• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غلام رسول (شہید پولیس اہلکار) کے بیٹے کو جواب دو۔۔محمد وقاص رشید

غلام رسول (شہید پولیس اہلکار) کے بیٹے کو جواب دو۔۔محمد وقاص رشید

بابا ۔۔ بابا۔ ۔ غلام رسول کا مطلب کیا ہوتا ہے  ؟
غلام رسول نے نیند سے بند ہوتی آنکھیں بمشکل کھول کر کہا میرے چندا,غلام کا مطلب نوکر ،خدمت گزار اور رسولﷺ   کا تو آپ کو پتا ہی ہے ۔ ہمارے پیارے پیغمبر اور خدا کے آخری نبیﷺ،تو مطلب یہ ہوا کہ محمد ﷺ کا نوکر ۔ سمجھ آئی؟ ۔بابا آپ انکے نوکر کیسے ہو سکتے ہیں؟  آپ نے تو خود بتایا تھا کہ وہ چودہ سو سال پہلے ہوتے تھے ؟  ۔غلام رسول نے پاس لیٹے بیٹے کی معصومیت پر اسکے ماتھے پر پیار دے کر اسے اور ساتھ لگا لیا اور کہا میرے لعل۔  اپنے داداجی دادو اماں سے پوچھنا ذرا،اب مجھے نیند آ رہی، سارا دن بڑی ٹف ڈیوٹی تھی، کل بھی ڈیوٹی احتجاج پر ہی ہے ۔ بابا صرف ایک بات بتا دیں ۔ غلام رسول کا میں کل دادو سے پوچھ لوں گا، آپ مجھے صرف یہ بتا دیں یہ احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟ ۔ غلام رسول نے تھکن سے چور آنکھیں مشکل سے کھولتے ہوئے کہا،  یہ میں آپ کو کل سمجھاؤں گا۔  انشاللہ،  شب بخیر۔

اگلے دن غلام رسول تیار ہو کر صبح سویرے نکلا، ماں باپ کے بڑھاپے اور آخری عمر کا سہارا ان سے دعائیں لے کر گھر سے  چلا،  ماں کے سامنے جھکتے ہوئے کہا بس دعا کیجیے گا،خدا خیر کرے۔  کسی طرح سے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاملات طے پا جائیں۔بوڑھی ماں تو جیسے پھٹ پڑی، آنسو پونچھتے ہوئے کہا، سارا دن مصلے پر گزرتا ہے میرا  غلام رسول، ٹی وی پر خبریں دیکھ کر دھڑکا لگا رہتا ہے۔  روح گلے میں اٹکی رہتی ہے، آنسو سیسے کے قطرے بن کر روح پر گرتے ہیں پچھلی بار بھی چار پولیس والے ۔۔یہ کہہ کر ماں نے دوپٹہ دانتوں میں دبا لیا۔ اے خدا میرے منتوں مرادوں سے مانگے ہوئے غلام رسول کی حفاظت فرمانا یا رب،یارسول خدا ۔ اپنے غلام رسول کی سفارش کرنا۔  خدا ساری ماؤں کے بیٹے سلامت رکھے ۔ کسی ماں کی گود نہ اجڑے،اچھا بھلا تیرے باپ کو کہا تھا پُلس کی نوکری نہیں کروانی ۔ نہیں مانے۔۔۔ اتنے میں بوڑھی پسلیوں کے گنبد سے اذان کی طرح کی آواز آئی غلام رسول کے باپ کی ۔۔ کیوں اسکا حوصلہ گھٹاتی ہے، جانے دے اسے۔ ۔ جا میرا پتر غلام رسول خدا تیرا حامی و ناصر ہو ۔ رسول ﷺ  لوگوں کی جان مال عزت آبرو کی حفاظت کا دین لے کر آئے تھے اور تیرا نام غلام رسول اسی لئے تو رکھا تھا جا بچے کر غلامی جا کے رسول ﷺ  کی۔ یہ کہہ کر باپ نے استخوانی بدن کو جیسے غلام رسول کی پولیس کی وردی میں ملبوس جوان جسم پر گرا ہی دیا۔  رب راکھا۔۔برآمدے میں اپنے سکول کی تیاری کرتے غلام رسول کے بیٹے کی آنکھوں میں ٹمٹماتے ستارے یہ بتا رہے تھے کے اسکو بھی اپنے سوال کا جواب مل گیاتھا۔  اس نے بابا کو خدا حافظ کہتے ہوئے کہا بابا میں بھی غلام رسول بننا چاہتا ہوں لیکن میں کیسے بنوں گا  ۔ غلام رسول نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔آج رات کو بتاؤں گا باس۔  یہ کہہ کر غلام رسول نے بیٹے کو سلیوٹ کیا،اسکی بیوی ماں اور باپ تینوں ہنسے اور غلام رسول چلا گیا ۔ چلا گیا غلام رسول۔ ۔

تابوت کے سامنے کھڑا غلام رسول کا بیٹا اپنی ماں کو رو رو کر ہلکان ہوتا اور بے ہوش ہوتا دیکھ رہا تھا، وہ بھی چاہتا بے ہوش ہو جائے ۔ آج پہلی بار غلام رسول اسے دیکھ کر مسکرایا نہیں۔  اسے اپنی پولیس کی وردی میں چھپے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگایا نہیں ۔ اسکے معصوم ذہن کی دیواروں کے ساتھ بہت سارے سوالات جونکوں کی طرح چپک کر اسکے بچپن کا خون چوس رہے تھے۔   ان سوالات کے گھن نے اسے زندگی بھر اندر ہی اندر پگھلانا تھا ۔ ابھی صبح تک اپنے پیروں پر کھڑی اسکی کائنات یوں یکلخت بیساکھیوں پر آ جائے گی، وہ فرشتہ کب جانتا تھا، بس وہ خدا جانتا تھا جس نے اسکی دادو اور دادا کی صبح کی ساری دعائیں رد کر دیں تھیں، انکے اتارے ہوئے صدقے قبول نہیں کیے تھے ۔

غلام رسول کے بیٹے کی آنکھوں میں صبح ٹمٹماتے تارے بجھ چکے تھے ۔ اندھیرے میں آنسوؤں کے اس سراب کے پار اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اسے نہیں پتا تھا اسکی ماما کب ہوش میں آئے گی اور ہوش میں آ کر کیا پہلے کی طرح مسکرائے گی ۔ اسکے دادا کی استخوانی ہڈیوں سے نکلتی سسکیاں اور ہچکیاں کیسے  تھمیں   گی ۔ دادو جب بین کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ گئے تو وہ یہ کہنا چاہتا تھا میرے لیکن وہ تو خود ایک یتیم بے سہارا بچہ تھا ۔ غلام رسول کے اسے “باس” کہہ کر سیلوٹ مارنے سے وہ اپنے آپ کو صرف بڑا محسوس کرتا تھا ۔ تھا نہیں

Advertisements
julia rana solicitors

غلام رسول کا بیٹا اپنے باپ سے ناراض تھا کہ اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، اس نے تو اسے آج رات سونے سے پہلے یہ بتانا تھا کہ یہ احتجاج کس لیے ہو رہا ہے۔  ہوا کیا ہے۔ ٹی وی پر کہا جا رہا تھا کہ کوئی معاہدہ ہوا ہے تو کیا اس معاہدے پر میرے بابا نے عمل نہیں کیا تھا جسکی ہم سب کو یہ سزا ملی؟ ۔وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اپنے دادا جی سے پوچھے کہ آپ تو کہتے تھے کہ رسول ﷺ  جان مال عزت آبرو کی حفاظت کا دین لے کر آئے تھے تو انکا نام لے کر لبیک لبیک کہتے لوگوں نے اسی رسول کے ایک غلام کی جان کیوں لی۔؟ یتیموں کے والی جنہیں یہ کہتے ہیں انکے نام پر مجھے ہی یتیم کیوں کر دیا؟  وہ بے سہاروں کا سہارا بن کر آئے تھے انکے عشق کے دعویداروں نے غلام رسول کے بوڑھے ماں باپ کو بے سہارا کیوں کر دیا؟  وہ تو جہان پر محروموں کو عطا کرنے آئے تھے۔  ان کی ناموس کے محافظوں نے میری ماں کو زندگی بھر کے لیے غیر محفوظ کیوں بنا دیا؟ ۔کون ہے میرے بابا کا قاتل ؟ کون ہے یہاں پانچ زندگیوں کا قاتل؟ ۔کس نے ہم سب کو جیتے جی مار دیا؟ ۔سلامتی کے اس مذہب کو اپنی وحشت پر وار دیا۔؟ غلام رسول کے بیٹے کی بجھی ہوئی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو تابوت کے شیشے پر عین کندھے کی جگہ گرے جس کندھے سے وہ لگ کے کبھی روتا تھا تو غلام رسول کہتا تھا۔  پتر تو ایک پولیس افسر کا “باس” ہے رویا نہ کر جوانا ۔وہ منظر یاد کر کے غلام رسول کا بیٹا چپ کر گیا۔۔ سب لوگ کہہ رہے تھے آپ کے بابا زندہ ہیں کیونکہ شہید کبھی نہیں مرتے۔ اسکا چھوٹا سا ذہن یہ سوچ رہا تھا کہ بابا تو کہتے تھے کافروں سے لڑتے ہوئے مرنے والے شہید ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن یہاں تو مرنے والا بھی غلام رسول ،مارنے والے  بھی غلام رسول۔ ۔۔ لیکن وہ اندر ہی اندر خوش تھا کہ اسکا معصوم ذہن یہ سمجھ رہا تھا کیونکہ اسکا باپ شہید ہے اور شہید زندہ ہوتے ہیں تو شاید یہ تابوت یہیں رکھا رہے گا اور وہ روز اپنے بابا کو اس شیشے میں سے دیکھ لے گا۔  ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں تابوت اٹھاتے ہوئے لوگوں نے کہا۔۔
کلمہءِ شہادت۔۔۔۔اشھد لاالہالااللہ واشھدنامحمد رسول اللہ
وہ تابوت کی طرف لپکا۔۔۔۔ چلایا،  رویا، کسمسایا، تڑپا اور چیخا ،وہ غلام رسول سے پوچھنا چاہتا تھا کہ پیارے بابا ۔۔۔۔شہید اگر واقعی زندہ ہوتا ہے تو بس رک کر مجھے یہ بتا دو کہ ۔
اب میں غلام رسول کیسے بنوں گا بابا۔ ۔۔کیسے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply