مذہبی بنیاد پرست طبقہ اور ریاست پاکستان ۔۔عامر حسینی

ریاست پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور اُس کے بغل بچہ سابق اور حاضر سلیکٹڈ کی یہ روش رہی ہے کہ وہ مذہبی بنیاد پرست طبقے سے ایک یا ایک سے زیادہ گروہوں اور اُن کے رہنماؤں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں – اس وقت پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور اس کے سلیکٹڈ کی طرف سے ایک طرف تو دیوبندی مذہبی تھیاکریسی میں مولانا طارق جمیل، مولانا طاہر اشرفی، مولانا سمیع الحق کی جماعت پہ دست شفقت رکھا ہوا ہے-دوسری جانب اسٹبلشمنٹ نے شیعہ تھیاکریٹک اسٹبلشمنٹ میں کراچی سے اردو اسپیکنگ ملا شہنشاہ حسین نقوی، اسلام آباد اور پنجاب سمیت ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم مجلس وحدت المسلمین، اس کے رہنماؤں راجہ ناصر، امین شہیدی پہ دست شفقت ہے، ایسے ہی بریلوی تھیاکریٹک میں تحریک لبیک، سُنی تحریک، اور یہاں تک کہ ڈاکٹر طاہر القادری پہ دست شفقت ہے ان سب کو کہیں نہ کہیں استعمال کیا جاتا ہے۔

ریاست کی جہاں تک پراکسی پالیسی کا تعلق ہے تو ہمیں سپاہ صحابہ، تحریک طالبان پاکستان کے کچھ دھڑوں اور افغان طالبان پہ. بھی دست شفقت نظر آتا ہے اور اہلحدیث میں جماعۃ دعوہ بطور تنظیم کے طور پہ تو کیموفلاج ہے لیکن ان کے سٹرکچر کو بھی اسٹبلشمنٹ نے گود لے رکھا ہے۔ یہ پاکستان کے سارے فرقوں کے اندر سے مذہبی تھیاکریسی کی پاکٹس کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں لیکن اگر ہم ان فرقوں سے تعلق رکھنے والی عوام کو دیکھیں تو ان کی اکثریت اپنا سیاسی ووٹ جو ہے وہ فرقہ وارانہ شناخت سے ہٹ کر اپنے مفادات اور رجحانات کے زیر اثر دیتے ہیں، ان فرقوں میں لاکھوں لوگ اپنا ووٹ پی پی پی، مسلم لیگ نواز، پشتون اور بلوچ قوم پرست سیکولر جماعتوں کو دیتے ہیں۔ ریاست پہلی بار جشن عید میلاد النبی یا محرم الحرام سرکاری سطح پہ نہیں منارہی یہ سلسلہ تو کالونیل دور سے جاری ہے، پنجاب، سندھ جہاں بریلوی اور شیعہ عوام کی بھاری اکثریت ہے اور دیوبندی عوام تیسرے نمبر پہ ہیں اُن کی اکثریت نے ہمیشہ اپنا وزن سیکولر جمہوری قوتوں کے پلڑے میں ڈالا اور بلوچستان اور کے پی کے میں جہاں عوام دیوبندی روایت سے زیادہ وابستہ ہیں۔

ہمیشہ قوم پرست سیکولر سیاست کی طرف رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ بریلوی عوام کی اکثریت اپنے آپ کو اسٹبلشمنٹ کی پراکسی اور پیدل سپاہی کے طور پہ پیش کرے گی ۔ سیاسی طور پہ بریلوی انتہاپسند بھی سیاسی یتیم ہی ہیں –

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں کمرشل لبرل اور مسلم لیگ نواز کا حامی میڈیا کے تجزیہ نگار “عام مذہبیت” اور “انتہاپسندانہ مذہبیت” کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ایسے ہی وہ فرقوں کی مذہبی پیشوائیت اور فرقوں کی عوام کے درمیان فرق نہیں کرتے اس لیے اُن کا تجزیہ بھی خطرناک حد تک عوام کی مذہبی شناخت کو ان کے فرقے کی مذہبی پیشوائیت کی مذہبی شناخت سے اشتراک کی وجہ سے مذہبی پیشوائیت کے رجحان کو ایک فرقے کی عوام کا مجموعی رجحان قرار دے ڈالتے ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply