• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف نامہ۔۔۔ معاذ بن محمود

نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف نامہ۔۔۔ معاذ بن محمود

خبر ہے کہ پنجاب اسمبلی نے نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف شامل کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ میری ادنی دانستمیں قدم یہ کافی نہیں۔

ختم نبوت کا اقرار ہر مرحلے پر لازم ہے۔

اصولاً بچے کی پیدائش کے وقت لیبر روم لے جانے سے پہلے حاملہ عورت سے ختم نبوت کا اقرار کروانا چاہئیے۔

پھر بچے کی پیدائش کے بعد ماں کو اولاد کا چہرا دکھانے سے پہلے ایک بار پھر یہ اقرار ہونا چاہیے۔

اور یہ فریضہ صرف ماں پر ہی کیوں ہو؟ بچے کو پہلی بار دودھ پلانے سے پہلے بچے سے بھی اقرار کروانا چاہئے۔ ایسا ممکن نہ ہو توفرض کیا جانا چاہئیے کہ بچے نے اوں آں میں اقرار کی نیت ہی کی ہے۔

اب باپ کو تقریب طفل رونمائی سے پہلے ایک بار پھر اقرار کرنا چاہئے۔

بچے کے ختنوں سے پہلے پورے خاندان بشمول خاتن سے اقرار کروانا بھی ضروری ہے۔

بچے کا برتھ سرٹیفیکیٹ اس وقت تک نہیں بننا چاہئے جب تک بچے کے والدین اور نادرہ کا متعلقہ افسر ایک بار پھر اقرار ختم نبوت نہکر لیں۔

بچے کو سکول میں داخلہ دینے سے پہلے بچے، والدین، تمام سکول، اور سکول کے دیگر بچوں سے یہی اقرار کروانا لازمی ہونا چاہئیے۔

بچے کو کمرہ امتحان میں بیٹھنے سے پہلے ایک بار پھر اقرار ختم نبوت کرنا لازم ہونا چاہئے۔

نتائج کا اعلان اس وقت تک نہیں ہونا چاہئے جب تک بچہ، والدین، ممتحن، پیپر کا کاغذ بنانے والا، اس کی ترسیل کرنے والا ہر شخصختم نبوت کا اقرار نہ کر ڈالے۔

کالج اور پھر یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ختم نبوت کا اقرار، تمام متعلقہ آیات و احادیث اور ان کی تمام تر تفاسیر بچے کو یاد ہوناچاہئے۔ ناکامی کی صورت میں بچے کو کالج یونیورسٹی میں داخلہ نہیں دینا چاہئیے۔

بچے کے شناختی کارڈ، پاسپورٹ، چیک بک، اے ٹی ایم کارڈ، اِنکم ٹیکس ریٹرنز سمیت کسی بھی مستند دستاویز کا اس وقت تک اجراءنہیں ہونا چاہیے جب تک بچہ ایک بار پر ختم نبوت کا اقرار پچاس روپے والے سٹامپ پیپر پر نہیں کر دیتا۔

بچہ بڑا ہوجائے تو نکاح سے پہلے رشتہ دیکھنے کے وقت بھی سرکاری طور پر تمام فریقین، رشتہ کرانے والی آنٹیوں، محبت کی شادیکی صورت میں خط پہنچانے والے سہولت کاروں، موبائل آپریٹرز، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز کی جانب سے ختم نبوت کا اقرار لازمی ہوناچاہیے۔

نکاح کے وقت بھی ختم نبوت کا حلف نامہ ضروری ہونا چاہئے جس پر حکومت الحمد للّٰہ قائم کر رہی ہے۔

اس کے بعد شب زفاف سے پہلے حق مہر کی ادائیگی سے بھی پہلے ایک اور حلف نامہ بھرنا ضروری ہونا چاہئیے۔ بصورت دیگرمنکوحین سے ایک دوسرے تک رسائی کا حق چھین لینا چاہئیے اور دونوں کو الگ الگ کمروں میں بند کر دینا چاہیے۔ بلکہ اس ضمنمیں مقامی تھانے کا کردار اہم ہو سکتا ہے جس سے حکومت پاکستان کے خزانے میں بھی خاطرخواہ اضافے کا امکان ہے۔

حق مہر کی ادائیگی کے بعد ایک بعد پھر ختم نبوت کا اقرار ہونا چاہئے۔ پھر اس کے بعد، اس کے بعد کے بعد اور پھر صبح بھی ایکایسا ہی حلف نامہ مقامی ڈپٹی کمشنر کو پہنچانا لازمی قرار پانا چاہئیے۔

صبح ناشتے سے پہلے ایک بار پھر زبانی اقرار قانونی طور پر لازم قرار پانا چاہئیے۔

حمل ٹھہرنے کی صورت میں بچے کی ولدیت سے متعلق مستند دستاویز سے پہلے ایک اور حلف نامہ جمع کرانا لازمی ہونا چاہئے۔

حمل قریب آنے کی صورت میں۔۔۔

ایک منٹ۔۔۔ اب شروع سے دوبارہ پڑھا جا سکتا ہے۔

اب ہوگیا مکمل سائیکل۔

یہ ایک نہایت ہی اہم معاملہ ہے۔ ہمیں اپنی صفوں سے احمدیوں یا ختم نبوت کے انکاری ہر انسان کا مذہبی، معاشرتی، قانونی،حیاتیاتی غرضیکہ ہر قسم کا بائیکاٹ کر کے ان کی زندگی حرام کر دینی چاہئیے تاکہ خطہ پاکستان میں صرف اور صرف ہم سرکاریمسلمان باقی بچیں اور وہ بھی یوں کہ ہمیں ہر قدم پر ختم نبوت کے اقرار کا زبانی، کلامی، تحریری ثبوت دینا پڑے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم فلاح پا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply