استنبول کا ایک دن۔۔سیّد عامر محمود

استنبول میں صبح کے دس بج رہے تھے جب میں اور فاخرہ اتاترک انٹرنیشنل  ایئرپورٹ سے باہر نکلے۔میں اس سے پہلے بھی کئی  دفعہ استنبول آچکا ہوں۔ لندن انڈرگراونڈ ٹرین کا اوسٹر(Oyster) اور استنبول کا ٹرانسپورٹ کارڈ عموماً میرے سفری سامان میں موجود ہوتے ہیں۔ایئرپورٹ کے نیچے ٹرین اسٹیشن ہے جہاں سے میڑو اے اور بی چلتی ہیں۔ہم نے میڑو ٹرین لی اور اس کے آخری اسٹیشن آکسرے جا اُترے۔ ۲۰۱۴ میں ، میں پہلی دفعہ استنبول آیا تو اسی علاقے میں قیام رہا۔ آکسرے نام کا ایک شہر انقرہ سے کیپیدوسیا جاتے ہوئے راستہ میں بھی میں نے دیکھا تھا۔شاید اُسی علاقہ کے لوگوں نےاسے آباد کیا ہو۔استنبول کے آکسرے میڑو ٹرین اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر ہی آکسرے ٹرام اسٹیشن واقع ہے۔ یہیں سے ہم سلطان احمت کیلئے ٹرام پر سوار ہوئے۔ اس ٹرام لائن کا آخری اسٹیشن کباتاش ہے۔

استنبول کےسیاحتی حوالوں سے اہم مقامات اسی ٹرام لائن پر واقع ہیں۔ میرے ذہن میں جو آوازیں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہیں اُن میں اس ٹرام لائن پر پکارے جانے والےاسٹیشن کے نام ہیں ۔ یہ نام میرے وجود میں خوشبو کی مانند بس گئے ہیں۔آکسرے، کپالی چارشی، چیمبرلی تاش، سلطان احمت،توپ کاپی سرائے، گُل ھانے،سرکسی، امینونو، قرہ کوئے اور کباتاش۔۔ آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی یہ نام اور اس کے ساتھ جُڑی یادیں اور ان کا حُسن تابندہ ہے۔

جدھر جاتا ہوں میرے ساتھ جاتی ہے تری خوشبو

بلیو مسجد سے چند قدم کے فاصلے پر آراستہ بازار کے بالمقابل ہوٹل میں ہمارا قیام ہے۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہمارے کمرے سے ملحق بالکونی ہے اور اس میں دو کرسیاں اور ایک میز لگی ہوئی  ہے۔ اس بالکونی سے دور تک پھیلا نیلا آسمان اور باسفورس و مرمرا کا نیلگوں سمندر بہت قریب دکھائی  دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہوئی  کہ ہوٹل کے اسی کمرے میں ایک دفعہ پہلے بھی ٹھہر چکا تھا۔ سیاحت کے نقطہ نظر سےاستنبول میں مختصر قیام کے حوالے سے میرا تجربہ یہ ہے کہ بلو مسجد کے آس پاس کا علاقہ سب سے بہتر ہے۔ سلطان احمد کی مسجد کے اطراف میں تنگ پُرپیچ گلیاں اور بازار ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قہوہ خانے ، ترک حمام،ریستوران اور ہاتھ سے بنی چیزوں کی دوکانیں ہیں۔میری سب سے بڑی عیاشی بغیر کسی مقصد کے ان اونچی نیچی گلیوں میں پھرنا ہے۔

سیاحت کے حوالے سے اہم جگہوں سے تو سب واقف ہوتے ہی ہیں۔ لیکن بہت سے خوبصورت اور اہم مقامات و واقعات سے انہی انجان گلیوں میں مڈبھیڑ ہو جاتی ہے۔نیلی مسجد سے تھوڑے ہی فاصلہ پر قدیم محلے میں صدیوں پرانی مسجد سکولو محمت پاشا (Sokullu Mehmet Pasa Mosque) کے نام سے موجود ہے۔ یہاں سے مرمرا کا گہرا نیلا سمندر اور اس کے چمکتے پانی پر چلتے کارگو بحری جہاز صاف دکھائی  دیتے ہیں۔ مسجد کی شکستہ بیرونی دیوار پر انگور اور بوگن ویلیا کی خوش رنگ بیلیں اپنے ہونے کا پتہ دے رہی   تھیں۔ مقامی چند لوگوں کے علاوہ یہاں کوئی  نہیں تھا۔

سیاحوں کے ہجوم سلطان احمت، آیا صوفیہ اور گرینڈ بازار کا رُخ کئے ہوئے ہیں۔ سکولو محمت پاشا کی اس مسجد کے آس پاس گہری خاموشی اور سکون کا راج ہے۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد سمندری پرندوں کی آوازیں اس خاموشی کے پردے کو چاک کرتی ہیں۔میں اس مسجد میں کچھ وقت گزارکر باہر آیا تو ایک مقامی فرد نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو اس مسجد کی اہمیت معلوم ہے۔ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ اس نے انگریزی میں مجھ سے پوچھا” do you know black stone”۔ مجھے پھر بھی سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔تب وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اس لوح تک لئے گیا جہاں اس قدیم ترین مسجد کا تعارف درج تھا۔مسجد و مدرسہ کی تعمیر پانچ سو سال قبل عثمانی دور کے مشہور ترین معمار سنان کی نگرانی میں مکمل ہوئی۔اس مسجد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی محراب میں بلندی پر “حجر اسود” کے چند ٹکڑے محفوظ کئے گئے ہیں۔ حجر اسود کے یہ ٹکڑے سلیمان عالی شان کے حُکم پر یہاں لائے گئے۔ میں ان صاحب کے ہمراہ دوبارہ مسجد کے اندرونی ہال میں داخل ہوا۔ جنت سے آئے حجر اسود کے قیمتی اور بابرکت پتھر کے ٹکڑوں کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو روشن کیا۔

استنبول میں آتے ہی میری سب سے پہلی خواہش اور مصروفیت یہ ہوتی ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری ( رضی اللہ عنہ) کے مزار پر حاضری دوں اور ان کی مسجد میں کچھ وقت گزاروں۔ میں اور فاخرہ تھوڑی دیر آرام کرکے سلطان احمت ٹرام اسٹیشن سے ٹرام کے ذریعے امینونو کے اسٹیشن پر اُتر گئے۔ امینونو سے بس لی۔ یہ بس گولڈن ہارن کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی  سلطان ایوب کے سٹاپ پر رُکتی ہوئی  آگے چلی جاتی ہے۔ اس سٹاپ سے چند قدم کے فاصلے   پر مسجد ومزار کی قدیم عمارات واقع ہیں۔ یہ مسجد و مزار اور اس سے ملحق علاقہ ہر وقت زائرین سے بھرا رہتا ہے۔ عقیدت، محبت اور وارفتگی اس پورے ماحول میں رچی بسی ہوئی  ہے۔ حاضری، دُعا اور مسجد میں نماز کی ادائیگی کے بعد ہم احاطہ سے باہر نکل آئے۔کسی خوشی پرشکرانہ کے طور پر ٹرکش مٹھائی  کے ڈبے اپنے ہاتھوں میں لئے کچھ نوجوان زائرین اور سیاحوں کی تواضع کررہے تھے۔ نئے شادی شدہ جوڑے اور بچے سلطان اور شہزادوں کے لباس پہنے یہاں اکثر نظر آتے ہیں۔ ہم احاطہ سے متصل قدیم قبرستان میں سے گزرتے ہوئے شاخ زریں کی طرف گئے اور پھر وہاں سے واپس آئے۔ آج موسم میں حدت تھی۔ ترکی کی “ لسی” آرن (Ayran) مجھے بہت پسند ہے۔ بجائے ایک ایک گلاس پینے کے ایک یا دو لیٹر کی بڑی بوتل لینا زیادہ سودمند ہے۔کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں استنبول لسی پینے یا پھر حافظ مصطفی کی رائس پڈنگ کھانے کے چکر میں وارد ہوتا ہوں۔

سلطان ایوب سے بس لے کرہم امینونو(Eminonu) کے سٹاپ پر اُتر گئے۔ امینونو پرانے استنبول کا معروف مقام ہے۔ امینونو کے بس اسٹیشن پر اُترے تو سامنے ہی صدیوں پرانا سپائس بازار تھااور اس بازار سے جُڑی تنگ گلیاں جو بتدریج بلندی کی طرف جاتی ہیں۔ گزشتہ سال انہی  پُرہجوم گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا سلیمانیہ مسجد تک گیا تھا۔ تاہم آسان راستہ یہ ہے کہ گرینڈ بازار سے سلیمانیہ مسجد تک جایا جائے۔ طے یہ پایا کہ اگلے روز شام کو گرینڈ بازار سے ہوکر سلیمانیہ مسجد جائیں گے۔ بھوک لگی ہوئی  تھی اور امینونو میں اس کا بہترین علاج باسفورس کی تازہ grilledمچھلی جو کہ خستہ بریڈ میں سلاد پتہ ، ٹماٹراور کچی پیاز کے ساتھ دی جاتی ہے۔اسں سڑیٹ فوڈ کو یہاں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے ۔ نام ہے اس کا balik Ekmek (فش سینڈویچ)۔ جہاں گردوں کا بہترین کھانا۔۔ وقت اور پیسے دونوں کی بچت۔ پانچ لیرا اور پانچ ہی منٹ۔

استنبول کا سب سے نمایاں لینڈ مارک گلاتا ٹاور ہے۔
آج کے دن کا اختتام گلاتا ٹاور( Galata Tower) کی بالکونی پر ہونا ہے۔چودھویں صدی عیسوی کے بنے اس تاریخی گلاتاٹاور نے استنبول کی خوبصورتی کوحقیقی معنوں میں چار چاند لگائے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ گلاتا ٹاور کی بلندی سے سورج کی آخری جھلک سے سنہرا ہوتا استنبول دیکھ سکوں۔ اس لئے امینونو سے ٹرام لے کر اس کے آخری سٹیشن کباتاش پرجا اُترے۔کباتاش باسفورس کے کنارے پر واقع ہے اور ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مرکزی حیثیت کا حامل مقام ہے۔ یہیں سے کچھ فاصلے پر آخری عثمانی خلیفہ کا پُرشکوہ محل( دولما باشی) واقع ہے۔ محل کی سیڑھیاں باسفورس کے پانیوں میں اُترتی ہیں۔اسی محل کے ایک کمرہ میں ترکی کے بانی اتاترک نے اپنی زندگی کے آخری لمحے گزارے تھے۔کباتاش ٹرام اسٹیشن کے نیچے ہی انڈرگرانڈ ٹرین اسٹیشن بھی موجود ہے۔یہاں سےFunicular ( کیبل میٹرو) تاکسم سکوائر تک لے کے جاتی ہے۔ یہ سیدھی چڑھائی  کا سفر ہے جو فینی کولر کی وجہ سے کسی دقّت کے بغیر چند منٹوں میں طے ہوجاتا ہے۔تاکسم کے زیرزمین اسٹیشن سے باہر نکلے تو اپنے آپ کو تاریخی تاکسم سکوائر پر پایا۔ آج کے استنبول کا یہ سب سے مشہور اور معروف علاقہ ہے۔ یہ نقطہ آغاز بھی ہے استقلال سڑیٹ کا۔ جو مقام لندن میں آکسفورڈ سڑیٹ یا پیرس میں شانزےلیزے کو حاصل ہے وہی مقام ومرتبہ استنبول میں استقلال سڑیٹ کو حاصل ہے۔ہمارا پروگرام یہ ہے کہ تقسیم سکوائر سے ہوتے ہوئے استقلال سڑیٹ کی دوکانوں میں جھانکتے گلاتا ٹاور تک جائیں ۔واپسی پر گہری ہوتی رات میں پیدل ہی پہاڑ پر بنی بل گھاتی سنسان گلیوں سے اُتر کر قرہ کوئے سے ٹرام پکڑیں ۔سو ایسا ہی کیا گیا۔

گلاتا ٹاور کے باہر ٹکٹ کیلئے لائن میں ساٹھ سےزیادہ مرد و خواتین موجود تھے۔چالیس منٹ کے بعد ھم گلاتا ٹاور کی ٹکٹ ونڈو کے سامنے تھے۔ پچاس لیرے کے دو ٹکٹ لیکر بذریعہ برقی لفٹ ہم گلاتا ٹاور کی آخری منزل کی طرف چل پڑے۔ گلاتا ٹاور کی بالکونی سے استنبول کا فسوں خیز نظارہ میرے سامنے ہے۔ بحیرہ مرمرا، آبنائے باسفورس ، شاخ زریں، مشرق و مغرب کی قدیم و جدید شہر کی عمارتیں، کھپریل کی سُرخ چھتیں ، غلاطہ پُل سے گزرتی ٹرام، مسجدوں کے آسمان میں شگاف ڈالتے مینار۔۔کنار دل سے حد اُفق تک، سب اک نگاہ میں تھا۔یہ ایسا منظر ہے کہ جسے زندگی کی آخری سانس تک نہیں بھلایا جاسکتا۔غروب ہوتے سورج نے سارے استنبول کو سنہرا کردیا تھا۔شاخ زریں، آبنائے باسفورس اور مرمرا کا پانی سیال سونے میں بدل گیا تھا۔
ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں
ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی

میں ستاروں بھرے آسمان کے نیچے گلاتا ٹاور کی بالکونی سے چاند دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔اس بلندی پر چاند چہرے بھی ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ہیں۔محبت کرنے والے یہاں عہدوپیماں کی ایک نئی منزل سر کررہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کوئی  اپنے محبوب کو لے کر گلاتا ٹاور کی اس بلندی تک پہنچ جائے تو قسمت میں ان کا ملن لکھا جا چکاہے۔ محبت چاہے کائنات کے مناظر کی ہو یا انسانوں کے درمیان نازک و پیچیدہ رشتوں کی، اسی سے زندگی کی رونق قائم ہے۔ ان محبت کرنے والوں کو ان کے حال پہ چھوڑا کیونکہ اب ہمیں یہاں کھڑے کافی دیر ہوگئی  تھی۔ آسمان سے رات برسنی شروع ہوگئی  تھی۔شاخ زریں کا سنہرا پانی سیاہ ہورہا تھا۔
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہےرات

ہم بھی زینہ بہ زینہ نیچے اُتر آئے۔گلاتا ٹاور کے آس پاس کا علاقہ دودھیا روشنی میں لوگوں کی چہل پہل سےآباد ہوچکا تھا۔ ٹاور کے وسیع کمپاونڈ میں ڈانس گروپ کی پریکٹس جاری تھی۔بیس کے قریب مختلف عمر کے مرد اور اتنی ہی خواتین اس ڈانسنگ کلب کے ممبر کے طور پر محو رقص تھے۔یہ سٹیپ ڈانس کے بنیادی اسباق پر مبنی پریکٹس تھی۔ وہ سب دنیا ومافیہا سے بے خبر ایک دائرہ کی صورت اپنی مشق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موسیقی کے ڈیک پر مولانا روم کا یہ قول جلی حروف میں لکھا ہے “محبت کے بغیر ہر موسیقی شور ہے ، ہر رقص محض پاگل پن ہے اور سب عبادتیں بوجھ ہیں “۔ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ درست ہے اور کسی بڑے کام کا،جذبہ کی شدت کے بغیر وقوع پذیر ہونا ناممکن ہے۔

ہم بہت دیر سے امینونو ٹرام اسٹیشن کے بالمقابل کتابوں کی دکان کی کافی شاپ میں بیٹھے ہیں۔ دو براعظموں کے سنگم پہ قائم سات پہاڑوں پر پھیلے استنبول کو دیکھ رہے ہیں۔ غیر معمولی تاریخ، شاندار ثقافت اور لا زوال حُسن کو یہ شہر اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے۔ نیویارک، ٹورنٹو، لندن، پیرس ، روم اور اس طرح کے دیگر بڑے شہروں سے کافی حد تک واقف ہوں۔لیکن شاید ہی دنیا کا کوئی  شہر استنبول کی ہمسری کرسکے۔

آبنائے باسفورس اور اُس سے پھوٹتی شاخ زریں ( Golden Horn)اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ امینونو کے اس مقام پر خاص قسم کی گہما گہمی اور شور فضا میں چھایا ہوا ہے۔جس تصویر کا ہم حصہ ہیں وہ بہت ہی خوبصورت اور شوخ رنگوں سے بنی ہے۔ گولڈن ہارن میں چھوٹے بڑے جہازوں کی مسلسل آمدورفت اور اُن کا شور، غلاطہ برج پر کھڑے درجنوں ماہی گیر اور ان کی گپ شپ، شاخ زریں کے دوسری طرف پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر بنے چھوٹے چھوٹے گھر اور ان کے درمیان تاریخ کی گواہی دیتا گلاتا ٹاور ، خوبصورت جامع مسجد والدہ سلطان اور اس کے مہین مناروں سے بلند ہوتی آذان۔

Advertisements
julia rana solicitors

استنبول کا یہ دن اُن دنوں میں سے ہے جو کبھی رخصت نہیں ہوتے۔ حافظے کی لوح پر ہمیشہ جگمگاتے رہتے ہیں۔ میں استنبول میں اپنا دل گُم کربیٹھا ہوں ۔اب اس کی تلاش میں مجھے یہاں آنا ہوگا۔ یہی میری قسمت اور یہی میرا حاصل۔۔
“سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply