جیسے اندھیری رات میں طلوع آفتاب کا منظر ہو۔ میں وہیں رک گیا۔
یقیناً وہ غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اُس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ وہ مراقبہ کی حالت میں چلی گئی۔ بالکل بُت کی طرح۔ اپنے غم کے سامنے شکست کھاۓ ہوۓ۔ وہ بند آنکھوں سے اپنی مخفی یادوں کی تسبیح پڑھ رہی تھی۔ ایسی بے جان تھی گویا مر چُکی ہو اور اسی حالت میں دوسرے مردے کا ماتم کر رہی ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply