• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نیوزی لینڈ اور زندگی دونوں کی واپسی۔۔محمد وقاص رشید

نیوزی لینڈ اور زندگی دونوں کی واپسی۔۔محمد وقاص رشید

نیوزی لینڈ اور زندگی دونوں کی واپسی۔۔محمد وقاص رشید/جنت سے نکلنے کے بعد خدا نے انسان کو زمین پر بھیجا اور آسمانی جنت کے حصول کی شرط یہ رکھی کہ جو خدا کی بنائی ہوئی اس جنت کا تصور ِانسانی ذہن میں ہے، خدا کا نائب ہونے کے ناطے زمین پر اس جنت کا پرتو اسکا نقشہ پہلے بنایا جائے۔ اگر خدا کی جنت کی تمام نعمتوں اور آسائشات کو ایک عام فہم لفظ میں سمونا ہو تو طالب علم کی نگاہ میں وہ لفظ “امن” ہے۔ وہاں ہر طرح کا امن ہو گا، ہر کسی کو ہر طرح کی امان حاصل ہو گی۔ تو بس خدا نے انسان کو زمین پر اپنی تمام تر ضروریات پوری کرنے کی دوڑ میں امن قائم کرنے کے امتحان میں ڈالا ہے اور انسان کو اسی فطرتِ سلیم پر پیدا کیا ہے سو زمین کو جنت یعنی پُر امن و امان بنانے کا تعلق انسانی سرشت سے ہے  اور یہی حکم دینِ اسلام دیتا ہے۔ فتنہ فساد کو قتل سے بڑا جرم قرار دیتا ہے۔ قتل بھیانک ترین انسانی جرم ہے۔ فتنہ فساد اس لیے اس سے بھی قبیح ہے کہ اس سے انسانیت اور زمین و انسان کے تعلق کی بنیاد کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے،امن یعنی جنت کی روح متاثر ہوتی ہے، اسی لیے میں دینِ اسلام کو طالب علم فطرت کے اصولوں کے عین مطابق سمجھتا ہے۔

1971 میں جب جنرل یحییٰ خان نے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تو باقی ٹکڑوں کو مجتمع کر کے ایک مضبوط ریاست اور افراد کے ہجوم کو اکٹھا کر کے ایک قوم بنانے کا ایک ہی راستہ تھا اور وہ یہ کہ پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جائے جس کے جمہوری رویوں کی بنیاد پر اداروں کو پروان چڑھایا جائے قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے قوم کو ترقی کی اس منزل کی طرف گامزن کریں جو پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا مقصد تھا اور اوپر بیان کردہ فلسفے کے مطابق یہاں وہ امن و امان قائم ہو جس کے لیے ہم انسان زمین پر اتارے گئے اور پاکستان بھی ایک جنت نظیر مملکت بن جائے،مگر افسوس کہ ماضی سے سبق نہیں سیکھا گیا اور جنرل ضیاءالحق نے قوم کی طرف سے اپنی حفاظت کے لیے پکڑائی گئی بندوق ایک بار پھر اپنی ہی قوم کی کنپٹی پر رکھ دی۔اس دفعہ فرق یہ تھا کہ بندوق تہجد گزار جرنیل نے مصلحت  میں لپیٹ کر تانی جس وجہ سے ہمیشہ سے اپنے بڑھے ہوئے پیٹ سے آگے نہ دیکھنے والی ملائیت کی حمایت انہیں حاصل رہی۔پاکستان نے سویت وار میں اسی ناعاقبت اندیشی سے حصہ لیا جس طرح اپنے ملک کے “کالوں ” پر فوج کشی کی تھی۔جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیاء تو مردِ مومن مردِ حق بن گیا، لیکن پاکستانی اپنی زمینی جنت کے بنیادی حق یعنی امن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ڈالر کو پاکستانی روپوں سے ضرب دیتے لاکھوں تربیت یافتہ شدت پسند پاکستانی معاشرے میں مردِ مومن کی دی ہوئی کلاشنکوفیں لے کر گھومنے لگے اور یوں پاکستان نے اپنی اور یہاں بستے حضرتِ انسان نے اپنی تخلیق کا مقصد کھو دیا۔افسوس کہ ہماری جنت اس فساد کی آماجگاہ اس دین کے نام پر بن گئی جس دین نے اسے قتل سے بڑا گناہ کہا تھا۔ ان کلاشنکوفوں نے اس ریاست کے اندر کتنی ریاستیں قائم کیں۔یہ ہمیں اگلے جرنیل صاحب کے دور میں پتا چلا ؟

ایک بار پھر افغان وار سے صرف ایک ہی سبق حاصل کیا گیا اور وہ یہ کہ ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھنا ہماری آنکھوں سے ہماری جنت کا خواب جب بھی نوچنے کا فیصلہ کیا گیا ہمارے ملک میں حکمرانی عوام کی نہیں تھی۔ملک آمریت کی مطلق العنانیت کے نرغے میں تھا۔ ملت نے اپنی ہی خریدی ہوئی بندوق اپنی ہی کنپٹی پر رکھوائے ہوئے ہینڈز اپ کر رکھے تھے۔اسے ایک بدصورت ترین اتفاق کیسے مان لیا جائے۔؟ اچھا بھلا پاکستان ایک جمہوری ڈگر پر تھا کہ عوام کے حقِ حکمرانی پر شب خون مارا گیا اور بندوق کے زور پر جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور دنیا کو یکسر تبدیل کر دینے والا 9/11 ہو گیا۔۔۔اور اسکے بعد “چراغوں میں روشنی نہ رہی “۔

اس دفعہ فرق یہ تھا کہ اب کے ضیاء الحق کے مجاہدین پرویز مشرف کے دہشتگرد بن گئے  اور اپنی قوم کو مکے دکھاتے جنرل صاحب نے قوم کو خود اپنی کتاب میں بتایا جسکا ذکر پچھلے دنوں “Absolutely Not” کے ہنگام موجودہ وزیراعظم نے فلور آف دی ہاؤس بھی کیا کہ امریکہ نے جو ڈالر افغان سویت وار کے دوران شدت پسند عرف مجاہدین تیار کرنے کے لیے دیے تھے اب انہیں مارنے اور پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے دے رہا ہے۔سو ہماری جنت ایک مکمل سکیورٹی سٹیٹ بن گئی۔

فساد اور فتنے کا عالم یہ ہو گیاکہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کہیں نہ کہیں بم دھماکہ نہ ہو۔اس سرزمین پر رہنے والے انسانوں کے جسموں کے چیتھڑے نہ اڑتے ہوں۔جدید ترین آتشیں اسلحہ سے انسان بھون نہ دیے جاتے ہوں۔یہاں کے خاکزاد اس دھرتی کو اپنے لہو سے مزید سیراب نہ کرتے ہوں،حتی کہ وہ انسانیت سوز وقت آ گیا کہ بم دھماکوں کی خبریں اتنی عام ہوئیں کہ مرنے والوں کی تعداد کی خبر کوئی سٹاک مارکیٹ کے حصص کی طرح لگنے لگی جسکے اتار چڑھاؤ سے صرف انکا تعلق ہوتا ہے جن کا یہ کاروبار ہوتا ہے۔

ہماری جنت کا کوئی کونہ کوئی چپہ کوئی قریہ کوئی ٹیلہ محفوظ نہ تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان کا سب سے طاقتور ایوان جی ایچ کیو بھی دہشتگردی کی زد میں آیا۔سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو یہاں سے باقی کاروبارِ زندگی کی طرح ایک جذباتی وابستگی کی حد تک چاہے جانے والے کھیل کو بھی رخصت ہونا پڑا۔ ہماری صنعتیں ہمارے کاروبار الغرض یہاں انسانی زندگی خوف ودہشت کی زنجیروں میں جکڑی طائرِ بسمل کی طرح تڑپنے لگی۔

انسانی جان چاہے سویلین کی ہو یا فوجی کی ایک جتنی قدرو قیمت رکھتی ہے۔ بچوں کی یتیمی سویلین اور فوجی کا فرق نہیں کرتی ، بوڑھے ماں باپ کے آنسو بیٹے کی سادہ قمیض یا وردی کو ایک ہی درد سے نم کرتے ہیں۔۔اس سماج میں بیوگی کا ناسور عورت کو ایک ہی طرح سے اندر ہی اندر کھا جاتا ہے۔چاہے اسکا سہاگ کوئی سویلین یا فوجی اور بھائیوں بہنوں کے بین ان دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتے۔۔ویسے تو اس محض ایک ادارہ جاتی فرق کو کوئی قومی سطح کی تفریق بن کر ابھرنا ہی نہیں چاہیے تھا مگر کیا کریں ایوب خان کے لمحوں نے خطا کی فاطمہ جناح کی صدیوں نے سزا پائی۔ہاتھوں سے لگائی ہوئی دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں  اور یہاں تو تیسری نسل کے دانت گرنے کو آ گئے، یہ گرہیں اور مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔

پچھلے بیس سال میں ایک نسل پیدا ہو کر جوان ہو چکی،اس نسل نے اپنے بچپن میں معصومیت کو اٹھکھیلیاں کرتے ، لڑکپن میں ہوش کی آنکھوں میں سہانے سپنے سجتے اور نوجوانی میں شعور کو زندگی کی دہلیز پر انگڑائیاں لیتے نہیں دیکھا، بم دھماکوں کو دیکھا ، ایمبولینسز کے ہوٹرز کو سنا ، روٹ لگتی گاڑیوں کی قطاروں میں سانس گھٹتے محسوس کیا ، گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنی اور اپنی سر زمین پر نئے آباد ہوتے قبرستان دیکھے ،یعنی اپنی جنت کو ایک سکیورٹی سٹیٹ بنتے دیکھا۔

ہمارے لیے بحیثیت قوم یہ ستر ہزار قیمتی ترین جانیں (فوجی ،پولیس والے اور عام عوام) لٹا کر اور پوری معیشت کا بھٹہ بٹھانے کے بعد پوری قوم نے دہشتگردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں بنیادی انسانی حقوق سے کر اپنے پیاروں کی جانوں تک اور اپنی دو وقت کی روٹی سے ملکی سطح کی صنعتوں تک اور ایک پورے علاقے کے لوگوں کا اپنے گھر بار چھوڑ کر انتہائی دگرگوں حالات میں اپنے ہی ملک میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے تک ہر قربانی دی اور خدا خدا کر کے یہ “سکیورٹی” کا لفظ ہماری سماعتوں سے اُترا اور یہاں زندگی نے خوف دہشت اور وحشت کی زنجیروں کو توڑنا شروع کیا۔ اسکے بعد کووڈ 19 سے بھی دنیا کی طرح ہم بھی نبرد آزما ہوئے اور یہاں دقتوں وحشتوں دہشتوں کے خونی اندھیروں کے بیچ جفا کی افق پر زندگی کی صبح طلوع ہوئی ۔

یاد رہے کہ ہم نے یہ سب قربانیاں دنیا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ بنتے ہوئے دیں ۔اس جنگ کے حلیف ممالک میں کسی نے دنیا کے امن کی یہ قیمت نہیں چکائی اور یہی آمرانہ فیصلوں کا خمیازہ ہوتا ہے۔  یہی فیصلہ پارلیمان نے ہر طرح کی بحث کرنے کے بعد کیا ہوتا تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے،دنیا جسکے امن کے لئے ہم نے اپنا تن من دھن وار دیا اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا؟ خدا خدا کر کے پاکستان میں نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم آئی اور ایک انتہائی مشکوک اور سازشی انداز میں سکیورٹی تھریٹ کا بہانہ بنا کر چار پانچ دن پریکٹس کرنے کے بعد عین میچ والے دن ہماری منت سماجت کے باوجود یکطرفہ طور پر دورہ ختم کر کے چلی گئی۔۔۔ پھر اسکے بعد انگلستان نے بھی ایسا ہی کیا۔

بہت دل دُکھا۔۔ گزشتہ بیس سال کے وہ تمام خون آشام مناظر چشمِ تصور میں آنے لگے۔ باجوڑ مدرسے کے معصوم بچوں سے لے کر اے پی ایس سکول کے تمام بچوں کی لاشیں نگاہوں سے گزرنے لگیں۔  دل اس پر بہت رنجیدہ ہوا کہ نیوزی لینڈ میں کوئی دہشتگردی کا سانحہ ہو ،امریکہ میں ،انگلینڈ میں یا کہیں بھی ہم نے نہ صرف اسکی مذمت کی بلکہ جہاں کہیں انسانی زندگی مجروح ہوئی اسکی آباد کاری میں پاکستان نے مثبت اقدامات سے لے کر نیک تمناؤں تک جو جو ہو سکا کیا ۔دنیا کے امن کے لئے اپنے ملک میں ہی بے اماں ہوئے ۔

میری ہی طرح پورا پاکستان چاہتا ہے کہ یہاں امن ہو ،خوشحالی آئے ، زندگی خوف و ہراس سے نکل کر اس دیس کے آنگن میں اٹھکھیلیاں کرتی نظر آئے ، یہاں کھیل کود ہو میلے ہوں زندگی کی واپسی کے جشن ہوں ، فضاؤں میں ایمبولینسز کی نہیں حیات کی موسیقی و نغمگی ہو ،درختوں سے چڑیوں اور سکولوں سے بچوں کے چہچہانے کی آوازیں آئیں ، زندگی کھلی فضا میں سانس لیتی جھومتی  قلقاریاں  بھرتی نظر آئے اور پوری دنیا محبت ،امن اور پیار کا گہوارہ بن جائے اور اس امن و امان میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف محض اس طرح ہی ہو جائے کہ ہمیں اس آباد کاری میں مدد کی جائے۔ ہماری اگلی نسلوں کو بارود کی بُو کا علم تک نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کسی نے میری فیس بک پر نیوزی لینڈ اور پاکستان کے میچ کے بعد میری ویڈیو جس میں میں نے نیوزی لینڈ پر بہت سارے پاکستانیوں کی طرح “سکیورٹی ” کا طنز کیا تو کسی نے اس پر “جذباتی ” کمنٹ کیا۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں بیس سال سے یہاں موت کا راج دیکھ دیکھ کر زندگی کی واپسی کے لئے جذباتی ہوں،کیونکہ میں بتا چکا کہ میں نے زمین پر خدا کی جنت کا عکس قائم کرنا ہے۔ مجھے امن قائم کرنا ہے۔
پاکستان زندہ و پائندہ باد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply