• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • رگھناتھ کستور اور ابن حسام کا کشمیر(3،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

رگھناتھ کستور اور ابن حسام کا کشمیر(3،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

بقول شیخ محمد عبداللہ ’’پنڈتوں کے جذبہ امتیاز کو تقویت دینے کے لیے آدتیہ ناتھ بھٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے‘‘۔ افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زباں زدِ عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ہندو ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں ہی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’ در‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھوں کے دور ہی میں کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گاوٗکشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہِ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک19کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمراں مہاراجا گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بْننے والے کاریگروں پر اس کے ٹیکس کی مار نے 1865 ء میں سرینگر کی سڑکوں پر دْنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔ بندوبست اراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ’’ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔19ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکریاں حاصل کرنی شروع کی ، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کے لیے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علیحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کیے۔ 1931 میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپیگنڈا کیا کہ یہ دراصل ہندو مہاراجا کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو کشمیر مسلمان بنام پنڈت بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’روٹی ایجی ٹیشن ‘ شروع کی۔ انھوں نے مہاراجا کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ ’’کولگام علاقے میں ہمارے لیے ایک علاحدہ وطن بنایا جائے‘‘۔ یہ وہی مطالبہ ہے جو کشمیری پنڈت آج کل ایک علاحدہ ہوم لینڈ یعنی’ پنن کشمیر ‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لعل نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کے لیے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجا کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈر کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔اسی مہاراجا نے 1947 میں قبائلی حملوں سے خوف زدہ ہوکر رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دِیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنھوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔ پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاوٗں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاوٗں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاوٗں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا۔ سبھی گائوں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔ خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے انکو بتایا کہ رات گئے گاوٗں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گائوںں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ندامت سے میرے پائوں زمین میں گڑ گئے۔ گذشتہ کئی روز سے ہم نے ان گائوں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا‘‘۔گائوں والوں کو بعد میں ان کو بتایا کہ ان کو لگا کہ سپاہیوں کے بھیس میں وہ پنڈتوں کو قتل کرنے او رلوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں، جو نہ تو پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ کشمیر کی اکثریت کے لیے بہتر ہے، جس نے پنڈت اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انھیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند، اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا‘ یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی ۔ اگست 2019کو بتایا گیا کہ ان اقدامات سے ترقیاتی کاموں میں تیزی آئے گی اور نظم و نسق بہتر ہو جائیگا۔ مگر یہ سبھی وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کڑی نگرانی کے باوجود حکومت مقامی اور غیر مقامی سویلین افراد کو بچا نہیں سکی۔ حکومت اسے ایک سیکورٹی کے مسئلے کے طور سے پیش کر رہی ہے اور اس کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہی ہے۔ کیا نظم و نسق عوام کی شمولیت کے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا سیاسی لیڈران کو جیلوں میں بند کر کے یا ان تک عوام کی رسائی محدود بنا کر تعمیر و ترقی کا کوئی خواب پورا ہو سکتا ہے؟ حکومت کشمیر میں ایک قبرستان جیسی خاموشی پیدا کر نے میں کامیاب تو ہوئی ہے، مگر تعدیب کا راستہ اختیار کرکے مردوں کو بھی زیادہ دیر تک خاموش نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ کب تک ہم معصوم افراد کو قربانی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھیں گے؟ کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا ہے کہ بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں؟ (ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply