کینسر (6) ۔ اینٹی وٹامن/وہاراامباکر

ممبئی برطانوی سلطنت کا حصہ تھا۔ یہاں پر کپڑے کی ملوں میں مزدوروں کے لئے حالات ابتر تھے۔ یہ شدید غربت میں اور بغیر میڈیکل کی سہولت کے رہتے تھے اور غذا کی کمی کا شکار تھے۔ جب برطانیہ سے جانے والے ڈاکٹروں نے 1920 کی دہائی میں ان مزدوروں کو ٹیسٹ کیا تو دریافت کیا کہ ان میں سے کئی شدید انیمیا کا شکار تھے۔ خاص طور پر وہ خواتین جو مائیں بنی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لندن کی ایک نوجوان ڈاکٹر لوسی ولز نے 1928 میں ممبئی میں کئے جانے والے تجربات میں اس کا علاج دریافت کیا۔ یہ علاج فولک ایسڈ یا فولیٹ تھا۔ یہ وٹامن کی طرح کا کیمیکل سبزیوں اور پھلوں میں پایا جاتا ہے۔ جب خلیے تقسیم ہوتے ہیں تو انہیں اپنے ڈی این اے کی کاپی بنانی ہوتی ہے۔ فولک ایسڈ ڈی این اے کا ایک کلیدی بلڈنگ بلاک ہے۔ خون کے خلیے بہت تیزرفتار سے بنتے ہیں۔ ایک روز میں یہ تعداد تین کھرب سے زیادہ ہے۔ فولک ایسڈ اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اس کی کمی ہو تو پھر نئے خلیوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ کروڑوں خلیے بنتے ہیں لیکن میچور نہیں ہو پاتے۔ اس بائیولوجیکل فیکٹری کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وٹامن، ہڈی کے گودے اور خون کا یہ لنک میڈیکل کی اہم دریافت تھی۔ فولک ایسڈ انیمیا ٹھیک کر دیتا تھا۔ فاربر نے سوال کیا کہ کیا یہ بچوں کے لیوکیمیا کو بھی ٹھیک کر سکے گا؟ انہوں نے فولک ایسڈ حاصل کیا اور بچوں پر اس کا تجربہ شروع کیا۔
اگلے چند مہینوں میں معلوم ہوا کہ اس کا اثر الٹ ہوتا ہے۔ بیماری کی رفتار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ فاربر نے تجربہ روک دیا۔ لیکن ایک دلچسپ سوال پیدا ہو گیا۔ اگر فولیٹ سے لیوکیمیا تیز ہو جائے تو پھر کیا کوئی اینٹی فولیٹ موجود ہے جو خون کے سفید خلیوں کے بڑھنے کو بلاک کر دے؟
اگر خون کا گودا ایک خلیے بنانے والی فیکٹری ہے تو لیوکیمیا وہ نقص ہے جس میں فیکٹری بہت زیادہ کام کر رہی ہے اور کینسر کے خلیے بنانے کا یونٹ بن گیا ہے۔ اگر ان کے بننے کی رفتار کم ہو تو اس کا علاج غذا کے ٹھیک عنصر کا اضافہ تھا لیکن اگر زیادہ ہو تو پھر اسے آف کرنے کے لئے کیا کیا جائے؟ فاربر کا اب یہ سوال تھا۔ کیا ایسا “اینٹی وٹامن” مل سکتا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یلا سوباراو خلیاتی فزیولوجسٹ تھے جن کا فوکس زندہ خلیات میں سے بائیوکیمیکل کشید کرنے پر تھا۔ انہوں نے اے ٹی پی مالیکیول نکالا تھا جو تمام جاندار چیزوں کے لئے توانائی کی کرنسی ہے۔ ایک اور مالیکیول کرئیٹائن نکالا تھا جو پٹھوں میں توانائی کا کیرئیر ہے۔ ان کی اگلی توجہ فولیٹ کی طرف تھی۔ 1946 میں انہوں نے کئی ناکام کوششوں کے بعد کامیابی سے فولک ایسڈ کو سنتھیٹک طریقے سے تیار کر لیا۔
اس کامیابی کا اضافی بونس بھی تھا۔ اس کو تیار کرنے کے کئی مراحل تھے اور ترکیب کی معمولی سی تبدیلی کے ساتھ ملتے جلتے کیمکل تیار ہو جاتے تھے جن میں سے کچھ فولک ایسڈ کو روکنے والے بھی تھے۔ یہ وہ اینٹی وٹامن تھے جو فاربر کا خواب تھے۔ فاربر نے کلٹی اور سوباراو کو لکھا کہ وہ ان کو لیوکیمیا کے مریضوں پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سوباراو نے حامی بھر لی۔ 1947 کے موسمِ گرما میں اینٹی فولیٹ کا پہلا پیکج نیویارک کی لیبارٹری سے فاربر کو بھیج دیا گیا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply