ہالووین۔۔محمود اصغر چوہدری

آپ میں سے ہر کسی نے بچپن میں کبھی نہ کبھی شادی کی بارات پر پھینکے جانے والے پیسے اٹھائیں ہوں گے۔ اگر نہیں اٹھائے تو آپ کا بچپن نہایت ہی بے رنگ گزرا ہے ۔اور اگر آپ نے اٹھائے ہیں تو یقینا ً آپ جانتے ہو ں گے کہ یہ چھوٹی سی حرکت آپ کو کتنی خوشی دیتی تھی۔کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ وہ خوشی کیوں ملتی تھی ؟ آپ میں سے کوئی بھی اتنا غریب نہیں ہوگا کہ جس کے والدین اسے جیب خرچ نہیں دیتے ہوں گے آپ میں سے کوئی بھی ان پیسوں سے امیر نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ صرف ایک دن کے لئے کچھ نیا کرنے کا مزہ تھا۔

کیا خوش ہوتے وقت آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی  کہ اس عمل کا تعلق کسی روایت ، کسی مذہب سے تو نہیں ہے۔ کبھی کسی دانشور نے کوئی ایسی تحقیق کرکے آپ کو بتایا کہ ایسا عمل ہندوانہ رسم و رواج سے ہے اور اس سے آپ کے عقیدے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔نہیں نا ؟

تو پھر یہ بہت سے دانشور ہمیں کیوں ایسی تحقیق کرکے بتاتے رہتے ہیں کہ ہالووین بہت ہی خطرناک تہوار ہے۔

قبل از مسیح دور میں یورپ کے کسانوں کا خیال تھا کہ جب موسم گرما ختم ہوتا ہے اور موسم سرما شروع ہونے و الا ہوتا ہے تو وہ ایک جانب کٹائی کا تہوار یعنی ہارویسٹ فیسٹیول مناتے اور چراغاں کرتے تھے اور دوسری  جانب سردی میں اماوس کی راتوں کو اندھیری راتیں یعنی موت کی راتیں قرار دیتے کیونکہ یورپ میں اکثر عمر رسیدہ لوگ سردیوں میں سخت ٹھنڈکی وجہ سے ابھی بھی مرجاتے ہیں اس لئے وہ اکتوبر کی آخری رات کو روحوں کے حوالے سے مناتے تھے اور کسان اپنی سبزیوں خاص طور پر پیٹھے کی سبزی کو روح بلکہ بد روح کی شکل کا بنا لیتے تھے تاکہ بدروحوں سے اظہار یکجہتی کر لی جائے ۔

آٹھویں صدی میں عیسائی راہنما یعنی پوپ نے فیصلہ کیا کہ بے وقوفوں کی طرح کافروں کے دور کی یا د منانے کی بجائے کیوں نہ یکم نومبر کو اولیاء  کا دن منایا کریں جو اصل میں نیک روحیں ہیں اس لئے اسے فیسٹیول آف سینٹ کا نام دیا گیا لیکن یورپی شہری عیسائی بزرگ ہستیوں کا دن اتنی شدو مد سے نہ منا سکے اورپھر کئی صدیوں تک یہ تہوار تاریخ کے اوراق سے غائب ہو گیا ۔

تہواردر اصل ترقی اس وقت کرتے ہیں جب وہ کسی بزنس مین کے ہتھے چڑھتے ہیں جیسا کہ کرسمس کی شاپنگ کا عیسائی مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور میلاد میں چراغوں اور جھنڈیوں کے اصراف کا اہل علم بریلیویوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح 1921 ءمیں پہلی دفعہ امریکیوں نے اس تہوار کو باقاعدہ کمرشل نقطہ نظر سے منانا شروع کیا جس میں دوکانوں پر مہنگے سوٹ اور چہروں کی پینٹنگ بکتی ہے البتہ یورپ میں ابھی بھی اس تہوار کوروایتی یا مذہبی حوالے سے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔

ہالوین کا کسی الہوی مذہب سے بطور مذہبی تہوار کا  کوئی تعلق نہیں ہے ۔ البتہ یورپی بچے امریکی فلموں ، ڈراموں اور کارٹونز سے متاثر ہو کر اس دن تھوڑا ہلہ گلہ کرتے ہیں، مختلف کاسٹیومز پہن کر شام کو گلیوں میں دوڑتے پھرتے ہیں ۔ اگر آپ یورپ برطانیہ یا امریکہ میں موجود ہیں اور آپ کے بچے اس دن تھوڑا خوش ہونا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ مختلف کپڑے پہن کر مختلف رو پ دھار لیتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دیں۔ وہ کسی مذہب کا پرچار نہیں کر رہے ہوں گے ۔ اور نہ ہی ایسا کرنے سے کسی مذہب کو کوئی نقصان ہو سکتا ہے۔  یہ ایک میلہ ٹھیلہ ہی تو ہے ہمیں اس کو اتنا حرز جان بنانے کی کیا ضرورت ہے یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی ہم پاکستانیوں سے پوچھے اچھا بچوبتاؤ  پہلی واری جنج کس نے لوٹی تھی یعنی بارات پر گرائے جانے والے پیسے اٹھانے کی رسم کہاں سے شروع ہوئی ؟
پانچ سے دس سال کے بچوں کو کیا خبر کون سا تہوار کون سی قوم کا ہے۔ آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کچھ ایسی رسم و رواج ہوتی ہیں جو ان لوگوں کے لئے عام ہوتی ہیں۔اگر آپ کسی کی خوشیو ں کا حصہ نہیں بن سکتے تو ان کے لئے ناصح بھی نہیں بننا چاہیے ۔ بلکہ آپ اگر یورپ ، برطانیہ یا امریکہ میں مقیم ہیں تو اکتوبر کے آخری ہفتے بازار سے جا کر ٹافیاں اور چاکلیٹس خرید کر رکھ لیا کریں ۔ کیونکہ اکتیس اکتوبرکو ہالووین نام کا تہوار منایا جا تا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے بچے عجیب و غریب لباس اور ماسک پہنے آپ کے گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور آپ کو ”ٹریک آر ٹریٹ “ کہتے ہیں آپ دروازہ کھولنا اور انہیں ٹافیاں دے دینا۔ ان کے چہرے پر خوشی دیدنی ہوگی۔کسی بھی بچے کے چہرے پر خوشیاں بکھیرنے سے بڑی خوشی کیا ہوسکتی ہے۔ وہ بچے آپ کی ٹافیوں یا آپ کی چاکلیٹس کے بھوکے نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کا یہ تہوار کیوں منایا جا رہا ہے بلکہ اس تہوار کا کسی مذہب سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یاد رکھیں بچوں کے چہروں پرمسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے آپ کے مذہب پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ الٹا ان بچوں کے والدین پر یہ تاثربہت اچھا ثابت ہوگا کہ مسلمان ان کے بچوں سے اخلاق سے پیش آتے ہیں ۔ یہ بات میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ گھر پر صدا دینے والے کو کچھ کھانے کو دینا کوئی برائی نہیں۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply