مقبوضہ کشمیر اور اقبال کا فلسفہ خودی۔۔ماہم ندیم

کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس بات میں  پوشیدہ ہوتا ہے کہ اس کی غیرت قومی کس درجے پر ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ میدان جنگ میں کبھی بھی تعداد جذبے پر حاوی نہیں ہوسکی ہے۔ غزوہ بدر ہمارے لیے اس کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں 313 کا لشکر اپنے کئی گنا زیادہ بڑے لشکر سے برسرپیکار تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کو کامیابی عطا فرمائی۔ جدید حربی ساز وسامان کی موجودگی یا تعداد میں زیادہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ کامیابی آپ ہی کے قدم چومے گی ۔

ہمارا وطن عزیز پاکستان علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ خطہ زمین حاصل کیا اور تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا حصول تلوار کے زور پر نہیں بلکہ جدوجہد آزادی کے عظیم رہنماؤں کی مدبرانہ قیادت اور نوجوانوں کے جذبہ خودی کے مرہون منت تھا۔ ہمیں یہاں علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

خودی فارسی زبان کا لفظ ہے۔ لغوی اعتبار سے خودی کے معنی انا، خود پرستی، خود مختاری، خود سری، خود غرضی اور غرور کے ہیں۔ لیکن اقبال نے ”خودی“ کا لفظ تکبر و غرور یا اردو و فارسی کے لغوی معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔ ان کے نزدیک خودی نام ہے احساسِ غیرت مندی کا، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔

یہاں یہ بات بِلا کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ اگر کسی قوم کو شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں کا جذبہ خودی چھین لیا جائے پھر چاہے وہ قوم یا ملک حربی طور پر کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو شکست اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ دور جدید میں ہم سویت یونین کی مثال لے سکتے ہیں جو بے پناہ ایٹمی ہتھیار رکھنے کے باوجود ٹکڑوں میں بٹ گیا اور دوسری جانب افغانستان جیسا پسماندہ ملک بھی ہے جہاں آج تک کوئی بڑی سے  بڑی قوت بھی اپنا مستحکم قبضہ نہیں جماسکی ہے اور ان قوتوں کو افغان نوجوانوں کی فولاد صورت خودی کے سامنے بدترین شکست ہوئی ہے۔

ہمیں یہاں مقبوضہ کشمیر کی جانب بھی نگاہ ڈالنی ہوگی جہاں قابض بھارتی فوج جدید ہتھیاروں سے لیس نہتے کشمیریوں کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے اور تمام تر بھارتی بربریت کے باوجود آج بھی کشمیری نوجوان پوری طاقت کے ساتھ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگارہے ہیں اور اس بات کی گواہی دے رہے ہیں جذبہ کے آگے ہتھیار کوئی  معنی نہیں رکھتے ہیں اور یہی کشمیری نوجوان آج علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر بن گئے ہیں کہ

Advertisements
julia rana solicitors london

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ،
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply