“میں ایسا ہی ہوں” -ایک وہم۔۔تنویر سجیل

“میں ایسا ہی ہوں” -ایک وہم۔۔تنویر سجیل/آپ نے اکثر لو گوں کو یہ کہتا سنا ہو گا کہ میں ایسا ہی ہو ں۔مجھے آپ جو مرضی نصیحت کر لیں ،  راہ دکھا لیں ، ڈرا دھمکا لیں!

مگر میں ایسا ہی رہوں گا  جیسا میں بچپن سے ہوں ، آپ کی   میرے ساتھ کی جانے والی بھلائی اور درست مشورے کی میرے سامنے کوئی  ویلیو نہیں  اور نہ ہی آپ کو یہ سب کر کے اپنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ جن خطوط ، حالات اور ماحول نے میری تربیت اور پرورش میں اپنا کردار ادا کیا ہے  اور اس کے نتیجے میں میری جو بھی  عادات، رویے  اور پرسنیلٹی ڈیویلپ  ہو چکی ہے اب وہ میری نیچر بن چکی ہے اور ان سب کو نہ تو میں بدل سکتا ہوں ، نہ بدلنا چاہتا ہوں اور نہ ہی کسی کو اجازت ہے کہ میرے مزاج میں کوئی دخل اندازی کرے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے لوگوں میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی دوسرے سیارے سے تشریف لائے ہوئے انسان سے بات سن رہے  ہیں  کہ جہاں پر تربیت اور پرورش کے ایسے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے جن کا اطلاق اس سیارے کی مخلوق پر ہرگز نہیں ہو سکتا ۔ جیسے یہ کسی خاص برانڈکے سٹور کی پروڈکٹ ہو ، جیسے ان  کے ڈی۔ این ۔اے میں ایسی کوڈنگ کر دی گئی ہے جس کو بدلنے کے ٹولز  اور ہنر ادھر کے سیارے  کے  باشندے کے پاس نہیں ہیں ۔

یعنی ایک ایسے بندے سے ملاقات کا نادر موقع ملتا  ہے،جو بظاہر تو جیتا جاگتانظر آتاہے ، سانس لیتا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے مردہ ہو چکا ہوتا ہے   جیسے کہ وہ ڈیڈ مین کسی بھی صورت کوئی ایسی حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا  جس کو کر کے وہ اپنے آپ کو زندگی کی راہ پر چلا سکے  اور یہ ثابت کر سکے کہ  اس کے سافٹ وئیر میں ایسی کوئی تبدیلی   نہیں  ہوئی  اور نہ ہی ایسا کوئی وائرس    آیا ہے   جو اس کو اس حد تک لاشعوری طور پر مردہ بنا دے کہ وہ زندگی  کی تمام رمق ، رنگینی  اور مزے کی خاطر جدوجہد و محنت کو ترک کر کے صرف ایک جملے کا بہانہ بنا کر کہ  “میں ایسا ہی  ہوں ” اپنی اور دوسروں کی زندگی کو مشکلات کے لامتناہی سلسلوں سے جوڑ دے ۔

ایسے جملوں کو کہنے والوں کی اگر شماری کریں تو حیرانگی بھی دم سادھ لے کہ یہ جملے زیادہ تر نوجوانوں اور ٹین  ایج کے لڑکوں کا ایک بہترین ڈھکوسلہ   ہوتے  ہیں جس کو دوسروں کے  سامنے پیش کر کے وہ اپنی ناامیدی  اور کم عقلی کا  عقلی جواز دے رہے ہوتے ہیں ۔

یعنی کہ  ایک ایسے ایج گروپ کا نمائندہ جو کہ اپنی ایج گروپ کے ولولے ، جوش اور امید وعمل کی علامت ہوتا ہے وہ زندگی کے چند سال گزارنے کے   بعد ہی اتنا تھک جاتا ہے کہ اس کو  باقی کی زندگی ہی بوجھ لگنے لگ جاتی ہے  اور وہ سمجھتا ہے کہ حالات اور ماحول نے   اس کی تربیت کر کے جو اسے بنا دیا ہے تو اب اس جنیٹک کوڈ کو نہیں بدلا جا سکتا ۔

وہم کا یہ دلفریب دھوکہ دراصل ایک ڈیفنس کے طور پر اپنا لیا جاتا ہے  کہ یہ ڈیفنس ایک ایسی سہولت بخشے گا  کہ اس کے ہوتے ہوئے مزید مشقت کی ضرورت نہیں ہوگی  اور صرف  ایک یہ جملہ بول کر سامنے والے شخص کی زندگی میں کھلبلی مچا دی جائے گی کہ خبردار اب اگر دوبارہ میرے ایسے ہونے پر اعتراض کا عَلم بلند کیا  یا مجھے کسی قسم کے بدلاؤ کا مشورہ دیا  تو میں بالکل بھی ایسا کبھی نہیں کروں گا چاہے آپ میری عادت، رویے  سے سسک سسک کر مر ہی کیوں نہ جائیں ۔

ہٹ دھرمی کی  یہ انتہا پسندی بے شک زندگی میں آپ کے  دئیے  جانے والے حصے کو کم یا بالکل ختم تو کر دیتی ہے مگر اس وہم کا سب سے بڑا وبال پریکٹیکل لائف میں شروع ہوتا ہے  کیونکہ جب کوئی شخص ایک مسلسل عرصے سے ایسے کمتر جذبے  اور بے عملی کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کے ذہن کے پاتھ وے بدل جاتے ہیں برین سرکٹ کی یہ تبدیلی دراصل ذہن کی  اعلیٰ  صلاحیتوں کے ساتھ ایک ایسا کھلواڑ کرتی ہے   کہ فرد کسی صورت بھی اپنے آپ میں ذرا ہمت نہیں کر پاتا کہ وہ اپنے اس خودساختہ فریب سے باہر نکل آئے جس فریب کی وجہ سے اس کی زندگی تباہ ہو رہی ہے ۔

چونکہ پریکٹیکل لائف ایک بے رحم لائف سٹیج ہے جس میں آپ کو اپنی لائف کی سٹوری مکمل کرنے کے لیے اپنے کردار کے ساتھ ساتھ دوسرے کرداروں کی بھی ضرورت پڑتی ہے  اور جب دوسرے کردار جیسا کہ بیوی ، بچے ، بہن بھائی ، ماں باپ آپ کی لائف سٹوری میں اپنا کردار نبھا رہے ہوتے ہیں تب آپ کے اپنے کردار کی کم پرفارمنس انکے کردار کی بھرپور پرفارمنس کو بھی لے ڈوبتی ہے، جس سے صرف آپ کی ہی  لائف سٹوری  فلاپ نہیں ہوتی بلکہ باقی کرداروں کی  لائف سٹوری اور بھرپور پرفارمنس کو بھی  مشقت کی داد سے محروم کر دیتی ہے ۔

ایسے میں صرف ایک جملہ کہ  “میں ایسا ہی ہوں ”   آپکی زندگی میں شامل باقی کرداروں کو بھی زندگی   کی رنگینی سے محروم تو کرتا ہی  ہے،مگر ساتھ ساتھ زندگی کی تلخی کو اس حد تک بڑھا دیتا ہے کہ باقی کے کرداروں کو بھی زندگی بوجھ لگنا شروع  ہو جاتی ہے اور ان کو ایسا راستہ دکھائی نہیں دیتا کہ آپ کی اس لائف سٹوری سے باہر نکل کر اپنا وجود برقرار رکھ سکیں ۔

یہ کہنا ہرگز غلط نہیں کہ بعض دفعہ حالات اور ماحول سازگار نہیں ہوتے اور آپ کی پے در پے کوششوں کے باوجود وہ نتائج  برآمد نہیں ہو پاتے جس کے آپ مستحق ہوں مگر یہ کہنا یقیناً غلط ہے کہ حالات اور ماحول نے آپ کو اس قابل کر دیا ہے کہ اب آپ قابل ِ رحم بن کر رہ جائیں اور لوگوں کی خود ترسی پر قناعت کر لیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جبکہ جبر  اور جدوجہد کے درمیان آپ کی اس لڑائی میں صرف ایک بات   ہی آپ کو کامیاب ٹھہرا سکتی ہے  اور وہ بات یہ ہے کہ آ پ کی چوائس  پریکٹیکل ہو  جس میں آپ جبر کو پیچھے چھوڑ دیں اور جدوجہد  کو آگے بڑھاتے رہیں تاکہ آپ کے ذہن  میں ایسے پیٹرن اور پاتھ وے ڈیئزائن  ہو ں  جو زندگی  کو کاکامیابی کی راہ پر لاتے ہوں اور زندگی کو خوشی کا محور بناتے ہوں نہ کہ آپ ایک جملے کو اپنا مورچہ بنا لیں اور اپنے آپ کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی  خوشی اور آسودگی سے محروم  کر دیں۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply